نقل مکانی اور اس کے اثرات (2)

روزنامہ جنگ منگل 14 جولائی 1987ء

نقل مکانی کے جو چار اسباب پیں ان پر اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ یعنی انتقال آبادی کے عمل سے جو شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوتے ہیں وہ بھی اقتصادی، سماجی و معاشرتی، مذہبی و سیاسی اور آبادی ہیں جو نقل مکانی کے اسباب بھی ہیں۔

اقتصادی

جب کسی جگہ چاہے وہ پہاڑ ہی کیوں نہ ہو کسی چیز کا بوجھہ ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے تو وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتی ہے۔ اگر کسی جگہ آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوجائے تو نہ صرف اقتصادی حالت ہی بگڑ کر رہ جاتی ہے بلکہ وہاں دوسرے کئی پیچیدہ مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس کی مثال ریل گاڑی کے اس ڈبے سے دی جاسکتی ہے جس میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار ہوجاتے ہیں تو وہاں تمام ہی مسافروں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سفر اطمینان سے نہیں گزرسکتاا بلکہ اس بھیڑ بھاڑ سے کچھہ نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں اور مسافر باہم لڑنے، جگھڑنے بھی لگتے ہیں۔ اس کے برخلاف جس ڈبے میں گنجائش کے مطابق مسافر سوار ہوں گے وہاں سب ہی اطمینان اور محبت کے ساتھہ سفر کریں گے اور ایک دوسرے کی تکلیف کا خیال بھی رکھیں گے۔ کسی جگہ وسائل کی کتنی ہی فراوانی ہو نقل مکانی سے جب وہاں ضرورت مند زیادہ ہوں گے تو وہی وسائل کم پڑجائیں گے۔

نقل مکانی کے سبب دنیا کے کئی شہر اب آبادی کے لحاظ سے پھٹ پڑنے والے ہیں ان کے وسائل جواب دے چکے ہیں ان شہریوں میں ویسے تو کراچی، بمبئی، کلکتہ، لندن، نیویارک، لاس اینجلز، سنگاپور اور ہانگ کانگ قابل ذکر ہیں۔ لیکن ترقی پذیر ملکوں کے لئے اقتصادی حالت کو آبادی کے تناسب کے مطابق برقرار رکھنا ممکن نہیں رہتا مثال کے طور پر کراچی ہی کو لیجئے صنعت و تجارت اور روزگار کے دیگر وسائل کی بھرمار کے باوجود اب یہاں کی اقتصادی استطاعت جواب دینے کو ہے اب یہاں لوگوں کو نہ صرف یہ کہ روزگار کے وسائل ہی ختم ہوچکے ہیں بلکہ بنیادی ضروریات تک پوری نہیں کی جارہی ہیں۔ پانی، بجلیک اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہیں اور یہ سب کچھہ نقل مکانی ہی کا سبب ہے۔ گنجائش سے زیادہ مسافروں سے بھرے ہوئے ریل کے ڈبوں کی طرح اب کراچی میں بھی کبھی کبھار تصادم اور اشتعال انگیزیوں کے مظاہرے ہوتے ہیں وہ اسی سبب سے ہے کہ یہاں نقل مکانی کرکے آنے والوں کی تعداد گنجائش سے بہت بڑھ گئی ہے اور وسائل اور سہولتوں میں اضافے کی رفتار رک گئی ہے۔

سماجی و معاشرتی

نقل مکانی کے سبب جب آبادی میں کسی جگہ غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے تو وہاں روزگاار اور معاش کے وسائل میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور اس کا نتیجہ جرائم میں اضافے کی صورت ہی میں نکلتا ہے پھر وہاں امن و امن اور نظم و نسق کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ انتقال آبادی کے نتیجے میں مختلف زبان بولنے والے اور مختلف طرز معاشرت کے حامل افراد ایک جگہ رہائش پذیر ہوتے ہیں یا ایک جگہ ملازمت کرتے یا کاروبار کرتے ہیں اس لئے کہ ان کی رسم رواج میں بھی فرق ہوتا ہے ان کے باہمی تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ قصبوں، دیہات اور اپنے آبائی علاقوں میں لوگ مضبوط معاشی بندھن میں بندھے ہوتے ہیں لیکن جب وہ نقل مکانی کرجاتے ہیں تو کچھہ زیادہ ہی آزاد ہوجاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں خصوصا لوگ مادر پدر آزاد ہوتے ہیں۔ بڑے شہر اور گھنی آبادی جرائم پیشہ لوگوں کے لئے اسی طرح پناہ گاہ کا کام دیتی ہیں جس طرح گھنے جنگل ڈاکوؤں کے لئے۔

انسانوں کے مابین کسی قسم کا فرق اور تمیز تو روا نہیں رکھی جاسکتی لیکن لوگوں کی تعلیم، ان کے رہن سہن کے طریقے باہمی تعلقات میں بہرحال اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اب اس حقیقت سے کوئ انکار کرسکتا ہے کہ پڑھے لکھے گھرانوں کے بچے گالیاں نہیں دیتے وہ نالیوں میں نہیں کھیلتے لیکن ان پڑھ خاندانوں میں گالی دینا معیوب نہیں سمجھا جاتا ، بچے گندگی میں کھیلتے رہتے ہیں لیکن والدین اس کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ سماج اور معاشرہ ان تمام کیفیات سے متاثر ہوتا ہے او اس کی بنیاد کمزور پڑجاتی ہے اس کا نمایاں فرق آپ ان محلوں یا بستیوں میں بخوبی لگا سکتے ہیں جہاں ایک ہی خاندان کے لوگ رہتے ہیں یا شہروں میں ایسے علاقے جو کیلتا میمن برادری یا خوجہ برادری پر مشتمل ہوں یا چہار دیواری میں ان کی کالونیاں یا فلیٹ ہیں وہاں عورت اور مرد، جوان اور بوڑھے سب ہی کچھہ اصولوں کی پابندی کرتے ہیں اور وہ کسی قاعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ لیکن بے ہنگم آبادی میں کوئی کسی قانون قاعدے کا پابند نہیں ہوتا اور یہ کوئی اچھی علامت قرار نہیں دی جاسکتی۔

مذہبی و سیاسی

کسی جگہ نقل مکانی کرکے آنے والوں میں اکثریت اگر غیرملکیوں کی ہوتو وہاں سیاسی نہیں بلکہ مذہبی نوعیت کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ بالخصوص کھانے پینے کی اشیاء کے سلسلے میں ۔ ۔ ۔ جیسے خلیجی ملکوں میں بڑی مخلوط قسم کی آبادی سے شروع میں وہاں حرام اور حلال گوشت میں تمیز مشکل تھی لیکن بعد میں قانون کے ذریعے بڑے ہوٹلوں اور سپر مارکیٹوں کو پابند کردیا گیا کہ وہ حرام گوشت کو الگ رکھیں اور اس پر نمایاں طور پر لکھہ کر لگائیں کہ یہ کس کا گوشت ہے لیکن پھر بھی کبھی کبھار ناخوشگوار واقعات پش آجایا کرتے تھے۔ جہاں تک مذہبی احکامات پر پابندی کا تعلق ہے تو لوگ آج کل ہر پابندی سے آزاد ہوتے جارہے ہیں لیکن ہمارے ملک میں لوگ مذہب سے زیادہ مسلک کے پروکار ہیں اس لئے نقل مکانی کے سبب ہمارے یہاں بعض وقت فرقہ ورانہ فسادات رونما ہوتے ہیں گو کہ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں لیکن متعلقہ حضرات اس فساد کو اپن مذہب کا بنیادی حق سمجھتے ہیں لیکن ہر ذی شعور شخص اس قسم کے رجحان کی مذمت ہی کرتا ہے اور یہی مذہبی بھلائی کی علامت ہے۔

نقل مکانی کے سیاسی اثرات بھی بڑی حد تک مرتب ہوتے ہیں اس لئے کہ ملک کے اندر نقل مکانی کرنے والے حضرات نئی جگہ بھی بھرپور طریقے پر اپن سیاسی حقوق استعمال کرنا چاہتے ہیں اس سے مقامی آبادی کو اپنے معاملات میں مداخلت اور اس کے بعد محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور بات بعض وقت بہت بڑھ جاتی ہے۔ جیسے آسام کی اصل آبادی نے کئی برس پرتشدد مظاہرے کئے ان لوگوں کے خلاف جنہیں وہ کہتے تھے کہ باہر سے آئے ہوئے ہیں اور ہمارے سیاسی حقوق غصب کررہے ہیں۔ اس تحریک کے دوران سینکڑوں نہیں ہزاروں افراد ہلاک کردیئے گئے۔ سری لنکا میں یہی صورتحال سامنے آئی ہے وہاں بھی بھارت سے نقل مکانی کرکے جانے والوں نے مذہبی اور سیاسی اثر و نفوذ دکھانا شروع کیا تو اب صورت خانہ جنگی کی ہوگئی ہے۔

سندھ میں بھی دوسرے صوبوں سے نقل مکانی کے سبب یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ وہ چند دہائیوں میں اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے اور اس طرح وہ اپن سیاسی حقوق سے بھی ہاتھہ دھو بیٹھیں گے یہی سبب ہے کہ سندھ میں کبھی کبھار ناخوشگوار واقعات پیش آجاتے ہیں۔ آج کے دور میں لوگ اقتصادی حقوق پر سیاسی حقوق کو ترجیح دیتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر انہیں سیاسی حقوق حاصل نہیں تو پھر اقتصادی حقوق کی ضمانت بھی مل سکتی ہے لیکن اگر سیاسی حقوق چھن گئے تو پھر اقتصاد حقوق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس قسم کی صورت حال کا دنیا کے ہر مقام پر کم و بیش یکساں احساس ہوتا ہے اور اس کے اثرات بھی کم و بیش ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔

آبادی میں اضافہ

کسی جگہ کی آبادی میں اضافے کو نقل مکانی کے عمل سے الگ نہی کیا جاسکتا۔ نقل مکانی کا رخ جس شہر کی طرف ہوگا اس کی آبادی میں اضافہ ہی ہوگا کہ اگر نقل مکانی روزگار کے وسائل کی تلاش میں ہے تو پھر اس جگہ مشکلات میں اضافہ ہوگا اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ نہیں ہوسکے گا لیکن اگر کسی جگہ صنعت کار یا دولت مند حضرات نقل مکانی کرکے پہنچ رہے ہیں تو اس جگہ اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھہ روزگار کے وسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔ تعمیر و ترقی کے کام بڑھیں گے تنخواہوں میں اضافہ ہوگا اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا لیکن دیکھا گیا ہے کہ آج کل اندروں ملک نقل مکانی کا عمل ان بے روزگار نوجوانوں تک محدود ہوکر رہ گیا جو تلاش معاش میں سرگرداں ہیں۔ امیروں کا رخ اب پاکستان سے باہر یورپ اور امریکہ کی طرف ہے وہ حوالوں کے ذریعے اپنی رقم باہر بھیج کر وہاں صنعتیں قائم کررہے ہیں یا تجارتی دفتر کھول رہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment