سندھ کا مسئلہ اصلی رخ

روزنامہ جنگ جمعرات 12 فروری 1987ء

اخبار " جنگ" میں "سندھ کا مسئلہ" کے عنوان سے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے حقیقت افروز مضمون کے جواب میں جناب قمر الدین خان صاحب کا مضمون " سندھ کا مسئلہ تصویر کا دوسرا رخ" کے عنوان سے روزنامہ جنگ کی 9 فروری اور 10 فروری 1987ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ صاحب مضمون نے غلط سلط توجیح اور بعید از حقائق باتوں کا تذکرہ کرکے براہ راسے مگر بھونڈے انداز میں مسئلہ کی تمام تر ذمہ داری " پنجابی حضرات" پر ڈالنے کی کوشش کی ہے، دریں حالات یہ ضروری ہے کہ سندھ کے مسئلہ کا اصلی رخ پیش کیا جائے۔

مسئلہ سندھ کا اصلی رخ یہ ہے کہ صوبۂ سندھ کے وسائل تجارت، صنعت، انتظامیہ، بلدیات وغیرہ غرضیکہ ہر شعبہ پر غیر سندھیوں یعنی سندھی نہ بولنے والے طبقے کا قبضہ ہے۔ تھوڑے عرصہ کے بعد سندھی بولنے والے اپنے ہی صوبہ میں اقلیت میں ہوجائیں گے۔ سندھی زبان جو انگریز کے عہد میں بھی ذریعہ تعلیم اور عدالت کی زبان تھی اب اپنے صوبہ میں اجنبی ہوتی جارہی ہے۔ لا اینڈ آرڈر کی جو صورت حال ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ تعلیم یافتہ سندھیوں کا جم خفیر ہے جو نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں ہے بیروزگاروں کے اس ہجوم میں سندھی بولنے والے تعلیم یافتہ کا ہر سال اضافہ ہورہا ہے ۔ لا اینڈ آرڈر کی زبوں حالی کے پس منظر میں اندرون سندھ صنعتیں (Industries) لگانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ زراعت زوال پذیر ہے (مثال کے طور پر کپاس کی ملکی پیداوار 40 لاکھہ بیلز (Bales) سے بڑھ کر 75 لاکھہ بیلز ہوگئی ہے مگر سندھ کا حصہ سولہ ۔ سترہ لاکھہ بیلز سے کم ہوکر اس سال 15 لاکھہ بیلز رہ گیا ہے ) گویا مستقبل قریب میں سندھ کی معیشت میں ترقی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کراچی، حیدرآباد ، سکھر اور سندھ کے دیگر بڑے شہروں کی زراعت پر غیر سندھیوں کی نہ صرف اکثریت ہے بلکہ ان کا مکمل قبضہ ہے۔

مندرجہ بالا حقائق ناقابل تردید ہیں اور اظہر من الشمس ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تمام تر صورت حال 1947ء یعنی قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئی ہے ، ان حالات میں ہمارے سندھی بھائی شور نہ مچائیں، احتجاج نہ کریں تو غریب کیا کریں۔

اب ہمیں اس بات کا تجزیہ کرنا ہے کہ یہ صورتحال کیونکر پیدا ہوئی۔ آیا یہ صورت حال دوسرے صوبوں سے آنے والے افراد اور خاص طور پر پنجابی حضرات کی آمد کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ ہم یہ دیکھیں کہ سندھ سے شہروں پر کس کا قبضہ ہے۔ کراچی کی مثال لیں۔ یہاں پر بلدیہ کلی طور پر غیر پنجابی بھائیوں کے قبضہ میں ہے۔ کراچی تین لاکھہ کی آبادی والے شہر سے پھیل کر اسّی پچاسی لاکھہ باشندوں کا شہر ہوگیا ہے۔ مگر اس کے قدیم باشندے یعنی مقامی افراد بلوچ، مکرانی، بوہری، پارسی، سندھی نہ صرف یہ کہ قلیل اقلیت میں تبدیل ہوگئے ہیں بلکہ ان کے تمام علاقوں اور بستیوں کو بھی ترقی اور ڈیولپمینٹ کے نام پر ترقیاتی اداروں یا دیگر اداروں کے حوالے کیا جاچکا ہے۔ اسکی تازہ ترین مثال لیاری ڈیولپمینٹ پروجیکٹ ہے۔ اسی طرح اگرچہ شہر کراچی نے بے مثال ترقی کی ہے۔ قدیم اور پرانے باشندوں کے علاقہ کی زبوں حالی اس بات کی گواہ ہے کہ شہر کراچی کی ترقی کا ثمر ان علاقوں کو نہیں ملا ہے۔ ہمارے پارسی بھائی جن کا کراچی شہر کے بنانے میں نمایاں حصہ تھا اور 1947ء سے پہلے یہ سب سے فعال طبقہ تھا۔ اب عنقا ہوگئے ہیں۔ جبکہ بمبئی میں اب تک انہوں نے اپنے طبقہ کی پوزیشن برقرار رکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح حیدرآباد شہر کو لیں یہ شہر اور اسکی بلدیہ مکمل طور پر نئے سندھیوں کے قبضے میں ہے۔ سکھر کے مثال بھی یہی ہے، نئے سندھی مکمل طور پر شہر پر قابض ہیں اور پرانے سندھی یعنی سندھی بولنے والے اپنے ہی صوبہ کے شہروں میں اجنبی ہیں۔

جناب قمر الدین خان صاحب نے تحریر کیا ہے کہ سندھیوں میں بے چینی پنجابیوں، وغیرہ کی آمد کے بعد پیدا ہوئی ہے حالانکہ صوبے اور خاص طور پر ان شہروں کی سیاستاور اقتدار میں ان پنجابیوں کی گنتی بھی ہے۔ کونسلرز، ایم پی اے حضرات، ممبر قومی اسمبلی اور سینیٹرز کی اکثریت غیر پنجابی ہے۔

ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں نقل مکانی تاریخ کا معمول کا عمل ہے ۔ ہر دور میں ہر ملک اور ہر علاقہ میں لوگ مختلف عوامل کی وجہ سے نقل مکانی کرتے رہے ہیں اور دوسرے علاقوں میں آباد ہوئے ہیں۔ خود ہمارے ملک سے بے شمار لوگ امریکہ، کینیڈا، انگلستان اور دیگر ممالک میں جاکر آباد ہوئے ہیں۔ برصغیر ہندو پاک سے لاکھوں افراد افریقہ میں جاکر آباد ہوئے ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل بھی سرحد کے پٹھان یو پی، سی پی اور بہار میں جاکر آباد ہوئے ہیں۔ پنجاب سے بھی لوگ آکر سندھ میں آباد ہوئے ہیں۔ مگر تاریخی اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ تمام آباد گر جس علاقہ میں جاتے ہیں وہاں پر اس علاقہ کی تہذیب میں اپنے آپ کو رنگ لیتے ہیں۔ ان میں منسلک اور مدغم ہوجاتے ہیں۔ اپنا نسلی تشخص تو برقرار رکھتے ہیں مگر اپنے آپ کو اس علاقہ کی تۃزیب میں رنگ لیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس طرح کے میل جول سے اس علاقہ کی تہذیب میں مثبت کردار بھی ادا کرتے ہیں مگر بنیادی طور پر وہ تہذیب اسی علاقہ کی رہتی ہے اور پھیلتی پھولتی ہے۔ مثلاً سرحد سے جو پٹھان یو پی میں جاکر آباد ہوئے وہ پٹھان تو کہلواتے ہیں مگر پشتو سے ناواقف ہیں اور یوپی کی تہذیب میں اپنے آپ کو پوری طرح رنگا ہوا ہے اور رہن سہن، بودوباش اسی علاقہ کی اختیار کئے ہوئے ہیں اس کی درخشندہ مثال مشہور شاعر انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی تھے جو پٹھان ہونے پر فخر کرتے تھے مگر اردو زبان کے مشہور ترین شاعر اور یوپی کی تہذیب کے اعلٰی ترین نمونہ تھے، اسی طرح پنجاب سے جو لوگ قبل تقسیم سندھ میں آکر آباد ہوئے ہیں وہ مکمل طور پر اب سندھی ہوچکے ہیں۔ زبان، بودوباش اور سندھی تہذیب اختیار کرچکے ہیں۔

جھگڑے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دو بھائی جو 1947ء کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے سندھ میں آئے انہوں نے تاریخی رواج کے مطابق اپنے آپ کو ابھی تک اس علاقے کی تہذیب میں مدغم نہیں کیا حالانہ سندھ کے عوام نے روایتی مہمان نوازی اور اسلام دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے بھارت سے پاکستان آنے والوں پر اپنے دروازے کھول دیئے ۔ شہروں اور گاؤں میں جو اچھا علاقہ اور مکان تھا وہ سب کا سب انہیں لینے دیا مہاجر ہی کلیم کنندہ تھا اس صورتحال پر جب سندھیوں نے آواز احتجاج بلند کرنے کی کوشش کی تو سنی ان سنی کردی گئی اور نواب مظفر حسین (غالباً موجودہ وزیر صحت نواب راشد علی خان کے والد محترم) نے متحدہ مہاجر، پنجاب ، پٹھان فرنٹ بنا کر سندھیوں کی جائز آواز کی مخالفت کی۔

یہ ہے سندھ کی بعد از تقسیم مختصر تاریخ۔ اب قارئین خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ موجودہ صورت حال اور سندھ میں بے چینی کا سب سے بڑا عنصر کیا ہے اور کون ہے؟

ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سے ہزار اختلاف رکھنے کے باوجود اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے "سچ" کا اظہار کیا ہے اور تلخ حقیقت بیان کی ہے؟ ہمارے بھائیوں کو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہئے اور خواہ مخواہ دوسروں کو مورود الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے۔ سندھ کے مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ سندھیوں کے جائز حقوق واگزار کئے جائیں تمام سیٹلرز اپنے آپ تاریخی رواج کے مطابق سندھ کی تہذیب میں رچ بس جائیں اور سندھ کے اصل مالک اسکے اصل باشندے اپنے حقوق کے لئے کوٹہ سسٹم کا تحفظ حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں اپنے انداز فکر اور سوچ کے انداز کو بدلنا ہوگا، آئیے ہم سب مل کر سندھ اور اسکی تہذیب کو جِلادیں تاکہ یہ تہذیب پھلے پھولے اور ہمارے اور ہمارے صوبۂ سندھ میں امن، ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ ہو۔

No comments:

Post a Comment