مولانا سیّد وصی مظہر ندوی کے جواب میں

روزنامہ جسارت ہفتہ 24 اکتوبر 1987 ء

6 اکتوبر 1987 ء کو روزنامہ جسارت کے قیمتی کالموں میں میرے مضمون " جمہوری نظام میں کوئی ناگزیر نہیں" کے جواب میں مولانا سیّد وصی مظہر ندوی رکن قومی اسمبلی کی طرف سے 13 اکتوبر کو اسی اخبار میں شائع ہونے والی وضاحت میں مجھہ ناچیز کو اپنا " خاص کرم فرما" قرار دینے کی کرم فرمائی پر میں ان کا ممنون ہوں لیکن اس وضاحت کے اخری جملہ میں " حسب ضرورت اب بالواسطہ ملاقات ہی پر اکتفا کرنے " کے عزم سے مجھے بڑا دکھہ پہنچا ہے۔ بہرحال یہ مختصر وضاحت نامہ مولانائے محترم کی شخصیت کے چند اہم پہلوؤں کا عکاس بھی ہے۔ پہلی بات تو یہ سامنے آئی ہے کہ تحریر و تقریر کی آزادی کا جو حق مولانا خود استعمال کرنا چاہتے اور کرتے رہتے ہیں وہ یہ حق کسی اورکو دینے کے قطعاً روادار نہیں ، دوسرا یہ کہ موصوف اختلاف رائے کے اظہار کا حق بھی اپنے علاوہ کسی اور کو دینے کے قائل نہیں اور اگر کوئی ایسی گستاخی کا ارتکاب کرلے تو اس سے ذاتی رابطہ منقطع کرکے اس کے خلاف اعلان جنگ کردیتے ہیں اور چھوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ موصوف بھی مصلحت اور نظریۂ ضرورت کے قائل ہیں۔ بہرحال میں ان باتوں کی نشاندہی کی جرأت مولانا کے ایک نیاز مند کی حیثیت سے خود ان کی اور قوم کی بھلائی کے پیش نظر کررہا ہوں۔ امید ہے کہ اسی پس منظر میں ان گزارشات کو لیا جائے گی۔

اخبار میں شائع ہونے والے کسی بیان یا مضمون کے مندرجات سے اختلاف رائے کا اظہار اخبار ہی کے ذریعہ کرنے کا مطلب ہر گز ذاتی رابطوں یا تعلقات کو ختم کرنا نہیں ہوتا اگر بات یہی ہے تو پھر پریس کانفرنسوں، مضمونوں اور تقریروں سے کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا قومی اسمبلی کے ایوانوں کو حکومت تک اپنی بات پہنچانے کےلئے استعمال نہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مولانا ایک سیاستداں ہیں وہ اپنے مخالفین اور ارباب اختیار پر اکثر سخت تنقید کرتے رہتے ہیں تو کیا انہیں خود پر کی جانے والی تنقید کو خوش آمدید کہنے کا حوصلہ بھی رکھنا چاہئے لیکن افسوس کہ موصوف نے اپنے ایک بہی خواہ کی طرف سے بنیادی اور اصولی بات پر اختلاف اور تنقید پر خفا ہو کر ذاتی رابطوں کے انقطاع کا فیصلہ کرلیا اور یہ کوئی صحت مند علامت نہیں ہے۔ گو مولانا کی افتاد طبع سے اس بات کی توقع کم ہی ہے، پھر بھی ان کے ایک خیر خواہ کی حیثیت سے مؤدبانہ مشورہ دوں گا کہ وہ ماضی پر نظر ڈالیں اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھہ غور فرمائیں تو ان پر تلخ حقیقت منکشف ہوگی وہ اپنے رویہ کی بنا پر مخلص ساتھیوں، خادموں اور خیر خواہوں کی کتنی بڑی تعداد سےمحروم ہوچکے ہیں۔

مانیں نہ مانیں ، آپ کو یہ اختیار ہے

ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہییں

اپنی اس پریس کانفرنس کی رپورٹنگ کے سلسلہ میں مولانا ندوی نے جو کچھہ فرمایا ہے اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ اخبارات میں شائع ہونے والے بیانات کی تصدیق کی ذمہ داری بھی قارئین ہی پر عائد ہوتی ہے، صاحب بیان پر نہیں۔ مانا کہ ہر بات کی تردید ممکن نہیں، لیکن ہمارے اخبارات ایسے غیر ذمہ دار بھی نہیں کہ ان میں کوئی بیان اپنی اصل شکل میں شائع ہی نہیں ہوتا ہو کہ ہر بیان کی تردید یا وضاحت کی ضرورت پیش آئے گو اس سلسلہ میں صحافی حضرات ہی بہتر طور پر بات کو سمجھا سکتے ہیں لیکن پھر بھی یہیں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ہمارے لیڈر حضرات بھی بیان دینے کے بعد کسی بات کو مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں یا حلقۂ احباب زور دیتا ہے تو صحافیوں پر بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا الزام لگا کر اپنی جان چھڑالیتے ہیں پھر کسی بات کو سن کر اس کا مفہوم سمجھنے میں بھی اختلاف ممکن ہے لیکن کسی اخبار میں بنیادی یا اصولی بات کسی سے منسوب ہوجائے تو صاحب بیان کا فرض ہے کہ وہ اس کی تردید اور وضاحت کا اہتمام کرے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اختر رضوی کے بارے میں مولانائے محترم نے کیا فرمایا اور کیا نہیں اور وہ روزنامہ جسارت میں کس انداز سے شائع ہوا اس کا جواب تو اخبار کے نمائندہ ہی کی طرف سے آسکتا ہے لیکن اس انکشاف سے کہ موصوف اختر رضوی کے بارے میں نہیں جانتے کہ وہ کون اور کیا ہیں اور ان کے نظریات کیا ہیں ۔ مولانا کے مداحوں کی بڑی تعداد کو صدمہ پہنچائے اس لئے کہ مولانا جیسی شخصیت سے اس بے خبری کی توقع نہیں رکھی جاسکتی یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر موصوف کی اختر رضوی کے بارے میں کچھہ معلوم نہ تھا تو پھر آپ نے ان سے کس حیثیت سے ملاقات فرمائی اور دوسری ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق پیش کی اور وزیر داخلہ کی یقین دہانی پر ملاقات کی غرض سے قومی اسمبلی کا اجلاس چھوڑ کر کراچی کا سفر اختیار کیا۔ مولانا شاید بھول رہے ہیں کہ گذشتہ دنوں ایک ہفت روزہ میں اختر رضوی کے بارے میں جو کچھہ شائع ہوا انہوں نے اسکا بغور مطالعہ کیا ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ موصوف کے متعلق مولانا اس سے بھی زیادہ ہی جانتے ہیں جس کی نشاندہی کسی اخباری نمائندہ نے کی تھی۔ بہرحال میں یہ التماس ضرور کروں گا کہ اپنی پہلی ملاقات کے دوران اختر رضوی سے جو گفتگو ہوئی ہے، مولانا اس سے عوام کو باخبر کریں تاکہ دوسرے لیڈروں سے " خفیہ مذاکرات" اور " قومی مفاد" کے نام پر جس منافقانہ روش کا اختیار کیا ہوا ہے اس پر زد پڑے اور یہ بھی ثابت ہوجائے کہ مولانا پس پردہ اور پیش پردہ یکساں ہیں۔ مولانا سے بہتر اس حقیقت سے اور کون واقف ہوگا کہ ہمارے بیشتر مسائل کا سبب ہمارے بعض لیڈروں کا رویہ ہے ہے۔

No comments:

Post a Comment