قومی شناختی کارڈ چند تجاویز

روزنامہ جنگ جمعۃ المبارک 22 اگست 1986ء

قومی شناختی کارڈ ملازمت اور پاسپورٹ وغیرہ کے حصول اور زمین و جائیداد کی خریدوفروخت کے لئے اب تقریباً لازمی ہوچکا ہے امید ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں رائے دہی کے لئے بھی اس کا پیش کرنا ضروری قرار دے دیا جائے گا۔ لیکن شناختی کارڈ کے حصول کے سلسلہ میں ملک کے مختلف علاقوں کے لوگوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی خبریں آئے دن اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ ملک میں ایسے خوش قسمت بھی خاصی تعداد میں ہیں جو ایک سے زیادہ شناختی کارڈ رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والے بنگلہ دیش باشندوں کے علاوہ کچھہ افغان مہاجرین بھی اب پاکستان کا قومی شناختی کارڈ رکھتے ہیں لیکن اس سلسلہ کی سب سے زیادہ تشویشناک خبر پچھلے دنوں آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ بلوچستان اور صوبۂ سرحد میں افغان مہاجرین کو ہزاروں کی تعداد میں قومی شناختی کارڈ جاری کردیئے گئے ہیں ' ایسے وقت جبکہ ملک میں تخریب کار بھی سرگرم عمل ہوں بڑی تعداد میں غیر قانونی طورپر جاری کردہ شناختی کارڈ بہت زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

ہم یا تو بہت زیادہ فراخ دل ہیں یا انتہائی بزدل کہ قومی معاملات میں بدعنوانی کے مرتکب افراد کو کبھی کچھہ نہیں کہتے چاہے کوئی جعلی شناختی کارڈ جاری کردے، سرکاری املاک کو خرد برد کردے، لاکھوں کروڑوں کا غبن کردے، سرکاری گوداموں سے چاول اور اناج غائب کردے، چاول کے بجائے چرس اور ہیروئن باہر بھیج دے کسی بھی معاملہ میں ہم تحقیقات سے آگے بڑھنے کی غلطی نہیں کرتے اور ہماری سوچ کا جو انداز ہے اس لحاظ سے یہ بات کچھہ درست بھی معلوم ہوتی ہے سرکاری خزانہ کو نقصان پہنچانے والے بیچارے کسی کا ذاتی نقصان تو نہیں کررہے اور پھر اس مملکت خدا داد کی ہر چیز تو ہے ہی دونوں ہاتھوں سے لوٹنے اور اپنا گھر بھرنے کے لئے۔

اس علاقہ میں یہ بات ویسے تو لطیفے کے طور پر مشہور ہے لیکن ہے یہ حقیقت کہ انگریز اور ہندو وقت سے پہلے مسلمان عین وقت پر اور سکھہ وقت گزرنے کے بعد سوچتا ہے لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سکھوں نے ہماری جگہ اور ہم نے سکھوں کی جگہ لے لی ہے۔ طوفان کے گزر جانے کے بعد ہم اس سے بچاؤ کےلئے منصوبہ بندی کرتے ہیں ہمارے ارباب حل و عقد اور منصوبہ ساز ہر منصوبہ میں کچھہ نہ کچھہ جھول اور چور دروازے ضرور رکھتے ہیں تاکہ " متعلقین کی خدمت" کا سلسلہ جاری رکھا جاسکے۔ معاشرہ سے بدعنوانیوں کا سو فیصد سدباب تو نیت کےبغیر ممکن نہیں لیکن اگر بہتر طریقہ پر منصوبہ بندی کی جائے تو اس میں بہت حد تک کمی ضرور لائی جاسکتی ہے جعلی شناختی کارڈوں کے ذریعہ ملک اور قوم کو کس قدر نقصان پہنچایا جاسکتا ہے موجودہ حالات میں جبکہ ملک کے اندر غیر ملکی ایجنٹ اور تخریب کار سرگرم عمل ہوں اس کا تصور بہت مشکل ہے ان حالات کی روشنی میں ضروری ہے کہ اب تک جاری کردہ شناختی کارڈ فوری طور پر منسوخ کردیئے جائیں اور شناختی کارڈ کے محکمہ کی جداگانہ حیثیت ختم کرکے اسے الیکشن کمیشن ہی کا ایک شعبہ بنادیا جائے۔

اب تک جاری کردہ شائع کارڈوں کی تنسیخ عجیب بلکہ قابل اعتراض معلوم ہوگی لیکن جو کام بھی ناقص منصوبہ بندی اور خوب غور و خوض کے بغیر کئے جائیں گے ان کا تو یہی حشر ہوگا تسلیم کہ ایسا کرنے سے ایک عشرہ سے زیادہ مدت کے دوران کئے گئے کام پر پانی پھر جائیگا لیکن قومی سلامتی کے پیش نظر ایسا کرنا ضروری ہے اس لئے کہ اس طرح وہ جعلی کارڈ بھی منسوخ قرار پائیں گے جو اب تک نامعلوم کتنے تخریب کاروں اور غیر ملکی ایجنٹوں کو جاری ہوچکے ہیں البتہ ایک محدود مدت تک ان کو کارآمد سمجھا جاسکتا ہے جاری کردہ کارڈ متعلقہ کونسلروں کے دفاتر میں جمع کروادیئے جائیں اور کونسلر کی تصدیق کے بعد ان کی جگہ نئے کارڈ جاری کردیئے جائیں اور کونسلر کی تصدیق کے بعد ان کی جگہ نئے کارڈ جاری کردیئے جائیں اگر کوئی شخص کارڈ حاصل کرنے کے بعد اپنے، دبے، شہر یا حلقے سے نقل مکانی کر چکا ہو تب بھی یہ کارڈ جس حلقے میں اب وہ رہ رہا ہے جمع کروادے اور دوسرا کارڈ بنانے سے پہلے اس حلقے کے کونسلر سے جس کا مستقل پتہ درج ہے تصدیق کروائی جائے۔ نئے فارموں کی تصدیق محلہ کے ان دو حضرات سے جن کو قومی شناختی کارڈ جاری ہوچکے ہوں کروانے کے بعد حلقہ کونسلر ان کی مزید تصدیق کرے اگر کسی کونسلر کے خلاف غلط فارم کی تصدیق ثابت ہوجائے تو اسی لئے سزا مقرر کی جائے جس میں دس سال تک کسی بھی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی بھی شامل ہو۔ شناختی کارڈ کی تقسیم بھی متعلقہ کونسلر کے ذریعہ ہی کروائی جانی چاہئے لیکن اس سے پہلے درخواست دہندہ کے ضروری کوائف کی تشہیر متعلقہ کونسل یا علاقہ میں کسی نمایاں جگہ پر کی جائے۔ تاکہ اگر کسی نے غلط بیانی کی ہے یا کسی ایسے شخص نے درخواست دی ہے جو اس علاقہ میں ہیں رہتا تو اس کے خلاف درخواست دی جاسکے۔ شناختی کارڈ کو اسی طرح ڈیزائن کیا جائے کہ اس میں ضلع کی بنیاد پر خاندان نمبر اور فرد کا نمبر شمار سائٹفک طریقہ پر کمپیوٹر کی ضرورت کے مطابق درج کیا جائے اس میں اور باتوں کے علاوہ مذہب، خون کا گروپ اور ڈومیسائل بھی درج کیا جائے اس کے علاوہ چند مخصوص خانے بھی اس میں رکھے جائیں جن میں سے ایک میں پاسپورٹ کے اجراء کے وقت اور دوسرے میں حق رائے دہی کے استعمال کے وقت سوراخ کردیئے جائیں، سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کے کارڈوں کے رنگ مختلف ہوں اور تمام معلومات کو ریجنل دفتر جو ضلع یا ڈویژن کی سطح پر ہو اور مرکزی دفتر میں کمپیوٹر کے ذریعہ اس طرح محفوظ کیا جائے کہ اس میں کوئی شخص بھی تبدیلی نہ کرسکے۔

ایک آزاد اور جمہوری ملک ہونے کی بناء پر ضروری ہے کہ رائے دہندگان کی فہرست ہر وقت تیار رہے اور یہ ہر لحاظ سے Up-to-Date بھی ہوتا کہ کوئی شخص بھی حق رائے دہی کے استعمال سے کسی بھی مرحلہ پر محروم نہ رہ سکے۔ وقتاً فوقتاً رائے دہندگان کی فہرستوں کی تیاری سے قومی خزانہ پر بلاوجہ بار پڑتا ہے اور اس لئے کہ فہرستوں کی تیاری کے لئے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ انتخابی فہرستیں شناختی کارڈ کے لئے دی گئی درخواستوں میں درج اطلاعات کی بنیاد پر تیار کی جائیں اور یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے۔ جبکہ شناختی کارڈ کا شعبہ الیکشن کمیشن کے زیر نگرانی ہی ہو۔ فہرست رائے دہندگان میں شناختی کارڈ کا نمبر شمار بھی درج کیا جانا چاہئے تاکہ انتخابات کے موقع پر نام تلاش کرنے میں کوئی وقت نہ ہو۔

شناختی کارڈ اٹھارہ سال کی عمر کے افراد کو جاری کئے جاتے ہیں جبکہ اس عمر کے افراد کو رائے دہی کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس لئے کارڈ میں عمر یا تاریخ پیدائش درج کی جانی چاہئے لیکن ہمارے ہاں تاریخ پیدائش کے بجائے صرف عمر بتائی جاسکتی ہے اس لئے کارڈ میں عمر درج کرنے کا بھی خاص اصول مقرر کیا جائے۔ فرض کیجئے کہ کسی شخص کی تاریخ پیدائش یکم جنوری اور 30 جون کے درمیان ہے اور اس کا کارڈ 1986ء میں تیار کیا جارہا ہے تو اس کی عمر اس طرح شمار کی جائے گویا اس کی تاریخ پیدائش یکم جنوری ہے فرض کیجئے کہ کسی کی تاریخ پیدائش 1956ء کی پہلی ششماہی ہے تو اس کی عمر 1986ء کے پورے سال کے دوران بنائے گئے کارڈوں میں 30 سال درج کی جائے اور اگر اس کی تاریخ پیدائش 1952ء کی دوسری ششماہی کی ہے تو اس کی عمر 29 سال درج کی جائے اور اسی عمر کی بنیاد پر حق رائے دہی کا فیصلہ کیا جائے۔ ملک کے تمام بالغ اور نابالغ افراد کے بارے میں معلومات الیکشن کمیشن کے پاس مہیا ہوں گی اس لئے جیسے ہی کوئی شخص رائے دہی کی عمر کو پہنچے اس کا نام فوری طور پر فہرست رائے دہندگان میں شامل کرلیا جائے اس طرح بار بار فہرستیں تیار کرنے کی زحمت سے بھی بچا جاسکے گا اور یہ فہرست بھی ہر لحاظ سے مکمل رکھی جاسکے گی۔

الیکشن کمیشن کو باخبر رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ پیدائش اور موت کی اطلاع متعلقہ محکموں کے علاوہ اسے بھی دی جائے اور یہ کام بھی حلقہ کے کونسلر کے ذریعے ہی کیا جائے تاکہ نچلی سطح پر بھی معلومات رکھی جاسکیں متوفی کا کارڈ بھی ضروری قانونی کاروائیوں کے بعد کونسلر کے دفتر میں جمع کروایا جانا چاہئے جو الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جائے۔

ہمارے ملک میں کچی آبادیوں کا قیام بھی بہت منفعت بخش کاروبار ہے، سرکاری زمین پر ، ندی نالوں کےکناروں پر یا کسی کے خالی پلاٹوں پر جھونپڑیاں ڈالنا ہمارے بہت سے ہم وطنوں کا محبوب مشغلہ ہے اگر حکومت سنجیدگی سے چاہے تو شناختی کارڈوں کے ذریعہ اس رجحان کا تدارک بھی ممکن ہے۔

درج بالا تجاویز کو ماہرین اور صاحب الرائے حضرات کی مدد اور مشورہ سے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ مانا کہ جاری کردہ شناختی کارڈوں کی تنسیخ کی تجویز بڑی مضحکہ خیز نظر آتی ہے لیکن اگر دیانت داری، مستعدی اور جامع منصوبہ بندی کے ساتھہ کام کیا جائے تو اس کام کی تکمیل کےلئے چھہ ماہ سے زیادہ مدت درکار نہیں ہوگی لیکن ایک مرتبہ ان خطوط پر کام پایۂ تکمیل کو پہنچادیا گیاتو پھر ہم اس شعبہ میں ہر قسم کی بدعنوانیوں، جعلسازیوں اور پیچدگیوں سے بچ جائیں گے اور اخراجات میں بھی بہت کمی آجائے گی اگر اس سلسلہ میں مزید غور کیا جائے تو مردم شماری کے کام کو بھی یکجا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اولین شرط یہ ہے کہ ہمارے ارباب حل و عقد کسی مسئلہ کو قومی نقطۂ نگاہ سے حل بھی کرنا چاہیں یا ملک کی سیاسی حکومت اس قسم کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا حوصلہ رکھے ورنہ اسی طرح جو کوئی بھی چاہے گا شناختی کارڈ خریدتا رہے گا اور ہم معلوم نہیں آستین کے کتنے سانپوں کی پرورش کی غلطی کرتے رہیں گے۔

No comments:

Post a Comment