حب الوطنی ولی خان اور امریکہ
روزنامہ جنگ جمعرات 13 اگست 1986ء
روزنامہ جنگ مورخہ 9 اگست کو ایک مضمون ولی خان کی دھمکیاں کے عنوان سے پڑھا۔ راقم کا مضمون تضادات کا مجموعہ تھا۔ لکھتے ہیں کہ خان عبدالولی خان کو ایک قومی لیڈر تسلیم کرلیا تھا لیکن اب افغانستان کے انقلاب کے بعد ولی خان نے دھمکیاں دینی شروع کردیں حالانکہ ولی خان نے کوئی دھمکی نہیں دی۔ لیکن ان کا گھر افغانستان سے پندرہ میل پر ہے جہاں آگ لگتی ہے دھواں وہاں سے اٹھتا ہے۔ بے چارے قمرالدین کراچی میں بیٹھہ کر کیا محسوس کرسکتے ہیں۔ خان ولی خان ایک قومی سیاست دان کے ساتھہ ساتھہ پشتون قوم کے ایک فرد بھی ہیں پشتونوں کی تباہی پر وہ کیسے خاموش رہ سکتے ہیں اور اس جہاد پر وہ کیسے خاموش رہ سکتے ہیں جس میں جہاد کانفرنسیں تو کراچی اور لاہور میں ہورہی ہیں، مال غنیمت کراچی اور لاہور میں تقسیم ہورہا ہے لیکن لڑنے کیلئے پشتونوں کو بھیجا جاتا ہے اگر یہ جہاد ہے تو پھر جہاد سب پر فرض ہے خواہ میاں طفیل ہوں، پروفیسر غفور ہوں یا قمر الدین خان ہوں۔ دوسری غلط بیانی قمرالدین صاحب بے نشتر پارک کے جلسے کے حوالے سے کی ہے کہ وہاں ولی خان نے یہ کہا کہ پاکستان کفر کا قلعہ ہے۔ ولی خان صاحب نے اصل میں یہ کہا تھا کہ اگر روس کی طرف سے پاکستان پر حملہ ہو تو پھر یہ اسلام کا قلعہ ہے لیکن امریکی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر خلیج کے تیل کا خطرہ ہوا تو پھر تیل کے چشموں پر قبضے کیلئے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کیا جائے گا۔ تو کیا پھر یہ کفر کا قلعہ ہوگا۔ قمرالدین خان آگے لکھتے ہیں کہ حب الوطنی کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن یہ پیمانہ کس کے ہاتھہ میں دیں؟ کیا یہ ہم قمرالدین صاحب کے ہاتھہ میں دیدیں جو یہ کہتے ہیں کہ امریکہ ہمارا حلیف ہے اور ہم دوستی کے تقاضے پورے کریں گے۔ دراصل بات یہ ہے کہ جب سے عوامی نیشنل پارٹی وجود میں آئی ہے تو امریکی مفادات کا تحفظ کرنے والے سرگرم عمل ہوگئے ہیں ان کو یہ ڈر لاحق ہوگیا ہے کہ وہ سامراج دشمن پارٹی پاکستان کو سامراج کے چنگل سے نجات دلائی گی جو قمرالدین صاحب اور ان کے قبیلے کے لوگوں کو منظور نہیں۔ اب ہم آتے ہیں حب الوطنی کے پیمانے کی طرف، امریکہ پاکستان کا دشمن ہے نہ حلیف یہ امریکہ ہی ہے جس نے 1965ء کی جنگ میں پاکستان کو ہوائی جہازوں کے ٹائر اور پرزے دینے پر پابندی لگادی اور 1971ء کی جنگ میں ساتواں بحری بیڑہ پاکستان آرہا تھا لیکن راستے میں نہ جانے کون سے بل میں گھس گیا۔
ہنری کسنجر خود یہ فرماتے ہیں کہ بنگلہ دیش بنانے میں ان کا ہاتھہ تھا۔ پاکستان کی منصوبہ بندی ہمیشہ ہاورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کرتے جیسے ڈاکٹر محبوب الحق وغیرہ۔ اور یہ ایسے منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ جو ملک کو سامراج نواز اقتصادی منصوبہ بندی کی طرف لے جاتے ہیں اور پاکستان رفتہ رفتہ ملکی قرضوں میں جکڑ گیا ہے اور 1948ء تک قرضوں کا بوجھہ 11 بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ آج کیفیت یہ ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا بچہ 1600 روپے کا مقروض ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ نئے قرضوں کی صرف سات فیصد رقم استعمال کیلئے بچ رہی ہے اور بقیہ 93 فیصد رقم گزشتہ قسطوں کی ادائیگی کی نذر ہوگئی ہے۔ یہ ہے امریکہ کی دوستی۔ قمر الدین صاحب کو افغانستان کے مسلمان نظر آتے ہیں لیکن وہ اس وقت کیوں چپ رہے جب صابرہ شتیلا کے کیمپوں میں ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا گیا تھا۔
صاف صاف کیوں نہیں لکھتے کہ امریکہ کا دوست تمہارا دوست امریکہ کا دشمن تمہارا دشمن ہے۔ اسرائیل تمہارا دوست اور لیبیا تمہارا دشمن ، جب میاں طفیل محمد اسرائیل کو حقیقت کہتے ہیں تو آپ کیوں چپ رہتے ہو۔ رہ گئی یہ بات کہ وہ ولی خان کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ امریکہ کے خلاف بولیں تو ہمیں آپ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ۔ ولی خان ہمارا محبوب قائد ہے صرف اس لئے کہ نہ وہ بکتا ہے نہ جھکتا ہے اب عوام اتنے باشعور ہیں کہ وہ اخباری بیانات یا اخباری مضامین سے گمراہ نہیں ہوتے وہ وطن دوست اور وطن دشمن کی پہچان رکھتے ہیں اور انشاء اللہ پاکستان کی سرزمین کو سامراجیوں سے پاک کرکے دم لیں گے۔
No comments:
Post a Comment