چند کڑوی گولیاں کھانی پڑیں گی
روزنامہ جنگ اتوار 13 دسمبر 1998ء
امن صرف انسانوں ہی کی نہیں آبادی میں رہنے والے چرند اور پرند کی بھی بنیادی ضرورت ہے اس لئے کہ دوسری تمام بنیادی ضرورتوں کی تکمیل امن ہی سے مشروط ہے۔ روزگار اور تعلیم کا حصول ، علاج و معالجے کی سہولتیں ، عبادت، اظہار خیال، اجتماع اور آمد رفت کی آذادی ار مجلسی سرگرمیاں صرف پر امن ماحول ہی میں ممکن ہیں اور اس کی حقیقت کو جاننے کے لئے ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ مک کا سب سے بڑا شہر کراچی اس کا ثبوت ہے۔ منی پاکستان ،عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر جس کا دوسرا نام تھا جسے ہر پاکستانی اپنا شہر کہتا تھا پھر وہی شہر اپنی آغوش میں پلنے اور بڑھنے والوں کیلئے اجنبی اور مقتل بنادیا گیا۔ گزشتہ بارہ سال سے کراچی ہر پہلو سے شہر پر آشوب بنا ہوا ہے یہاں ناجائز ہتھیاروں کے حصول اور ان کے استعمال کی ایسی آزادی دی گئی کہ غیر مہذب اور قبائلی معاشرہ کو بھی اس پر رشک آنے لگا۔ قاتلوں، ظالموں اور دہشت گردوں کی سرپرستی اس طرح کی گئی کہ امن پسند شہری ہر طرف سے مایوس ہوکر خود کو دہشت گردوں کی پناہ میں دینے ہی میں عافیت سمجھنے پر مجبور ہو گئے۔ اگر ہم غور کریں تو اس وحشت ناک صورتحال کا بنیادی اور واحد سبب ہوس اقتدار کے دیوانوں کی "سیاسی مصلحتیں" ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت بھی بدقسمتی سے کبھی کم اور کبھی زیادہ لاقانونیت ہی کا شکار ہے ۔ اس دور میں بھی مغویوں کے تبادلے جنگی قیدیوں کے طرز پر ہوتے رہے اور سوختہ لاشیں ملتی رہیں ۔ وفاقی حکومت نے حکیم محمد سعید کی شہادت کے نتیجہ میں عوام کا غم و غصہ کا سیلاب روکنے کیلئے "سیاسی مصلحتوں" سے کام لیتے ہوئے نیم دلی کے ساتھہ صوبہ میں گورنر راج یعنی چوپٹ راج بن کر رہ جاتا۔ بہرحال بعد از خرابی بسیار سندھ میں گورنر راج کے قیام پر ہر پاکستانی کی بالعموم اور کراچی اور سندھ کے ہر باشندے کی بالخصوص یہ دلی خواہش اور دعا ہے کہ یہ تجربہ کامیاب ہو اور سندھ ایک مرتبہ پھر امن، بھائی چارہ اور محبت والفت کا گہوارا بن جائے۔ یہاں چند نکات بیان کئے جارہے ہیں جو مستقل اور پائیدار امن کے قیام کے لئے ضروری ہیں یہ یقینی ہے کہ ان کو مزید بہتر بنا کر زیادہ اچھے نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں نکتے یہ ہیں۔ (1) گرفتاری کیلئے صرف مجرموں ہی پر ہاتھہ ڈالا جائے، مطلوب کی عدم دستیابی پر بے گناہ عزیز و اقارب اور دوست احباب کو گرفتار کرنے کی قبیح اور غیر آئینی روایت سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔ (2) گرفتاری اور مقدمات کی سماعت میں غیر جانبداری سے کام لیا جانا چاہئے اور یہ غیر جانبدراری نظر بھی آنی چاہئے۔ (3) مختلف جماعتوں یا تنظیموں سے تعلق رکھے والوں کو محض تناسب قائم رکھنے کی غرض سے گرفتار نہیں کا جانا چاہئے۔ (4) گرفتاری ، رہائی اور فیصلوں کے سلسلہ میں کسی بھی قسم کا سیاسی دباؤ، اثر و رسوخ یا تعلق کو ہرگز قبول نہیں کیا جانا چاہئے۔ (5) امن کی کوششوں کا تعلق کسی کے اقتدار کو بچانا، بحال کرنا، محروم کرنا یا کسی قسم کے سیاسی مفادات کا حصول نہیں ہونا چاہئے۔ (6) اندھی ایف آئی آر کی بنیاد پر کسی بے گناہ کو سزا دلوائی جانی چاہئے اور نہ ہی کسی گناہ گار کو شک کا فائدہ دے کر رہا کیا جانا چاہئے۔ (7) عدالتوں کے پیش نظر "سزا" نہیں "انصاف" ہونا چاہئے اس لئے کہ اسلام عدل کی تلقین کرتا ہے۔ (8) ملزمین کو کسی بھی عوامی منصب پر فائز نہیں کیا جانا چاہئے۔ (9) صوبہ کو ہتھیاروں سے پاک کرنا بھی پائیدار امن کیلئے از بس ضروری ہے۔ (10) جذبہ خدمت سے سرشار دیانتدار، شریف النفس اور قانون کی پابند پولیس کے بغیر قیام امن کا تصور ممکن نہیں اس لئے ضروری ہے کہ پولیس کو فوری طور پر کالی بھیڑوں ، سیاسی کارکنوں ، قانون دشمن اور اخلاق باختہ افراد سے پاک کیا جائے تاکہ معاشرہ میں پولیس کی عزت و وقار میں اضافہ ہو اسے عوام کا تعان حاصل ہو اس طرح خود پولیس کا کام بھی بہت آسان ہوجائے گا۔ 12 سال سے جاری سندھ میں قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے مستقل خاتمہ کیلئے ان افراد کی ذمہ داری کا تعین کرنا بھی ضروری ہے جو اس دوران ہم سیاسی اور انتظامی مناصب ہی پر فائز ہے ان میں 1985ء سے اب تک کے تمام چیف سیکریٹری، آئی جی، ڈی آئی جی، ہوم سیکریٹری، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر شامل ہیں۔ جب تک ان حضرات کا سخت احتساب نہیں کیا جاتا اس وقت تک مستقل اور پائیدار امن کی خواہش ادھوری رہے گی اس لئے کوئی بھی طالع آزما سیاستداں "جمہوریت" کے نام پر اور کوئی بھی اعلٰی سرکاری افسر امن و انصاف کے نام پر کسی وقت بھی اپنا کھیل کھیلے کیلئے آزاد رہے گا اس کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ ہی کے حاضر یا سبکدوش جج صاحبان پر مشتمل کم از کم پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس قدر بااختیار ہو کہ بدامنی کے ذمہ دار اہم افراد کیلئے سزا بھی تجویز کریں اور اپنی رپورٹ ذرائع ابلاغ کے تعاون سے مشتہر کریں۔ اگر ہم خلوص نیت کے ساتھہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو اور ہم دنیا کی باعزت اور خوددار اقوام میں شمار کئے جائیں تو اس کیلئے چند کڑوی گولیاں کھانی ہی پڑیں گی۔
No comments:
Post a Comment