امریکہ کی دوستی کا انداز اور ہمارا رویہ
روزنامہ جنگ بدھ 5 ستمبر 2001ء
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ابتدائی چند برسوں کے سوا پاک امریکی دوستی کی گاڑی یکطرفہ ہی چلتی رہی ہے۔ پاکستان کی وفاؤں اور امریکہ کی جفاؤں کی داستان طویل بھی ہے اور تلخ بھی۔ امریکہ سے دوستی کے سبب پاکستان کو بعض وقت سنگین خطرات سے بھی دوچار ہونا پڑا لیکن اس دوستی کو نبھانے میں ہماری طرف سے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ اس کے برعکس امریکہ کی طرف سے ہمیں سیاسی میدان میں نقصان پہنچانے، ہماری اقتصادی اور عسکری قوت کو کمزور کرنے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی کی راہوں کو مسدود کرنے بلکہ ہماری توہین و تذلیل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھہ سے نہیں جانے دیا گیا۔ یہ باتیں مفروضہ ہیں نہ کسی تنگ نظری یا تعصب کا نتیجہ یہ تو وہ روشن حقائق ہیں جن پر دیانت داری کے ساتھہ غور کرنے والا امریکی بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا۔ اسی پس منظر میں حالیہ دنوں کے دوران امریکہ کی طرف سے دیئے گئے بیانات پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو اطمینان ہوتا ہے کہ کئی عشروں کے بعد ہی سہی ہمارے بارے میں امریکہ کی سوچ میں شاید بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ اسی سلسلے میں ہر اس پاکستانی کا خوشی سے جھوم اٹھنا یقینی ہے جس نے 23 اگست کے اخبارات میں امریکی معاون وزیر دفاع برائے عالمی امور پیٹر روڈمین سے منسوب ایک بیان میں یہ پڑھا ہے کہ " امریکہ پاکستان کو کھونا نہیں چاہتا، پاکستان سے دوستی فائدہ مند ہے۔ امریکہ بھارت تعلقات میں وسعت کی گنجائش محدود ہے وہ امریکہ کا اتحادی نہیں بنے گا۔" اگر بات یہیں تک رہتی تو ہم امریکہ کی طرف سے ہر اہم مرحلہ پر ہتھیاروں کی خریداری اور ان کی ادا کردہ کروڑوں ڈالروں کی ضبطی، بچوں کی مشقت کے نام پر کھیلوں کے سامان اور قالین وغیرہ کی تجارت پر بندش، کبھی کسی ملک سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کرنے اور کبھی یہ ٹیکنالوجی دوسرے ملک کو منتقل کرنے کے مضحکہ خیز الزامات لگا کر ہمارے خلاف دفاعی اقتصادی اور تجارتی پابندیاں عائد کرتے رہنے کی مشق کے باوجود ہم امریکہ کی ان باتوں پر بھروسہ کرلیتے ہیں کیسا ہی گیا بیتا پاکستانی کیوں نہ ہو اس کا خون کھول جائے گا جب وہ پیٹر روڈمین کے بیان میں یہ پڑھے گا کہ " بھارت امریکہ کا اتحادی نہیں بنے کیونکہ وہ اپنی آزادی اور غیرجانبداری کو اہمیت دیتا ہے" اس کا مطلب اس کے سوا اور کچھہ بھی نہیں کہ امریکہ کی اتحادی اور دوست صرف وہی قوم بن سکتی ہے جسے اپنی آزادی، خودمختاری وار عزت وقار کبھی بھی عزیز نہ ہو۔ لیکن امریکی اہلکار یا امریکہ پر برسنے سے پہلے ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھہ اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتے ہوئے یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم سے کوئی ایسی حرکتیں تو سرزد نہیں ہو گئیں جو ایک آزاد، خودمختار اور خود دار قوم کی شان کے خلاف ہوں اور جن سے پیٹر روڈ مین کو یہ سب کچھہ کہنے کا موقع مل گیا۔ ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہی ہوگا کہ ماسوائے چند ہمارے حکمراں پاکستان کے مقابلے میں امریکی مفادات اور اسکی خواہشات کی تکمیل کو ترجیح دیتے رہے ہیں اور اس کا سبب غلط یا صحیح تاثر ہے کہ امریکہ جس فرد کا چاہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے سر پر بٹھا کر اقتدار اس کے حوالہ کردیا جاتا ہے۔ پھر پاکستان میں کچھہ ایسے اقدامات بھی کئے گئے جن کے بارے میں حساس دانشوروں اور ذمہ دار سیاستدانوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ پاکستان کی خودمختاری پر ان سے زد پڑی ہے ان میں سے چند کا ذکر کرکے یہ دیکھتے ہیں کہ ان سے ہماری خودمختاری کو کس قدر صدمہ پہنچا۔ ہم نے ایک پاکستانی شہری یوسف رمزی کو امریکہ کی طلب پر اس کے حوالہ کردیا تاکہ وہ اس پر مقدمہ چلا سکے۔ یوسف رمزی نے پاکستان میں کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ ایک اور پاکستانی ایمل کانسی بھی امریکہ کو مطلوب تھا۔ ہمارے حکمرانوں نے ایمل کانسی کے ٹھکانے کا سراغ لگانے اور اسے گرفتار کرکے امریکہ لے جانے کے سلسلے میں اجازت دی کہ امریکی خفیہ ادارے اپنے جاسوسوں کے ذریعے جب جہاں اور جو کاروائی بھی ضروری سمجھتے ہوں کرسکتے ہیں۔ نتیجتاً ایک ایسے شہری کو جس نے پاکستان میں کوئی جرم نہیں کیا تھا انتہائی ذلت آمیز طریقہ پر گرفتار کرکے امریکہ پہنچادیا گیا۔ امریکہ کے ایک اشارے پر ایاز بلوچ کو جیل سے رہا کرکے امریکی سفارت خانہ کے حوالہ کردیا گیا جسے امریکی حکام نے امریکہ بھیج دیا۔ ایاز بلوچ بھی ایک پاکستانی شہری تھا جس نے اپنے ملک کے خلاف گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا تھا اور اسے ملک کی فوجی عدالت کی طرف سے طویل قید کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ بھی امریکہ نےجس پاکستانی کو طلب کیا ہم نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس کی خواہشات کی تکمیل میں کسی کوتاہی یا غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ایسا کرتے وقت نہ پاکستان کی عدالتوں سے رجوع کیا نہ اپنے ملک کے آئین و قانون اور روایت کا احترام ملحوظ رکھا۔ پھر ایک امریکی ریاست کے اٹارنی جنرل نے ایمل کانسی کی گرفتاری کے عوض چند لاکھہ ڈالر انعام دیئے جانے کے حوالے سے پاکستانیوں کو گالی دینے کی سنگین گستاخی کی لیکن اس وقت کے وزیر اعظم نے شان خسروی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معافی طلب کئے بغیر ہی گستاخ کو معاف کردیا۔
اگر پاکستان میں کبھی کسی امریکی کا قتل ہوگیا تو معاملہ کی تفتیش و تحقیق حتٰی کہ زخمیوں سے ملاقات اور لاشوں کے معائنے سے بھی پاکستانی پولیس اور متعلقہ حکام کو دور رکھا گیا۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اس کی حدود میں رونما ہونے والے کسی بھی قسم کے واقعے سے اس کو کس طرح لاتعلق کیا جاسکتا ہے اور لیجئے اسامہ بن لادن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بہانے امریکہ نے آزاد اور خودمختار افغانستان پر میزائلوں کی بارش کردی اور یہ سب کچھہ پاکستان کی بحری، فضائی اور زمینی حدود کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا گیا۔ خود ہماری اپنی سرزمین پر بھی کئی میزائل گرے یا عمداً گرائے گئے لیکن کیا مجال کہ پاکستان کے حکمرانوں کو جھوٹے منہ ہی امریکہ سے احتجاج کے دو الفاظ کہنے کی توفیق نصیب ہوئی ہو۔ بدقسمتی سے آج بھی صورتحال میں کوئی خاص فرق نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ تلاش میں رہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کا کوئی جھوٹا سچا ساتھی یا ایسا شخص جس کی "نیت" امریکہ کے خلاف دہشت گردی کرنے کی ہو ہاتھہ لگ جائے تاکہ اسے امریکہ کی خدمت میں پیش کرکے " دہشت گردی کے خلاف تعاون" کی سند حاصل کی جاسکے۔ پھر یہ بھی انتہائی افسوسناک ہے کہ افغانستان کے خلاف عائد ناجائز اور غیر انسانی پابندیوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی غرض سے پاکستان میں اقوام متحدہ کو مبصر تعینات کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جبکہ خود پاکستان کے ترجمان کا یہ اعتراف ہے کہ اقوام متحدہ کے اس اقدام سے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری متاثر ہوگی۔
امریکہ کی نظر میں پاکستان کی اہمیت کس قدر ہے اس کا اندازہ اسی تاریخ کے اخبارات سے ہوتا ہے جس تاریخ کو پیٹرروڈمین کا بیان چھپا ہے خبر یہ ہے کہ "پاکستانی سفارت کار امریکی صدر اور جنرل پرویز کی ملاقات کے لئے کوشاں ہیں" اسی خبر کے اگلے حصہ میں بتایا گیا ہے کہ " امریکی ذرائع کے مطابق صدر بش واجپائی سے ملاقات کے خواہشمند ہیں۔ اگر بش واجپائی ملاقات ہوئی تو پھر بش پرویز ملاقات کے امکانات بھی روشن ہوجائیں گے کیونکہ امریکہ جنوبی ایشیاء کے حساس خطے میں کوئی غلط سگنل نہیں بھیجنا چاہتا۔" 25 اگست کے اخبارات سے معلوم ہوا کہ پاکستان نے بین الاقوامی ادارہ مالیات (ائی ایم ایف) کو یقین دلایا ہے کہ دو سال تک وہ دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کرے گا۔ جس قوم کو بھارت جیسا بدخواہ، جارح اور توسیع پسند پڑوسی ملا ہو اس قوم کی طرف سے اس قسم کی یقین دہانیاں خودکشی کے مترادف ہیں۔ پچھلے دنوں خبریں آئیں کہ صدر مملکت کیوبا کا دورہ بھی کریں گے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ امریکہ کے کہنے پر وہ دورہ ختم کردیا گیا ہے۔ کون سی قربانی ہے جو ہم نے امریکہ کی خاطر نہیں دی لیکن جب ہم نے اس سے چند قومی مجرموں کو ہمارے حوالہ کرنے کی بات کی تو ہمیں ٹکا سا جواب مل گیا کہ اپنا کیس پیش کرو اور عدالت میں ثابت کرو۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ پاکستان کی عدالتیں یہاں کا قانون یہاں کا آئین احترام اور عمل کا متقاضی ہے ۔ عالمی اداروں کے ہاتھوں اپنی آزادی اور خودمختاری کو سودا کرنے یا بڑی طاقتوں کے اشاروں پر ناچنے والوں کو تاریخ میں ذلت و رسوائی کی علامت کے طور پر محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس تلخ حقیقت سے چشم پوشی ممکن ہی نہیں کہ ملک کے بیشتر حکمرانوں اور نوکر شاہی کی بدعملی، ناقص منصوبہ بندی اور ذاتی و گروہی مفاد پرستی کے سبب ہمارے وطن عزیز کی آزادی ، خودمختاری اور عزت و وقار کو ناقابل معافی نقصان پہنچاہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہر ایرا غیرا پاکستان پر پھبتی کسنے اور اس پر حکم چلانے لگتا ہے کوئی بھی خود دار قوم اس صورتحال کو برداشت نہیں کرسکتی ہے۔ دنیا میں قائم اس تاثر کو ختم کرنے کیلئے قوم کے ہر فرد کو دیانت داری اور عزم و حوصلہ کے ساتھہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا۔
No comments:
Post a Comment