مولوی فرید احمد شہید

روزنامہ جسارت پیر17ربیع الثانی 1406ھ 30 دسمبر 1985 ء

پاکستان کے محب وطن افراد ہی کے لئے نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے خود دار اور غیرت مند تمام ہی افراد کے لئے مشرقی پاکستان کا سقوط تاریخ اسلام کے بدترین سانحوں میں سے ایک تھا۔ اس کی سنگین سے دنیا کا کوئی بھی مورخ انکار نہیں کرسکتا لیکن چند اور بھی واقعات ایسے پیش آئے جن کی وجہ سے یہ سانحہ اور بھی غمناک بن گیا۔ یہ واقعات ایسے ہیں کہ اگر یہ سقوط مشرقی پاکستان سے الگ پیش آتے تو خود بھی اندوہناک سانحے ہی قرار دیئے جاتے۔ ان واقعات میں سقوط کے فوراً بعد سینکڑوں علمائے کرام الشمس اور البدر کے ہزاروں جیالوں اور مولوی فرید احمد جیسی عظیم شخصیت کی بے دردی کے ساتھہ شہادت کے علاوہ خود پاکستان میں چند لوگوں کی طرف سے سقوط پر خوشی و مسرت کے اظہار اور اس کے جشن منانے کے سانحے ہیں۔ اپنے ہی ملک کے ایک حصہ کی علیحدگی پر خوشی کا اظہار ایسا ہی ہے جیسے کسی ماں، بہن یا بیٹی کے ساتھہ بالجبر کے واقعہ پر کوئی بیٹا، بھائی یا باپ خوشی سے ناچنے لگے۔ ایسی مذموم حرکت کرنے والے کے لئے تو بے غیرت کا لفظ بھی باعث عزت ہوگا لیکن اس کو کیا کہا جائے کہ ایسی انہونی بھی ہمارے ملک میں ہوچکی ہے۔

جہاں تک شہدائے مشرقی پاکستان کا تعلق ہے انہوں نے تو اپنے گوہر مراد شہادت کو پالیا لیکن لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کو انہوں نے سوگوار چھوڑدیا یہ تو عین فطرت انسانی ہے، اپنے ایسے پیاروں کی جدائی کا جنہیں ہم نے دیکھا تک نہیںم عمر بھر غم سہتے رہیں گے۔ ان کے ساتھہ ہی ملت اسلامیہ کی انتہائی تذلیل کا سامان نوے ہزار مسلم فوج کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دے کر بھی کیا گیا اور یہ سب کچھہ ہماری اپنی ہی قوم کے مفاد پرست یا عاقبت نا اندیش افراد کے ہاتھوں ہوا اور یہ ایسا زخم ہے جس کا مندمل ہونا فی الحال تو بہت مشکل نظر آتا ہے۔ بہرحال آج ہم مولوی فرید احمد شہید سے متعلق چند یادوں کو دہراتے ہیں جن سے معلوم ہوگا کہ وہ کس قدر بے باک اور نڈر تھے اور یہ سب کچھہ اللہ جل شانہ پر غیر متزلزل ایمان اور اپنے مقصد میں حقانیت ہی کی بدولت ممکن ہے۔

کراچی کے آخری دورے کے موقع پر جب مولوی فرید احمد سے ملاقات ہوئی تو آپ تہمند اور کرتے میں ملبوس تھے اور سر پر کپڑے کی توپی تھی جس پر " اللہ" یا غالباً " اللہ اکبر" کا بیج آویزاں تھا ۔ ایک بڑے مقامی ہوٹل میں آپ کی تقریر کا اہتمام ہوا۔ شہید موصوف نے وہاں اپنی آخری تقریر کی جو بڑی پرجوش اور ولولہ انگیز تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا گویا ان کو اپنی شہادت کا یقین ہوچکا تھا۔ تقریرمیں عشق رسول، شہید کے مقام اور ایک مومن کے مقصد حیات کے بارے میں جہاں گفتگو تھی وہاں پاکستان کے حقیقی محبت کا ذکر بھی تقریر سے پوری طرح عیاں تھا۔ ان دنوں بھٹو صاحب اور جنرل یحییٰ میں انتقال اقتدار کے سلسلہ میں باتیں چل رہی تھیں اسی کے حوالہ سےآپ نے فرمایا " انتقال اقتدار کس کی طرف سے؟ کافرکی طرف سے مشرک کو یا مشرک کی طرف سے کافر کو؟" اسی تقریب میں انہوں نے بڑے پرجوش انداز میں پاکستان اور اسلام کے خلاف سازشی عناصر کو للکارنے کے ساتھہ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ وہ پاکستان اور اسلام کی خاطر اپنی جان دینے میں زیادہ خوشی محسوس کریں گے۔

تقریب کے بعد راقم الحروف بھی کار میں شہید فرید احمد کے ساتھہ ہی تھا تو ان سے کہا گیا کہ آپ کی تقریر ویسے تو بہت ہی خوبصورت تھی لیکن چند باتیں ایسی تھیں جن اظہار آج کے حالات میں قرین مصلحت نہیں معلوم ہوتا۔ یہ سن کر شہید موصوف کا رنگ بدل گیا اور کہنے لگے: " کیا تم چاہتے ہو کہ میں بھی اوروں کی طرح منافقت کا مظاہرہ کروں؟ بحیثیت مسلمان میں ہر گز ایسا نہیں کرسکتا۔" انہوں نے کہا کہ " منافقت کا دوسرا نام ہم لوگوں نے مصلحت رکھہ لیا ہے لیکن ایک مسلمان کو یہ بات ہر گز زیب نہیں دیتی کہ کسی مسئلہ پر گفتگو ہورہی ہو تو مصلحتاً وہ چند باتوں کا اظہار کرے اور چند کو چھپالے۔ یہی بددیانتی اور منافقت ہے۔"

جب ہم مولودی صاحب کی قیام گاہ پر پہنچے تو چند اور حضرات بھی وہاں آگئے اور موصوف ان سے باتوں میں مصروف ہوگئے تقریباً آٹھہ بجے انہوں نے اپنے ٹرانسسٹر ریڈیو راقم الحروف کو دیا اورکہا کہ اس وقت انڈیا ریڈیو سے عام طور پر اہم پروگرام نشر ہوتا ہے ، تم سنو اور پھر مجھے تفصیل بتا دینا۔ میں نے جب ریڈیو لگایا تو اس وقت غالباً جے پرکاش نرائن کی تقریر نشر ہورہی تھی جس میں وہ پاکستان کے خلاف کاروائی کے امکانات کی بات کررہے تھے۔ پروگرام کے بعد راقم الحروف مولوی فرید احمد کو تفصیل بتائی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں اب جنگ یقینی نظر آرہی ہے۔

اس دورہ میں مولوی فرید احمد نے مدینہ یونیورسٹی کے ریکٹر سے بھی ملاقات کی تھی ۔ آپ نے بتایا کہ ریکٹر نے پاکستان کے حالات کے حوالہ سے جب شیخ مجیب الرحمن کا نام لیا تو انہوں نے فوراً ہی تصحیح کردی کہ " مجیب الرحمن نہیں مجیب الشیطن۔"

مولوی صاحب بڑی عوامی کشش رکھتے تھے۔ آپ بہت اچھے مقرر اور بہترین پارلیمنٹرین بھی تھے۔ ان کی تقاریر میں جہاں ٹھوس حقائق ہوتے تھے وہاں طنز و مزاح کی چاشنی بھی ہوتی تھی۔ برسر اقتدار حضرات میں سے چند کے ان کھاتوں کا راز بھی مولوی صاحب ہی نے پارلیمنٹ میں افشا کیا تھا جو ان لوگوں نے سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں کھولے تھے۔ ایوب خان کے دور کے " عشرۂ ترقی" کو عشرۂ تنزلی" کا نام بھی آپ ہی نے دیا تھا۔ اسلام سے متلعق ڈاکٹر فضل الرحمن کی گل افشانیوں کے خلاف بھی ہم مولوی فرید احمد ہی نے چلائی تھی بلکہ قائد حزب اختلاف جو صدر محمد ایوب خان کے بھائی تھے، ان کے تعلقات کو بھی موضوع گفتگو آپ ہی نے بنایا جس کے نتیجہ میں سردار بہادر خاں گو حزب اختلاف کی قیادت سے محروم ہونا پڑا تھا۔

حیدرآباد میں چند مفاد پرستوں کی سازش کے نتیجہ میں ایک مرتبہ سندھی مہاجر کشیدگی پیدا ہوگئی تو آپ کراچی سے فورا حیدرآباد پہنچے اور ایک " امن جلوس" نکالا جس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہوئے اور شہر میں سندھی مہاجر کے نام پر دکانیں چمکائے والوں کے منصوبے بے خاک میں مل گئے۔

مولوی فرید احمد شہید نماز کو ہمیشہ صلٰوۃ ہی کہتے تھے، نماز نہیں۔ اس سلسلہ میں آپ نے ایک دل چسپ واقعہ بتایا کہ وہ حضرت مفتی محمد شفیع مرحوم کے ساتھہ دارالعلوم میں بیٹھے تھے کہ مغرب کا وقت ہوگیا۔ حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ ، چلو نماز پڑھ لیں اس پر مولوی فرید احمد صاحب نے کہا ۔" جی نہیں! نماز تو آپ پڑھئے میں تو پھر پراتھنا کروں گا۔" یہ سن کر مفتی صاحب نے فرمایا ، چل نالائق دور ہوجا یہاں سے ، لیکن مولوی صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دیکھئے میں جس علاقہ میں رہتا ہوں وہاں کی زبان میں نماز کا ترجمہ تو پراتھنا ہی ہوگام اس لئے ہمیں نماز میں آپ کے ساتھہ نہیں دے سکتا ۔ ہاں صلٰوۃ ادا کرنی ہو تو میں کھانے کا وقت ہوا تو فرش پر دسترخوان لگ گیا۔ اس سلسلہ میں مولوی فرید احمد شہید ایک واقعہ بیان کیا جو ان کے دورۂ مصر و سعودی عرب کے دوران پیش آیا تھا انہوں نے کہا کہ مدینہ منورہ میں پاکستانی ڈاکٹروں، انجینئروں اور دیگر افراد کی جانب سے ان کے اعزاز میں ایک پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جب موصوف دعوت میں پہنچے تو یہ دیکھہ کر انہیں بڑا غصہ آیا اور دکھہ بھی پہنچا کہ کھانے کے لئے میز کرسیوں کا انتظام تھا۔ موصوف نے منتظمین سے کہا کہ وہ میز کرسی پر بیٹھہ کر ایسے شہنہشاہ کے شہر میں تو کھانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے جنہوں نے زندگی میں ہمیشہ زمین پر بیٹھہ کر کھایا ہو منتظمین کے چہروں پر شکنیں پڑتی دیکھیں لیکن آپ نے کہا کہ تم لوگ اوپر بیٹھہ کر کھاؤ مجھے نیچے ہی کھانا دے دو، میں کھالوں گا، لیکن فوراً ہی میز کرسیاں ہٹا دی گئیں اور فرش پر کھانا لگا دیا گیا۔

حاضر ہوں۔"

افسوس سقوط مشرق پاکستان کے نتیجہ میں عزت مساوات تو گئی ہی لیکن ہم قحط الرجال کا شکار بھی ہوگئے مقام عبرت ہے کہ ہم ابھی تک اپنی پرانی روش ہی سے چمٹے ہوئے ہیں بلکہ حقیقت میں تو ہماری حالت کو بدلنے کی کوشش نہیں کی تو پھر اللہ تعالٰی کے لئے یہ بات قطعی مشکل نہیں کہ وہ کسی قوم پر کسی بھی وقت کوئی اور قوم مسلط فرمادے۔

No comments:

Post a Comment