محصورین بنگلہ دیش اور ہم
روزنامہ جنگ منگل 28 فروری 1989ء
جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت، عوام کی فلاح و بہبود ان کے جمہوری حقوق اور ان کی جان، مال اور عزت و آبرہ کے تحفظ کی ضمانت دنیا کے ہر دستور کی روح اور اس کی بنیاد ہے لیکن بدقسمتی سے 1971ء میں ہماری وفاقی حکومت دستور کے اس بنیادی تقاضے پر پورا اترنے میں بری طرح ناکام رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنے ایک بازو یعنی مشرقی پاکستان سے ہاتھہ دھو بیٹھے اور کروڑوں پاکستانی دیکھتے ہی دیکھتے بنگلہ دیشی اور لاکھوں افراد اپنے ہی وطن میں بے وطن اور اپنے ہی گھر میں بے گھر ہوگئے۔ حب وطن اور دفاع وطن کے "جرم" میں بے شمار پاکستانیوں کو اذیت ناک سزائیں دی گئیں اور ان گنت لوگوں کو شہید کردیا گیا۔ جان سے ہاتھہ دھونے اور بے وطن اور بے گھر ہونے والے جیالوں اور جانبازوں میں ان کی اکثریت تھی جو اس ملک کی خاطر 14 اگست 1947ء سے قبل برسہا برس تک ہندوؤں کی اکثریت کے ہاتھوں ظلم و ستم اور تشدد کا شکار ہوتے رہے تھے۔ ان میں ان لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی جنہوں نے ہجرت کرکے نوزائیدہ اسلامی ممالک میں آباد ہوکر اس کی تعمیر و ترقی اور استحکام کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور جب وطن عزیز کی جغرافیائی سالمیت کو نادان ہم وطنوں اور ہمارے ازلی دشمنوں کے ہاتھوں خطرہ پیدا ہوا تو وہ پھر سینہ سپر ہوگئے۔ انہوں نے قدم قدم پر بھارت کی فوج کا مقابلہ کیا ' پاک افواج کے جیالوں کی مدد کی اور دفاع وطن کی راہ میں بے مثال جانی اور مالی قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن پاکستان کی مرکزی قیادت ملک کے چپہ چپہ کی حفاظت کی ذمہ داری کا عہد نہ بنھا سکی اور دشمن کے آگے ہتھیار ڈال کر اپنی آئینی ذمہ داریوں سے انحراف کا ارتکاب کیا اور مشرقی پاکستان سے راہ فرار اختیار کرلی جس کے نتیجہ میں مکتبی باہنی اور بھارتی فوج کی نگرانی میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم کردیا گیا لیکن وطن کی محبت سے سرشار ایسے دیوانوں کی کمی نہیں تھی جنہوں نے اس ظلم و ستم کے آگے سرجھکانے سے انکار کردیا۔ بنگلہ دیش کا شہری بن کر باعزت زندگی گذارنے کی دعوت کو ٹھکراکر انہوں نے مصائب اور آلام کو سینے سے لگالیا وہ دراصل آج بھی پاکستان کی جنگ لڑرہے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ اس جنگ میں کامیاب رہے ہیں جبکہ ہمیں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ اس طرح کامیاب رہے کہ موت و زیست کی کشمکش میں بھی انہوں نے اپنی پاکستانی وطنیت سے دستبردار ہونا منظور نہیں کیا ہے جبکہ ہم نے چند ماہ بعد اسی بنگلہ دیش کو منظور کرکے اقتدار کو بلا شرکت غیرے بنا لیا۔ "بہاری" بھی اگر بنگلہ دیش کی تحریک کا ساتھہ دیتے یا بنگلہ دیش کا شہری بن کر رہنا گوارا کرلیتے تو وہ اس بدترین صورتحال سے دوچار ہونے سے بچ جاتے جس سے نکلنے کی فوری صورت بھی آج ہماری بے حسی کے باعث نظر نہیں آتی۔ لیکن پاکستان کے یہ ڈھائی تین لاکھہ افراد نے ہر قسم کی مصیبتوں اور پریشانیوں کے باوجود جس صبر و استقلال کے ساتھہ پاکستانی تشخص کو اپنائے ہوئے ہیں وہ انتہائی قابل ستائش اور باعث فخر و انسباط ہے۔ حب وطن کی ایسی مثال دنیا کی تاریخ میں شاید ہی پیش کی جاسکے۔
ایک طرف تو بنگلہ دیش میں محصور ڈھائی لاکھہ پاکستانیوں کی یہ عظمت اور دوسری طرف سترہ اٹھارہ سال سے ہماری بے حسی کہ ہم ان کو اپنے گھر میں آنے کی اجازت تو درکنار پاکستانی تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ بحالت مجبوری جب ہم نے ان کو ہم وطن مان لیا تو ان کی پاکستان منتقلی کی راہ میں روڑے اٹکانے لگے۔ کبھی ہم نے رقم کی عدم دستیابی کا بہانا بنایا ' کبھی ہم نے یہ کہہ دیا کہ پہلے ان کے روزگار اور رہائش کا انتظام ہوجائے تو پھر ان کو لایا جائے گا لیکن اس سلسلہ میں اب تک ہمارا جو رویہ رہا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے آزاد، خودمختار اور غیرت مند قوم کے شایان شان نہیں۔
پچھلے دنوں کراچی اور سندھ کے دوسرے مقامات پر محصورین کی آمد کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں کے بعد اعلان کیا گیا کہ "بہاریوں" کی پاکستان منتقلی کا فیصلہ ملک کے مفادات کو پیش نظر رکھہ کر کیا جائے گا۔ اس سلسلہ مین حکمران جماعت کے چند سرکردہ رہنماؤں کا رویہ بھی قابل غور ہے۔
بہرحال بنگلہ دیش میں محصور ڈھائی تین لاکھہ پاکستانی نہ تو کسی پاکستانی حکومت کی ہمدردی کے محتاج ہیں نہ ان کو پاکستان آنے میں مدد دینا کوئی "انسانی مسئلہ" ہے۔ ان کا تو پاکستان پر پیدائشی ، قانونی اور آئینی حق ہے۔ ان کے اس حق کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننا ملکی آئین اور بین الاقوامی قانون کے مطابق جرم ہے۔ ہمارے آئین کی دفعہ 15 میں واضح طور پر درج ہے کہ ہر پاکستانی کو اپنے ملک میں آنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آزادانہ طور پر جانے اور آباد ہونے کا حق حاصل ہے۔ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی وطن منتقلی میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے حضرات ہمارے یہاں موجود تخریب کاروں، دہشت گردوں ، بھارت سے آنے والے انتشار پسندوں اور یہودی ایجنٹوں کی موجودگی سے بے خبر نہیں ہوں گے انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ کتنے لاکھوں بنگلہ دیشی، سری لنکائی اور ایرانی باشندے غیر قانونی طور پر پاکستان میں آکر آباد ہوچکے ہیں۔ یہ سب لوگ ہماری سرحدیں پار کرکے ہی آئے ہیں آسمان سے نہیں گرے کہ ان کا روکنا ممکن نہ تھا۔ ارباب اختیار اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلا سکتے کہ بغیر پاسپورٹ ، جعلی پاسپورٹ یا جعلی ویزوں پر داخلہ کے جرم میں آئے دن غیر ممالک سے کتنے لوگ واپس پاکستان بھیجے جاتے ہیں جنہیں ضروری پوچھہ گچھہ کے بعد قبول کرلیا جاتا ہے حالانکہ ایسے لوگ کڑی سزا کے مستحق ہوتے ہیں اس لئے کہ ان کے اس عمل سے ملک وقوم کی تذلیل ہوتی ہے۔ ایک طرف تو عفو و درگذر اور عنایات کی یہ بارش اور دوسری طرف بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے ساتھہ یہ ظالمانہ رویہ کہ انہیں پاکستانی تسلیم کرنے ہی میں تکلف سے کام لیا جارہا ہے۔
اخلاقی، قانونی اور آئینی ہر لحاظ سے بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے تمام مسائل اور مشکلات کی واحد ذمہ دار حکومت پاکستان ہے۔ ان کو اپنے وطن میں بے وطن کرنے کا جرم ہم سے سرزد ہوا ہے۔ ان کی جان، مال، عزت اور آبرو کے تحفظ کی ضمانت مملکت پاکستان نے دی تھی لیکن ہم اس عہد پر پورا نہ اتر سکے اور اقتدار کی ہوس میں اندھے ہوگئے اور افراتفری کے عالم میں ان کو بے یارمددگار چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرلی لیکن اب جبکہ ہم کافی حد تک اپنے کئے کا مزا چکھہ چکے ہیں ہمارا یہ فرض ہے کہ ایک لمحل ضائع کئے بغیر ان پاکستانی سپوتوں کو جو آگ اور خون کے عذاب میں مبتلا ہونے کے باوجود پاکستان کے پرچم بلند کئے ہوئے ہیں عزت و احترام کے ساتھہ اپنے گھر لائیں۔
پاکستانیت کسی کی صوابدید کی محتاج نہیں۔ کسی کے اقلیت یا اکثریت میں تبدیل ہونے، روزگار کے وسائل میں کمی اور رہائش کے مسائل میں اضافہ کا ڈھنڈورا پیٹنے سے بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کو اپنے وطن میں آنے سے روکنے کا جواز پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد بھی ہم نے نوالامین مرحوم کو سر آنکھوں پر بٹھایا تھا انہیں نائب صدارت کے عہدہ پر متمکن کیا اور جب انتقال ہوا تو انہیں قائدین کرام کے ساتھہ مزار قائد اعظم کے احاطہ میں دفن کیا۔ راجہ تری دیورائے کو اہم عہدے پر فائز کیا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کا فریضہ انجام دینے کے لئے بھی بھیج دیا اور جناب محمود علی پہلے کی طرح آج بھی ہمیں عزیز ہیں۔ مولودی فرید شہید، فضل القادر چودھری اور ہزاروں لاکھوں دوسرے بنگالیوں کو جنہیں پاکستانی ہونے کے جرم میں شہید کر دیا گیا یا جیلوں میں اذیتیں دے کر مار دیا گیا ، یاد کرتے ہیں تو آنکھیں آج بھی نمناک ہوجاتی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی حالت زار پر کسی کا دل نہ پسیجے اور ان کے لئے نہ تڑپے۔ ہاں ظالم و جابر اور سنگ دل کے مالک لوگوں کی بات اور ہے۔
حکومت پاکستان کی عدم دلچسپی کے پیش نظر جو غالباً سیاسی مصالح کی بنا پر اس بات کے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ بنگلہ دیش سے پاکستانیوں کی وطن منتقلی کے لئے کوئی دوسری صورت نکل آئے گی اس لئے کہ ہماری فضول خرچیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ ان پاکستانیوں کی منتقلی کے لئے ہمارے ہاں رقم نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم ان پاکستانیوں کی پاکستان منتقلی کے سلسلہ میں قطعی طور پر سنجیدہ نہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ رابطہ عالم اسلامی نے ان کی منتقلی میں مدد دینے کے لئے جو ٹرسٹ قائم کیا ہے جنرل ضیاء الحق مرحوم کی جگہ نہ تو وزیر اعظم پاکستان نے ابھی اس کا چیئرمین نامزد کیا ہے اور نہ ڈاکٹر محبوب الحق اور جناب نسیم احمد آہیر کی جگہ دوسرے رکن نامزد کئے ہیں۔ اس وقت ٹرسٹ صرف رابطہ کے ایک رکن پر ہی مشتمل ہے۔ وزیر اعظم کا فرض ہے کہ وہ فوری طور پر خود کو یا صدر مملکت یا سینٹ کے چیئرمین کو اس ٹرسٹ کا چیئرمین اور دوسرے دو اراکین نامزد کردیں تاکہ محصورین کی واپسی کے لئے فنڈ جمع کرنے کا کام ازسر نو شروع ہوسکے۔
سرکاری سطح پر مسلسل مایوس کن اور حوصلہ شکن اعلانات کا باوجود ہمیں اپنے حکمرانوں سے بجا طور پر امید رکھنی چاہئے کہ محصورین کی پاکستان منتقلی کو جو کام سترہ سال سے التوا میں پڑا ہوا ہے اب اسے پایۂ تکمیل تک پہنچادیا جائے گا تاکہ ہم بھی یہ ثٓبت کرسکیں کہ امریکہ، برطانیہ اور دنیا کے دوسرے آزاد اور خودمختار ملکوں کی طرح ہمیں بھی اپنے شہریوں کی جان، مال اور عزت آبرہ اور ان کا احترام عزیز ہے۔ ہم ایک غیرت مند قوم ہیں اور یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ہمارے ملک کا کوئی باشندہ غیر ملک میں خیرات پر بے عزتی کی زندگی بسر کرتا رہے اس لئے کہ یہی اسلام کی پکار ہے اور یہی انسانی حقوق اور ہمارے آئین کے تقاضے ہیں جو ہمیں پورے کرنے ہیں۔
No comments:
Post a Comment