مرارجی ڈیسائی کیلئے پاکستانی اعزاز
روزنامہ جنگ اتوار 9 جون 1991ء
بھارت کے ایک سابق وزیر اعظم جناب مرار جی ڈیسائی کو بمبئی میں ان کی اپنی رہائش گاہ پرایک تقریب میں پاکستان کا اعلٰٰی شہری اعزاز نشان پاکستان دیا گیا ہے۔ کسی بھی بھارتی شہری کو غالباً یہ پہلا اعزاز ہے جو پاکستان کی طرف سے دیا گیا۔ اس اعزاز کے دیئے جانے کا فیصلہ جنرل ضیاء الحق شہید نے کیا تھا۔ روایت کے مطابق جشن آزادی کے موقع پر ایسے حضرات کے ناموں کا اعلان کیا جاتا ہے جنہیں شہری اور فوجی اعزازات دیئے جانے کیلئے نامزد کیا جاتا ہے اور پھر عام طور پر 23 مارچ کو ان تمام حضرات کو سرکاری تقریب میں یہ اعزاز دیئے جاتے ہیں۔ اعزاز پانے والوں کی فہرست 14 اگست 1988ء کو جاری اور شائع ہوئی اور بدقسمتی سے 17 اگست 1988ء کو ایک ہوائی حادثہ میں جنرل ضیاء الحق شہید ہوگئے۔ بعد میں ملک میں عام انتخابات ہوئے۔ جس کے نتیجہ میں دسمبر 1988ء میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں برسراقتدار آگئی۔ اس حکومت کے دور میں صدر مرحوم کے ہر اچھے برُے فیصلہ کی نفی کرنے اور پابندی نہ کرنے ہی کو کار ثواب سمجھا گیا اس لئے جناب مرار جی ڈیسائی کو جو اعزاز قاعدہ کے مطابق 23 مارچ 1989 کو دیا جانے والا تھا وہ نہ دیا گیا حالانکہ یہ فیصلہ ایک صدر مملکت کا فیصلہ تھا جس کی پاسداری ان کی جانشین حکومت کیلئے قانونی اور اخلاقی ہر لحاظ سے بہت ضروری تھی۔ پھر یہ اعزاز ہمارے پڑوسی ملک کے ایک سابق وزیر اعظم کو دیا گیا تھا وہ سابق وزیر اعظم جن کا شمار بھارت کے بزرگ رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ صدر مملکت کے اعلان کے باوجود جناب ڈیسائی کو اعزاز نہ دیئے جانے کا مطلب یہ تھا کہ ان سے یہ اعزاز واپس لے لیا گیا اور یہ امر بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں کے بھی خلاف تھا اور مسلمانوں کی اپنی روایت کی تضحیک کا باعث بھی۔
ہماری تاریخ میں تو ایسے واقعات کی کمی نہیں ہے جنہیں پڑھ یا سن کر آج کے نام نہاد روشن خیال معلمین اخلاقیات اور علمبردار انسانی حقوق بھی حیرت و استعجاب میں غرق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انہی میں سے یہ ایک بے مثل واقعہ ہے جو احترام آدمیت، مساوات اور ایفائے عہد کے بے شمار روشن پہلو اپنے جلو میں لئے ہوئے ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایران پر حملہ کے دوران مسلمانوں کی فوج نے سابور نامی ایک شہر کا محاصرہ کرلیا۔ چند دن بعد مسلمانوں کے ایک غلام نے اہل سابور کو مسلم فوج کی طرف سے اپنے طور پر امان دے دی اسے تمام مسلمان امان دے چکے۔ اس کے بعد شہر کا محاصرہ اٹھالیا گیا۔ اس واقعہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو صدر مملکت کے فیصلہ پر عملدرآمد نہ کرکے ان کی جانشین حکومت اخلاقی کوتاہی کی ذمہ داری قرار پائے گی۔
صدر مرحوم کی طرف سے جناب مرار جی ڈیسائی کو اعزاز دیئے جانے کے فیصلہ کے وقت بھی کچھہ حلقوں نے اس پر ناک بھوں چھڑائے تھے اور یہ اعزاز ان تک پہنچائے جانے کے بعد بھی اسے بھارت نوازی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ بلکہ اس وقت تو یہ بھی کہا گیا تھاکہ کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کا فیصلہ احساس کمتری کا نتیجہ ہے۔ آج مرار جی ڈیسائی کو پاکستان اور مسلمان کو بڑا دشمن بھی قرار دیا جارہا ہے ان کے لئے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو جنگ کی دھمکی دی تھی لیکن اگر ہم ماضی میں جھانکنے کی تھوڑی سی زحمت گوارا کرلیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ جناب ڈیسائی کو اعزاز دینے کا فیصلہ کتنا صحیح اور بروقت تھا۔
اگست 1988ء میں جب جناب مرار جی ڈیسائی کو نشان پاکستان کا اعزاز دیئے جانے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا اس وقت بھارت میں سقوط مشرقی پاکستان کی ایک اہم کردار آنجہانی اندرا گاندھی کے صاحب زادے راجیو گاندھی وزیر اعظم تھے۔ جناب ڈیسائی راجیو گاندھی کے عزیز تھے نہ حکمراں جماعت کا نگریس کے لیڈر بلکہ نہرو خاندان کے کسی فرد کو عام انتخابات میں پہلی مرتبہ شکست کا مزا چکھنا پڑا تو وہ جناب ڈیسائی کی قیادت میں ہی ممکن ہوا۔ پھر بھارت کی تاریخ میں پہلے غیر کانگریسی وزیر اعظم بننے کا شرف بھی جناب ڈیسائی کو حاصل ہوا۔ انہی کی وزارت عظمٰی کے دوران انتخابی دھاندلیوں کی بناء پر اندرا گاندھی اور ان کے صاحب زادے اور سیاسی مشیر سنجے گاندھی کو عدالتوں کے کٹہروں میں کھڑے ہونا پڑا تھا درایں حالات جناب ڈیسائی کو نشان پاکستان کا اعزاز دینے کا فیصلہ کرنے والی ہستی مضبوط اعصاب کی مالک ہی ہوسکتی ہے۔ اگر آسان الفاظ میں بات بیان کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ اس اعزاز کا فیصلہ اس وقت کی حکومت کے منہ پر زور دار سیاسی طمانچہ تھا۔ پھر جن کو یہ اعزاز دیا گیا وہ محب وطن بھارتی باشندے ہیں جو تحریک آزادی میں پوری طرح شریک رہے ہیں۔ اس لئے پاکستان کی طرف سے یہ اعزاز جرأت اور اعلٰی ظرفی کا مظہر ہے جب ہم جناب مرار جی ڈیسائی کی وزارت عظمٰی کے دور پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں سے جاری سرد اور گرم جنگ تقریباً ختم نظر آتی ہے۔ اس دور میں تعلقات تقریباً معمول پر آگئے تھے پاکستان سے بھارت جانے والے مسافروں کو ادھر ادھر آنے جانے کی آزادی اس دور میں حاصل تھی ورنہ اس سے پہلے تھی نہ اس کے بعد بھارت میں مسلم کش فسادات کانگریس حکومت کے روز مرہ کا معمول تھے لیکن جناب ڈیسائی کی حکومت کے دوران ان میں بڑی حد تک کمی واقع ہوگئی۔ اس وقت کی بھارتی قیادت نے "پاکستان سے حملہ کے خطرے" کا ہوا کبھی کھڑا نہیں کیا۔ اگر اس دوران پاکستان کے ساتھہ بھارت کے رویہ کو ایک جملہ میں بیان کرنا چاہیں تو ہم یہ کہیں گے کہ "جناب مرار جی ڈیسائی برابری اور دوسروں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر سختی کے ساتھہ کاربند تھے" کسی بھی حلقہ کی طرف سے جناب ڈیسائی کے اس انکشاف کی آج تک تردید نہیں کی گئی ہے کہ روس نے ان سے کہا تھا کہ " وہ پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے اس پر حملہ کردیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا تھا" سبق سکھانے والی بات پر اس پس منظر میں غور کیا جانا چاہئے کہ اندرا گاندھی نے 1971ء میں روس کے ساتھہ ایک دفاعی معاہدہ کیا تھا اس کے تحت جنگ کی حالت میں روس بھارت کی ہر طرح مدد کرنے کا پابند تھا۔ سقوط مشرقی پاکستان اسی بھارت اور روس کے دفاعی معاہدہ کی بدولت ممکن ہوا۔ 1978ء میں روس بھارت سے حملہ کروا کر چاہتا تھا کہ پاکستان کے خطرہ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات پالی جائے لیکن روس کی بدقسمتی کہ بھارت کے وزیر اعظم جناب مرار جی ڈیسائی اس کیلئے تیار نہ ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق شہید اپنی عادات کے مطابق تمام بین الاقوامی یا علاقائی اجتماعات میں کشمیر کے ذکر کے بغیر بات ختم نہیں کرتے تھے لیکن جناب ڈیسائی کی حکومت نے اپنے بیشتر وزرائے عظام کے برعکس اس پر کبھی واویلا نہیں مچایا۔
ان حقائق کی روشنی میں کوئی بھی ہوشمند شخص جناب ڈیسائی کو نشان پاکستان کا اعزاز دیئے جانے کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ اگست 1947ء سے اگست 1988ء کی مدت کے دوران جناب مرار جی ڈیسائی بھارت کے پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے پڑوسیوں کے ساتھہ برابری اور ان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصولوں پر کاربند ہونے کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ایسے شخص کا احترام کرنا اور اسے عزت دینا بھی انسان دوستی کو فروغ دینے کے مترادف ہے اور جنرل ضیاء الحق نے اس کا پورا پورا جواب دیکر بین الاقوامی تعلقات میں ایک اہم اور نئی پیشرفت کو متعارف کروایا۔ نشان پاکستان کا ملنا دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید بہتر بنانے میں اہم ذریعہ ثابت ہوگا۔ اگر ادبی اور سماجی ادارے ، اخبارات و رسائل عوامی سطح پر اس قسم کے اعزازات کے تبادلوں کا آغاز کردیں تو دونوں ملکوں کے حالات میں بڑی مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے لیڈروں کے وفود کا تبادلہ بھی بار بار ہونا چاہئے۔ اقتصادی اور تجارتی میدان میں بھی دونوں ملکوں کو پیشرفت کرنی چاہئے۔ سفر کے سلسلہ میں عائد موجودہ پابندیوں کو نرم کرنے سے دونوں ملک سیاحت کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔
اگر دونوں ملکوں کی قیادتیں یہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان ور بھارت کا قریب آنا صرف دونوں ملکوں ہی کیلئے نہیں بلکہ پورے علاقہ کے امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کیلئے ضروری اور مفید ہے تو پھر کھلے دل کے ساتھہ ہر سطح پر عوام کے درمیان رابطہ کی ہمت افزائی بھی کرنی ہوگی جب لوگ آپس میں ملیں گے تو وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نگاہ کو سمجھنے کی کوشش بھی کریں گے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں ملکوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو دل سے چاہتے ہیں کہ باہمی تنازعات کا جلد از جلد کوئی پرُامن اور مستقل حل نکل آئے۔ آج دونوں ملک ایک دوسرے سے خوف زدہ ہوکر اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ دفاع پر خرچ کررہے ہیں۔ تنازعات کے منصفانہ حل کے بعد باہمی اعتماد کی فضا قائم ہوجائے تو وہی رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کا یہ فیصلہ مستحسن اور بروقت ہی قرار دیا جائے گا کہ اس نے جناب مرار جی ڈیسائی کو اعزاز دینے کے فیصلہ کو عملی شکل دی۔ پاکستان کے اس قدم سے خیر سگالی کے جذبات ہی پیدا ہوں گے۔ جس کی دونوں ملکوں کو بڑی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہئے کہ جناب مرار جی ڈیسائی بھارت کے ایسے پرانے اور دیانتدار لیڈر ہیں جن سے بھارتی عوام کا ہر طبقہ بڑی محبت کرتا ہے۔ وہ بھارت کے غدار نہیں کہ انہیں نوازنے سے دونوں ملکوں کے عوام یا حکومتوں کے درمیان تعلقات پر کوئی منفی اثرات مرتب ہوں۔ 11 مارچ 1948ء کو سوئزرلینڈ کے ایک صحافی نے قائداعظم سے سوال کیا "کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت بھی اپنے اختلافات اور تنازعات پرُامن طور پر حل کرلیں گے؟ قائداعظم کا جواب تھا "ہاں یقیناً بشرطیکہ حکومت بھارت احساس برتری ختم کردے۔ پاکستان کو برابر کا سمجھے اور اصلی حقائق کا سامنا کرے۔" پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود مسائل کے حل کی بنیادی شرط آج بھی وہی ہے جو بانیٔ پاکستان نے 43 سال قبل پیش کی تھی۔
No comments:
Post a Comment