پیپلز پارٹی اور جمہوریت

روزنامہ جسارت پیر8 جنوری 1990 ء

جب پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوجاتی ہے تو وہ اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھنے لگتی ہے۔ جیساکہ آج کل ہے لیکن وہ اسی پر بس نہیں کرتی بلکہ وہ جمہوریت پر بھی اس طرح اپنی اجارہ داری سمجھتی ہے کہ اس کی قیادت جو بھی چاہے جہوریت کی تشریح اور تعریف کرے وہ روا ہے۔ آئین تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ حکومت کی تبدیلی کی اجازت دیتا ہے لیکن اکتوبر میں پیش کردہ عدم اعتماد کی تحریک کو " جمہوریت کے خلاف سازش" قرار دے کر پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ تاثر دینے کو کوشش کی گویا پی پی ہی جمہوریت کا دوسرا نام ہے۔ اس قسم کے بے سروپا باتوں سے ایک بات ضرور کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ پی پی کی چیئرمین اور شریک چیئرپرسن برسوں فرانس اور برطانیہ میں مقیم رہیں لیکن وہاں انہوں نے حکومت اور مملکت، جماعت اور جمہوریت کی صحیح تعریف اور اس کی روایت اور تقاضوں کے بارے میں کچھہ واقفیت حاصل کرکے آتیں تو آج ان پر " جمہوریت کی ابجد" سے ناواقفیت کا الزام نہ لگتا۔

یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار پائے اور بلوچستان کی اسمبلی کو اس کے قیام کے چند دن بعد ہی توڑ دے تو یہ عین جمہوری قدم قرار دیا جائے اور پھر طرہ یہ کہ اس کاروائی سے بے خبری کا دعویٰ کرکے اعلٰی ترین سطح پر جھوٹ بول کر اخلاقی گراوٹ کا ثبوت فراہم کیا جائے۔ پی پی کا معیار جمہوریت بھی خوب ہے۔ قومی اسمبلی میں اکثریت ثابت کئے بغیر پی پی کی قائد کو وزیر اعظم نامزد کرنے میں آئینی تقاضوں کے مطابق تاخیر ہوتو یہ غیر جمہوری اور پنجاب اسمبلی میں واضح اور قطعی اکثریت حاصل ہونے کے باوجود میاں نواز شریف کو وزیر اعلٰی کی حیثیت سے حلف اٹھانے کی تقریب کو ملتوی کرنے کی کوشش عین جمہوری قدم سمجھا جائے۔ پھر عوام نے جن لوگوں کو مسترد کردیا ہو انہیں گورنر، مشیر اور پیپلز پروگرام کے سربراہ بنا کر عوام پر مسلط کر دینا کہاں کی جمہوریت ہے۔ بلکہ یہ تو عوام کے منہ پر طمانچہ مارنے کے مترادف ہے کہ ان پر ان کے ٹھکرائے ہوئے افراد ہی کو بٹھادیا جائے۔

پی پی کا پہلا عوامی دور ہنگامی حالات اور دفعہ 144 کے زیر سایہ گزرا تھا اب بھی وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 کی رو سے اور سندھ میں جہاں خالص پی پی کی حکومت ہے رینجرز اور فوج کے ذریعہ حکومت کی جارہی ہے۔ سندھ میں تو کبھی اعلان شدہ اور کبھی غیر اعلان شدہ کرفیو کا سہارا بھی اکثر و بیشتر لیا جاتا رہا ہے۔ مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی برسی منانے کا سوال ہو تو پورے ملک میں اک طوفان بدتمیزی برپا کر دیا جاتا ہے اور اس خالص مذہبی تقریب کی اجازت مختلف پابندیاں لگا کر اور شرائط عائد کرکے دی جائے اور پی پی سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں، پولیس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک ہونے والے ڈاکوؤں م خودکشی کرنے والوں اور عدالت کے فیصلوں کے مطابق پھانسی پانے والوں کی برسی یا سالگرہ کی بات ہو تو سرکاری سطح پر اہتمام اور قومی ذرائع ابلاغ کا بیجا استعمال بھی جائز ٹھہرے۔ دراصل یہی پی پی کی جمہوریت نوازی کی معمولی معمولی مثالیں ہیں۔

وزیر اعظم بے نظیر بھٹو غیر ممالک میں جاکر تو جمہوری ملکوں کی انجمن قائم کرنے کی تجویز رکھتی ہیں لیکن خود ان کی حکومت کیا اس ملک میں جمہوری تقاضوں کے مطابق قائم ہوئی ہے؟ بلکہ یہ بات تو اب ایک کھلا راز ہے کہ امریکہ بہادر کی آشیرواد ہی سے پاکستان پر پی پی کی حکومت مسلط کی گئی ہے اور گزشتہ ایک سال کے دوران امریکہ سے اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے ہماری وزیر اعظم کئی مرتبہ امداد کی درخواستیں بھی کرچکی ہے اور اس کا بھانڈا پاکستان کے اخبارات یا حزب اختلاف کے قائدین نے نہیں بلکہ مغربی ملکوں کے آزاد اخبارات ہی نے پھوڑا ہے۔

اب اس بات میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ بھٹو گھرانہ اس ملک میں حکمرانی کا حق صرف اپنے ہی لئے مخصوص کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ یہ کسی بھی پارٹی کے نام پر اور کسی کی بھی امداد سے پاکستان میں اپنے خاندان کی دائمی حکومت قائم کرنے کا مقصد حاصل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی۔ یہ گھرانہ جمہوری روایت کو پاؤں تلے روندنے کا عادی رہا ہے اور عزیز و اقارب کو نوازنے کی پالیسی اسی خواہش کی غماز ہے اور سندھ میں ' علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دینے کے پیچھے کار فرما عوامل پر غور کیا جائے اس میں بھی " خاندانی بادشاہت" کا خواب ہی چھپا ملے گا لیکن قوم ان تمام باتوں کو خوب سمجھتی ہے اور یہ عزائم کبھی پورے نہ ہوسکیں گے۔

No comments:

Post a Comment