ایران عراق جنگ میں فتح صرف اسرائیل کی ہوگی

روزنامہ جنگ جمعرات 21 اگست 1986ء

عراق کے صدر صدام حسین نے ایران سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر جنگ بندی پر رضامند ہوجائے۔ انہوں نے تجویز پیش کی ہے کہ دونوں ملک اپنی اپنی فوجوں کو بین الاقوامی سرحدوں پر پہنچائیں تمام جنگی قیدیوں کا تبادلہ کرلیا جائے اور پھر جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرلیا جائے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایران نے حسب سابق اس پیشکش کو مسترد کرکے جنگ میں تیزی پیدا کردی ہے۔ ادھر روس نے بھی دونوں ملک پر جنگ بندی کیلئے زور دیا ہے لیکن ایران آخری فتح تک جنگ جاری رکھنے کے عزائم کا اظہار کررہا ہے۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم شروع دن سے جنگ بندی کے لئے کوشاں ہے۔ مختلف تنظیموں اور ملکوں کے وفد دونوں ملکوں کا دورہ کرکے جنگ بند کردینے کی اپیل کرتے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ' غیر وابستہ ملکوں کی تحریک اور مختلف علاقائی تنظیموں کے علاوہ دنیا کے تقریباً پر ملک نے اجتماعی یا انفرادی طور پر دونوں ملکوں سے امن قائم کرنے کی درخواست کی ہے لیکن یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ایرانی قیادت نے کسی بھی درخواست کو درخود اعتنا نہ سمجھا پاکستان کو اسلامی اتحاد اور اپنے پڑوس میں دو برادر اسلامی ملکوں کے درمیان ہونے والی بے مقصد جنگ کے خاتمہ کی اہمیت کا شدید احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے جنگ بندی کے لئے بہت بھاگ دوڑ کی ہے لیکن بدقسمتی سے جنگ بندی کے سلسلہ میں اب تک کی جانے والی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔

جنگ بند کرانے کے سلسلہ میں اسلامی تنظیم اہم کردار ادا کرسکتی تھی لیکن اس سے ایک بنیادی غلطی ہوگئی اس بناء پر ایران تنظیم کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوا اور یہ اسی ابتدائی غلطی کا نتیجہ ہے کہ آج بھی ایران اور عراق ایک دوسرے کے ملک تیل کے کنوؤں، بحری جہازوں، بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، ریلوے لائنوں، شاہراہوں، پلوں اور صنعتی مرکزوں ہی کو نہیں بلکہ آبادیوں تک کو نشانہ بنارہے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجہ میں دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی جوان اور شہری لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور اقتصادی لحاظ سے دونوں ملکوں کو جس تباہی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ اس طویل اور بے مقصد جنگ کے نتیجہ میں ایران اور عراق ہی نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی پوری ملت اسلامیہ کمزور اور منتشر ہورہی ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے چند عرب ملک بھی باہمی اختلافات کا شکار ہوئے ہیں ادھر افغانستان کے مجاہدین آزادی کی مزاحمتی تحریک میں بھی وہ تیزی نہیں آسکی ہے جو جنگ ہے محفوظ ایران کی موجودگی میں ممکن تھی۔

عراق کو اپنے غریب عوام کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کیلئے بہت سے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کرنی تھی اور ایران کو شہنشاہیت سے نجات پانے کے بعد اسلامی انقلاب کے تقاضوں کے مطابق معاشرہ کو ڈھالنے کے لئے عظیم کام کرنے تھے لیکن اس جنگ نے دونوں ملکوں کو ہر لحاظ سے بہت پیچھے دھکیل دیا۔ جنگ کی وجہ سے دونوں ملکوں میں جو توڑ پھوڑ ہوئی ہے امن قائم ہونے کے بعد ان کی تعمیر نو کیلئے مدت دراز اور اربوں کھربوں روپے درکار ہوں گے۔ یہی قوت اور رقم اگر اپنے اپنے عوام کی بھلائی کیلئے خرچ کی جاتی تو دونوں ملکوں کا نقشہ ہی کچھہ اور ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ دونوں ملک مہنگے داموں دوسری قوموں سے ہتھیار خرید کر بھی بالواسطہ طور پر ان اقوام کی مدد کررہے ہیں جو کسی بھی لحاظ سے عالم اسلام کے دوست نہیں۔ اسرائیل کے ہاتھوں عراق کے ایٹمی پلانٹ کی تباہی بھی اسی جنگ کا نتیجہ ہے اور یہ کوئی کم نقصان نہیں ہے۔ مانا کہ عراق میں بعث پارٹی کی حکومت ہے جسے روس کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے لیکن عراق کی آبادی بہرحال مسلمانوں ہی پر مشتمل ہے اس لئے عراق کا نقصان بھی بحیثیت مجموعی مسلم ممالک ہی کا نقصان ہے جس میں خود ایران بھی شامل ہے۔

اسلام کے نام پر ایران میں جس شان سے انقلاب آیا ہے اس کی مثال حالیہ تاریخ میں ملنی مشکل ہے جو لوگ علمائے اسلام کو ملا کے نام سے گالی دے کر انہیں حکومت کرنے کا نااہل قرار دیتے رہے ہیں اس انقلاب نے ان کی آنکھیں کھول دی ہیں اب سے چند سال قبل تک احساس کمتری کے شکار جن لوگوں کو مغرب میں خود کو مسلمان کہتے ہوئے شرم آتی تھی آج اس انقلاب کے طفیل وہ فخر کے ساتھہ اسلام سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایرانی انقلاب کی جزیات سے اگر کوئی اختلاف بھی رکھتا ہے تب بھی اسے یہ تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ اس انقلاب سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ موجودہ دور میں بھی اسلام سو فیصد بالکل اسی شکل میں نافذ کیا جاسکتا ہے جس میں چودہ سو سال قبل نبی اکرم نے اسے نافذ کرکے دنیا کی رہنمائی کا فرض ادا کیا ہے قیام امن کے سلسلہ میں بھی اسے اسلام کے اس اصول کی پابندی کرکے دکھا دینا چاہئے کہ اگر فریق ثانی امن کی درخواست کرے تو اسے مان لیا جائے خصوصاً ایسے حالات میں جب سرحدوں کے دونوں طرف بہنے والا خون مسلمانوں ہی کا ہے اور ایران کو یہ بھی معلوم ہے کہ عالم اسلام کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل ہے جسے اس جنگ کی بناء پر مزید طاقتور بننے کا موقع مل رہا ہے اگر ایران عالم اسلام کے ساتھہ اپنی قوت کو مجتمع کرکے اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف صف آراء ہوجائے اور ایران کے جیالے مجاہدین کے جذبۂ شہادت اور ان کے جوش و جذبہ کو عراق کے مسلمانوں کے بجائے اسرائیل کے خلاف استعمال کیا جائے تو عالم اسلام نہ صرف یہ کہ القدس الشریف ہی کو آزاد کرواسکے گا بلکہ اپنی عظمت رفتہ دوبارہ حاصل کرکے آج کی گمراہ قوم کی رہنمائی کا فرض بھی ادا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔

اگر ایران جنگ جاری رکھنے پر مصر رہتا ہے تو پھر اقتصادی اور افرادی قوت کے لحاظ سے دونوں ملکوں کی تباہی یقینی ہے بلکہ عراق کی مدد کرنے والے خیلجی ملکوں کی اقتصادی حالت بھی بگڑ جائے گی ادھر مجاہدین کیلئے افغانستان میں طویل جدوجہد جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا اور ان تمام باتوں کا براہ راست فائدہ صرف اسرائیل کو پہنچے گا اور اقتصادی لحاظ سے کمزور اور منتشر ملکوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہے گا کہ اسرائیل کو اپنی مرضی کے محاذ کھولنے سے باز رکھہ سکیں اور اس طرح ایران اور عراق کی جنگ کے سلسلہ میں اس وقت یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ جیت کس ملک کی ہوگی لیکن اس حقیقت کا ادراک قطعی مشکل نہیں ہے کہ اس جنگ میں حقیقی فتح اسرائیل ہی کو حاصل ہوگی اور یہ ایران اور عراق دونوں کی شکست ہی قرار دی جائے گی۔ اس لئے ایران اور عراق دونوں ملکوں کا فرض ہے کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی پر رضامند ہوجائیں یہی دونوں کی فتح ہوگی تاکہ علاقہ سے جنگ کے مہیب بادل چھٹ سکیں اور عالم اسلام متحد ہوکر اپنی تمام تر قوتوں کو اپنے عوام کی حالت بہتر بنانے اور اسرائیل کے مقابلہ کیلئے استعمال کرسکے۔ امن اور اتحاد عالم اسلامی کی اہمیت سے ایران اور عراق سے زیادہ اور کون واقف ہوگا اب مسلمانان عالم جنگ میں تیزی کی نہیں بلکہ قیام امن کی تاریخ ساز خبر سننے کے منتظر ہیں۔

No comments:

Post a Comment