شرابی رکن اسمبلی نہیں ہوسکتا

روزنامہ جسارت ہفتہ 6 جنوری 1990 ء

چند عشروں قبل کوئی بھی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ ہم اتنی جلد اور اس قدر اخلاقی انحطاط کا شکار ہوجائیں گے کہ ہمارے درمیان سے خیر اور شر کی تمیز بھی ختم ہوکر رہ جائے گی اور یہ کہ ہمارے ملک کا قانون اس قدر بے وقعت ہوجائے گا کہ جو شخص جب اور جہاں چاہے گا اس کی دھجیاں بکھیرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورتحال ماضی کی کوکھہ سے ہی پیدا ہوتی ہے جس کے ذمہ دار ہم سب یکساں طور پر ہیں جس طرح چھوٹے سے بیج میں ایک تناور درخت چھپا ہوتا ہے بالکل اسی طرح قابل فخر کارناموں اور قابل نفرت کرتوتوں کی ابتداء بھی بہت ہی چھوٹی سے بات سے ہوتی ہے۔ جب معاشرہ اپنے میں ہونے والی پہلی برائی یا کی جانے والی قانون کی پہلی خلاف ورزی کو برداشت کرلیتا یا نظرانداز کردیتا ہے تو سمجھہ لینا چاہئے کہ اس معاشرہ کو لازمی طور پر اس کیفیت کا شکار ہونا پڑتا ہے جس سے آج ہم دوچار ہیں۔ اگر ہم نے اس ایک فرد کو عبرتناک سزادیدی ہوتی جس نے پہلی مرتبہ ہمارے ملکی قانون کی خلاف ورزی کرکے اس کی توہین کی تھی یا ہماری کسی سماجی روایت کے برخلاف کسی برائی کا ارتکاب کیا تھا تو آئندہ کسی کو ایسا کرنے جرأت نہیں ہوتی اور ہم اعلٰی اخلاق و کردار اور قانون کی بالادستی کے لحاظ سے ایک قابل فخر بلکہ قابل تقلید قوم کے فرد ہوتے لیکن بدقسمتی سے ہم نے برائی سے چشم پوشی کی فاش غلطی کے ارتکاب ہی عافیت سمجھی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم میں سے آج کوئی بھی اور کسی جگہ بھی خود کو محفوظ نہیں پاتا۔

اخلاقی انحطاط جس قومی کے لئے سرطان کی طرح خطرناک ہوتا ہے ذرا سی غفلت بھی بڑی پیچیدگیوں کا باعث بن جاتی ہے اور آج ہمیں بھی ایسی کیفیت کا سامنا ہے کہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔ مکتب اور مدرسہ، دفتر اور دکان، میدان اور مکان، صحافت اورسیاست ہر جگہ بدامنی ، بددیانتی ، بدعنوانی اور بدمعاشی کا دور ہے امانت میں خیانت ہمارا قومی کردار بن چکی ہے ۔ سرکاری ملازم ہوں کہ عوامی نمائندے با مستثنائے چند سب ہی لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں اور سب ہی قومی وقار اور ملکی استحکام کا سودا کرنے پر تلے نظر آتے ہیں ۔ عوامی نمائندگی بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے لیکن کم ظرفوں نے دولت کے بل بوتے پر اب اس اعزاز کو بھی کاروبار بنالیا ہے اسمبلی کا رکن منتخب ہونے والوں میں ایسے حضرات کی کمی نہیں جو اس منصب کی توہین کا باعث بن رہے ہیں کوئی " برائے فروخت" کا بورڈ گلے میں لٹکا کر بازار میں بیٹھہ جاتا ہے اور کوئی شراب کے نشے میں دھت رات کو کمروں سے برہنہ نکل آتے ہیں ایسے ہی لوگ دراصل ننگ وطن اور ننگ قوم ہیں۔

ہزارہ سے تعلق رکھنے والے سرحد اسمبلی کے ایک رکن شراب پی کر ایسے مدہوش ہوئے کہ انہوں نے خود کو لباس سے آزاد کرلیا اور کمرے سے باہر نکل آئے جنہیں اخباری اطلاعات کے مطابق بمشکل واپس کمرے تک پہنچایا گیا یہ واقعہ حال ہی میں پیش آیا اس واقعہ پر سرحد اسمبلی کے اسپیکر بیرسٹر مسعود کوثر نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے انتہائی سنگین نوعیت کا واقعہ قرار دیا اور کہا کہ " آئندہ ایسے کسی واقعہ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔" رکن اسمبلی کی حرکت تو شرمناک ہے لیکن اس واقعہ کو برداشت کرنا بھی بڑی تشویشناک بات ہے اس لئے کہ ہم پھر وہی غلطی دہرارہے ہیں جو پہلے ہم کرچکے ہیں۔ اگر ہم نے آج اس برائی سے چشم پوشی کی تو کل اس سے زیادہ سنگین واقعہ کو برداشت کونے کی اذیت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس لئے قومی وقار اور اسمبلی کے احترام کا تقاضا ہے کہ اس واقعہ کے سلسلے میں عفو و درگزر سے کام نہ لیا جائے اگر آج یہ روایت بد قائم کردی گئی تو پھر اس قسم کے سانحات کی کوئی حد نہیں ہوگی۔

اس سے قطع نظر کہ شراب نوش کون ہے اور اس نے کیا گل کھلائے ۔ شراب نوشی دین اسلام کے واضح احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے اور ایسا کرنے والے کے لئے ہمارے معاشرے میں بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پھر یہ بھی کم اہم بات نہیں ہے کہ اس قسم کے گناہ کا ارتکاب کرنے والا کوئی بھی فرد صوبائی یا قومی اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہیں ہے اور ہمارا آئین اس سلسلے میں بالکل واضح اور غیر مبہم ہے۔ دستور پاکستان کی دفعہ 62 کی شق (د) اور دفعہ 63 کی شق (ز) کے مطابق اسمبلی کی رکنیت کے اہل صرف وہی لوگ ہیں جو اچھے کردار کے مالک ہوں یا جن کا عمل نظریہ پاکستان کے برخلاف نہ ہو اور وہ اسلامی احکامات کی خلاف ورزی نہ کرتے ہوں لیکن جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے مذکورہ رکن صوبائی اسمبلی کا عمل اسلامی احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے بالفاظ دیگر آئین ایسے شخص کو اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دیتا ہے۔ اس لئے اس جرم سے چشم پوشی اور اس شخص کی رکنیت کو جاری رکھنے کی اجازت دینا بھی شریک جرم ہونے کے مترادف ہے پھر اسمبلی کے اسپیکر اراکین کے استحقاق اور ان کے احترام ہی کے ضامن نہیں بلکہ اسمبلی کا وقار برقرار رکھنے کے ذمہ دار بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے سرحد اسمبلی کے اسپیکر پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو ایسے شخص کی نشست خالی قرار دینے کے لئے رجوع کریں تاکہ مستقبل کے لئے یہ ایک اچھی روایت کا سنگ میل ثابت ہو اور معاشرہ کالی بھیڑوں سے پاک کیا جاسکے لیکن یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا جب تک مجرموں کو بلا امتیاز سزا دینے کی روایت اپنائی نہیں جائے گی۔ جرم اور گناہ کا ارتکاب اگر عوام کا کوئی نمائندہ کرتا ہے تو اس کی شدت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے اس لئے کہ ایسا شخص ہزاروں لاکھوں رائے دہندگان کی توہین کا مرتکب بھی ہوتا ہے ایسے شخص کو اسمبلی میں بیٹھنے کی اجازت دینا عوام کی توہین ہے اور ہمیں آئین اور دین کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں کسی معلومات سے کام نہیں لینا چاہئے۔

No comments:

Post a Comment