پی پی کے بینرز میں قومی پرچم کی توہین ہے

روزنامہ جسارت جمعۃ المبارک 26 جنوری 1990 ء

جس دن متحدہ حزب اختلاف کو کراچی میں تاریخی جلسہ عام کے انعقاد کی اجازت دی گئی اس سے پہلے رات کی تاریکی میں پی پی کی طرف سے شہر کے مختلف علاقوں میں طرح طرح بینرز آویزاں کردیئے گئے تھے۔ جلسہ کی اجازت میں تاخیر بھی غالباً اسی بنا پر تھی کہ مذکورہ بینرز تیار ہو کر شہر کی بڑی بڑی شاہراہوں پر لگادیئے جائیں۔ ان بینرز کے ذریعہ کہیں تو عوام کو مختلف مشورے دیئے گئے ہیں کہیں دہشت گردی سے نفرت کا اظہار ہے اور کہیں اداروں کے تحفظ اور ملکی سلامتی کی باتیں۔ گو ہمارا موضوع گفتگو وہ بینر ہے جس پر عوام سے کہا گیا ہے کہ " آمریت کے دوستوں اور جمہوریت کے دشمنوں کو پہنچانئے" لیکن یہاں اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ یہ بینرز پاکستان کے قومی پرچم کی توہین کا سب سے بڑا اور کھلا ذریعہ بھی ہیں۔ ان بینرز پر پاکستانی پرچم بینرز کے بائیں جانب ہے اور دائیں جانب پی پی کا اپنا پرچم جبکہ قانوناً پاکستانی پرچم کی جگہ دائیں جانب ہے اس لئے پی پی کے قائدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اس گستاخی پر قوم سے معافی مانگیں اور انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ اس قانون شکنی پر پی پی کے خلاف مناسب کاروائی کرکے قومی پرچم کا احترام بحال کرائے۔

"آمریت کے دوستوں اور جمہوریت کے دشمنوں کو پہنچانئے" کے سلسلہ ہم بھی اپنے طور پر اپنے عوام کی کچھہ رہنمائی کرنا پسند کریں گے گو اس کی ضرورت نہیں اس لئے کہ ہمارے عوام ماشاء اللہ بہت بیدار اور باخبر ہیں اور ان پر الزام بھی ثابت نہیں ہوتا کہ عوام کی یاد داشت کمزور ہوتی ہے کم از کم پاکستانی کے عوام کی یاد داشت کمزار نہیں ہے ہاں یہ دوسری بات ہے کہ وہ سیدھے سادھے اور جلد معاف کردینے والے لوگ ہیں انہیں یاد ہے کہ پاکستان کے پہلے آئین کو توڑ کر ملک پر فوجی آمریت مسلط کرنے والے ایوب خان کی کابینہ میں سندھ سے جو صاحب شامل ہوئے پی پی کے بانی اور پی پی کی موجودہ وزیر اعظم کے والد مرحوم تھے وہ آٹھہ سال تک فوجی حکمران کے سایہ عاطفت میں رہے۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح جب قوم کی طرف سے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے میدان میں نکلیں تو سب سے زیادہ گستاخیاں پی پی کے بانی ہی نے کیں۔ جب عوامی مطالبوں کی شدت کے بعد ایوب خان نے گول میز کانفرنس طلب کی تو پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اس میں شرکت کے بجائے ہنگامہ آرائیوں اور توڑ پھوڑ میں لگے رہے جس کے نتیجہ میں ان کے مربی جنرل یحیٰی کو اقتدار ملا اور بھٹو صاحب جنرل یحیٰی کے مشیر اور پھر وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم بن بیٹھے۔

عوام کے لئے نہیں بلکہ یہ بات پی پی کی یاد دہانی کے لئے دہرائی جارہی ہیں کہ یہ بھٹو صاحب ہی تھے جو کراچی کے مچھلی گھر میں جنم لینے والی کنونشن مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے ایوب خان صدر، بھٹو صاحب نے تجویر پیش کی کہ ڈپٹی کمشنر کو ضلع مسلم لیگ کنونشن کا صدر مقرر کردیا جائے۔ 1970ء کے انتخابات کے نتیجہ میں شیخ مجیب الرحمان کے عوامی لیگ نے قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کی تھی لیکن جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار ذوالفقار علی بھٹو نے اقلیت میں ہونے کے باوجود " ادھر ہم ادھر تم" کا نعرہ لگا کر ملک کے دو ٹکڑے کرنے کا اعلان کردیا پھر 20 دسمبر1971ء کو آدھے پاکستان کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن بیٹھے اور اپنے پہلے ہی تقریر میں اخبار کے ایڈیٹر کو برطرف کردیا اور پریس ٹرسٹ آخر دم تک قائم رکھا گیا بلدیاتی اداروں کو معطل کر رکھا تھا ملک میں دفعہ 44 اور 5 جولائی 1977ء سے لگ بھگ کئی شہروں میں مارشل لا نافذ رہا۔ آئین کی منظوری کے باوجود ملک کو ہنگامی قوانین کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا۔ 1977ء کے انتخابات میں تاریخی دھاندلیاں کی گئیں اور عوام کے طرف سے ٹھکرادیئے جانے کے باوجود بھٹو صاحب " مضبوط کرسی" سے چمٹ گئے۔ پہچان گئے آمریت کا دوست کون ہے؟ بلکہ آمر کون ہے؟

اب 2 دسمبر 1988ء کو آجائیے۔ پنجاب میں عوام کی بھاری اکثریت نے اسلامی جمہوری اتحاد پر اعتماد کا اظہار کرکے حکومت سازی کا حق دیا لیکن پی پی کی وزیر اعظم نے میاں نواز شریف کے حلف وفاداری کو روکنے کی کوشش کی، پھر پنجاب کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر عوام کی توہین کا ارتکاب کیا۔ چند دنوں کے اندر اندر بلوچستان اسمبلی کو توڑ دیا گیا۔ وزیر اعظم کی پہلی پریس کانفرنس میں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کی تصویر کے بجائے پی پی کے بانی کی بہت بڑی تصویر لگائی گئی۔ ٹی وی سے نشریہ کے موقع پر قائد اعظم کی تصویر کے مقابلہ پر اس شخص کی تصویر لگائی گئی جسے عدالت نے قاتل قرار دے دیا تھا۔ سارک سربراہ کانفرنس میں پی پی کی وزیر اعظم نے پاکستان کی سب سے بڑی دشمن اندرا گاندھی کو زبردست خراج عقیدت پیش کی طیارے کے اغواء اور دہشت گردوں کے دوسرے مجرموں کو عزت و احترام کے ساتھہ باہر سے بلوایا گیا یا جیلوں سے رہا کردیا گیا۔ ملک بھر کے مطالبہ کے باوجود محصور پاکستانیوں کی واپسی کے لئے مسلسل رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ صوبائی وزراء اعلٰی کے مطالبہ کے باوجود مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس طلب نہیں کیا جارہا ہے۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کو توڑنے کا وعدہ ابھی تک ایفا نہ ہوا۔ پی پی کے کارکنوں نے اخبارات کی زباں بندی کی خاطر دفتروں حملے کئے ایڈیٹر اور سندھ ہی کے اخبار نویس گرفتار کئے گئے۔ افسروں کے تبادلہ پر اختلاف کو " یکطرفہ اعلان آزادی" کا نام دیا گیا اور وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ملک اور جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا گیا۔ عوام کے مسترد کردہ افراد کو ان پر مسلط کردیا گیا اور پیپلز پروگرام کے نام سے ان ہارے ہوئے پی پی کے کارکنوں کے لئے سرکاری خزانہ کے دروازے کھول دیئے گئے۔ ہٹ دھرمی اور وعدہ خلافیوں کے بعد ایم کیو ایم نے جب پی پی سے معاہدہ توڑ دیا تو پی پی کے وزیر اور مشیروں کو فوراً ہی معلوم ہوگیا کہ ایم کیو ایم دہشت گرد اور تشدد پسند ہے۔

No comments:

Post a Comment