بھارت کو دعوتِ مداخلت کیوں؟
روزنامہ جنگ بدھ 26 اکتوبر 1986ء
بھارتی لوک دل کے رہنما ڈاکٹر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔سوامی نے پاکستان کے دورے اے واپسی پر نئی دہلی میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت کو پاکستان نے پیشکش کی ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس افسر جیلوں اور کیمپوں سمیت پاکستان کے کسی بھی مقام کا معائنہ کرکے یہ دیکھہ سکتے ہیں کہ پاکستان سکھہ دہشت گردوں ( فی الحقیقت حریت پسندوں) کو تربیت دے رہا ہے یا نہیں لیکن موصوف نے یہ بھی بتایا ہے کہ بھارت نے ابھی تک اس تجویز کو کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اس پیشکش کی تردید تا حال جاری نہیں کی گئی ہے لیکن ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں مبینہ پیشکش کے تناظر میں کئی سوالات اور خدشات کا جنم لینا ایک فطری بات ہے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی جانب سے اس قسم کی پیشکش انتہائی قابل اعتراض اور تشویشناک رجحان کی عکاس ہے۔ اگر فی الحقیقت ایسی کوئی تجویز بھارت کو پیش کی گئی ہے تو یہ انتہائی توہین کا باعث ہے۔ اس خبر کا بھارت کے ایک ایسے سیاسی لیڈر کے ذریعہ سے معلوم ہونا جس کا بھارتی حکمراں پارٹی سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے معاملہ کو مزید ذلت آمیز بنادیتا ہے۔
وزارت خارجہ کے افسران اور منتخب جمہوری حکومت کے ارباب بست و کشاد کا یہ اولین فرض تجا کہ وہ براہ راست قوم کو اپنی اس تجویز سے باخبر کرتے اور یہ کام پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان کو صورتحال سے آگاہ کرکے بھی کیا جاسکتا تھا لیکن افسوس ناک بات ہے کہ حکومت نے قوم کو اتنی اہم پیشکش کے سلسلہ میں اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا۔ بہرحال اس پیشکش کے مضمرات پر غور کرنا دوسرے فروعی معاملات سے زیادہ اہم ہے۔
اس پیشکش کی خبر پڑھنے کے بعد ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں جو سب سے پہلا سوال ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ خود حکومت پاکستان نے بھارت کو اپنے معاملات میں مداخلت کی دعوت کیوں دی ہے؟ اگر بھارتی قیادت کچھہ بھی سیاسی سوجھہ بوجھہ رکھتی ہے تو اسے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اس تجویز کو منظور کرلینا چاہئے لیکن پنڈت نہرو جیسے منجھے ہوئے سیاست داں تک کو ایوب خان کی طرف سے مشترکہ دفاع جیسی تجویز کرکے کف افسوس ملنا پڑا تھا۔ یہی صورت اس پیشکش کو قبول نہ کرکے بھارت کو درپیش ہوگی ورنہ تو بھارت کے ساتھہ دوستی کی خواہش سے مغلوب ہوکر پاکستان جال میں پھنس چکا ہے۔ لیکن کس طرح؟
بھارت خوب جانتا ہے کہ مشرقی پنجاب میں آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے سکھوں کو پاکستان کی طرف سے کسی کی کوئی اعانت اور حمایت حاصل نہیں ہے لیکن محض الزام تراشیوں کی غرض سے بھارتی قیادت نے یہ عادت اپنالی ہے کہ بھارت میں جو بھی مصیبت آئے اس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا جائے ورنہ تو خود بھارت دنیا میں مداخلت کاروں کا سب سے بڑا قائد ہے۔ سری لنکا، بنگلہ دیش اور چین کے علاوہ پاکستان بارہا بھارتی مداخلت کا شکار ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں تو مخصوص سیاست دانوں کی گرفتاری پر بھی بھارت بڑی بے حیائی کے ساتھہ مداخلت پر اتر آتا ہے۔ مسلح بغاوت کی سازش سے لے کر تخریب کاروں کی کھلم کھلا مدد تک سے باز نہیں آتا۔ سندھ میں بھارت کی خصوصی نگاہیں لگی ہوئی ہیں اور یہاں ڈاکوؤں اور تخریب کاروں کے بھیس میں ایک خاص سیاسی جماعت کیلئے دوسرے محاذ پر کام کررہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان ڈاکوؤں کا "غیرت مند" اور ہلاک ہونے والوں کو "شہید" کا لقب دیا جاتا ہے اور یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ ان تخریب کاروں میں بھارت کے تربیت یافتہ ریٹائر فوجی تک شامل ہیں اس لحاظ سے اس "غیرت" اور "شہادت" کے ڈانڈے آپ جہاں تک آگے بڑھاسکتے ہیں بڑھالیجئے تو حقیقت تو حقیقت حال خود ہی سامنے آجائے گی۔
پاکستان کے خلاف بھارت کے دل میں کس قدر بغض و عناد ہے اس کا اظہار شروع دن سے ہوتا رہا ہے لیکن کبھی الزام تراشی کا بھارتی شوق بڑا ہی مضحکہ خیز رخ اختیار کرلیتا ہے اور وہ اس طرح کہ جب مداخلت کے الزامات کے مواقع ختم ہوجاتے ہیں تو مسلم کش فسادات کی ذمہ داری تک پاکستان پر ڈال دی جاتی ہے لیکن پاکستان کی ہر حکومت نے بھارت کے ہر قسم کے الزامات کے جواب میں خاموشی اختیار کرنے یا معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کے سلسلہ میں یکساں مستقل مزاجی کا ثبوت دیا ہے۔ تخریب کاروں کی تربیت کا کھوج لگانے کیلئے بھارتی خفیہ اداروں کے حکام کو پاکستان آنے اور جس جگہ کا وہ چاہیں خفیہ معائنہ کرنے کی پیشکش بھی ہماری اسی معذرت خواہانہ روش کا ایک ثبوت ہے۔
لیکن آج تو بھارت کو تخریب کاروں کے اڈوں کے بارے میں تحقیقات اور اس کا کھوج لگانے کی دعوت دی گئی ہے اب تو بھارتی صدر نے اپنی قوم کو یہ مژدہ سنادیا ہے کہ اس پر حملہ کرنے کا منصوبہ بھی بنالیا گیا ہے اس لئے فوج کو انہوں نے چوکس رہنے کا مشورہ دیا ہے ۔ کیا اب پاکستان بھارت کی وزارت دفاع کو دعوت دے گا کہ اس کے افسر آئیں اور ہماری وزارت دفاع کی دستاویزات کا مطالعہ کرکے اطمینان کریں کہ ہم نے بھارت کے خلاف کسی قسم کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم کہیں کہ آؤ ہماری فوج کے ٹھکانوں کا جائزہ لے کر دیکھہ لو ہم بھارت پر حملہ کرنے کا کوئی پروگرام نہیں رکھتے ۔
پاکستان اس سے قبل بھی اپنے ایٹمی تنصیبات کے معائنہ کی پیشکش بھارت کو کر چکا ہے لیکن اس کے جواب میں پاکستان کو کیا ملا؟ مزید الزامات کا تحفہ یہی نہیں ہم تو بھارت سے یہ بھی درخواست کرچکے ہیں کہ اس کے فوجی ماہرین آکر ہمیں بتادیں کہ ہم کتنے فوجی اور کتنا اسلحہ رکھہ سکتے ہیں لیکن دوسری طرف بھارت کا رویہ اس قدر معاندانہ ہے کہ سندھ میں کسی قسم کی سیاسی تحریک یا تخریب کاری کے واقعات رونما ہوجاتے ہیں یا کسی خاص سیاست داں پر پابندی لگادی جاتی ہے تو بھارت کے چھوٹے افسروں تک کے دورے منسوخ کردیئے جاتے ہیں ۔ اگر پاکستان میں گردواروں کی یاترا کے لئے آنے والے سکھوں اور بھارتی خفیہ اداروں کے ایجنٹوں میں تو تکار ہوجاتی ہے تو بھارتی حکومت آسمان سر پر اٹھا لیتی اور طرح طرح کی موشگافیاں چھوڑتی رہتی ہے اگر بھارت کا کوئی سفارت کار اغواء ہوجاتا ہے تو پاکستان ذمہ دار قرار پاتا ہے بھارتی سفارت کار کے گھریلو ملازم کو پاکستان میں مقیم بھارتی افسر جعلی کاغذات کے ذریعہ خفیہ طریقہ سے پاکستان سے بھارت بھگادیتے ہیں تب بھی بھارتی طرح طرح کے الزامات پاکستان کے سر پر منڈھنے کی کوشش کرتی ہے۔ بھارت کے اغواء شدہ طیارے کے مسافروں کو صحیح سلامت آزاد کروالینے پر تو بھارت کی آنجہانی وزیر اعظم کو پاکستان کی تعریف میں ایک لفظ ادا کرنے کی توفیق نہیں ہوئی لیکن چند افراد کی ہلاکت پر اس قدر شور مچایا جاتا ہے گویا بھارت میں تو ہر شخص کی جان و مال بالکل محفوظ ہے۔ جو ملک اپنی وزیر اعظم کی جان کی حفاظت نہی کرسکتا اسے دہشت گردوں کے ہاتھوں افسوسناک واقعہ کے سلسلہ میں پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے شرم آنی چاہئے لیکن افسوس کہ بھارت میں ایسی غیرت مند حکومت قائم نہیں ہے۔
بہرحال بھارت کے رویہ سے قطع نظر پاکستان کی طرف سے اس قسم کی تجاویز پر اگر عملدرآمد بھی شروع ہوجائے اور بھارت ایک مرتبہ معائنہ ٹیم بھیجنے میں کامیاب ہوگیا تو پھر ایک ہی تصور ابھرے گا اور وہ ہوگا "پاک بھارت کنفیڈریشن" کا تصور جسے کوئی بھی غیرت مند پاکستانی کسی بھی صورت میں تسلیم نہیں کرے گا۔ ہر پاکستانی کی یہ دلی تمنا ہے کہ بھارت کے ساتھہ ہمارے تمام تنازعات پر امن طور پر جلد حل ہوجائیں تاکہ دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان پائیدار اور دیرپا دوستی قائم ہوسکے۔ پاکستان کے عوام اور یہاں کی حکومت ہر ملک کے ساتھہ عموماً اور بھارت کے ساتھہ خصوصاً پر امن بقائے باہمی کے اصول پر قریبی دوستانہ تعلقات کے قیام کے خواہاں ہیں خود ڈاکٹر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ نے نئی دہلی ہی میں یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان کے عوام بھارت کے ساتھہ اچھے تعلقات کے دل سے خواہشمند ہیں۔ ہم نے امن اور دوستی کی خاطر کشمیر میں جنگ بندی، جوناگڑھ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے پاکستانی علاقوں کا بالجبر بھارت میں انضمام 1965ء میں پاکستان کے خلاف بھارت کی ننگی جارحیت پھر 1971ء میں پاکستان کو توڑنے کیلئے براہ راست حملہ اور سیاچن گلیشیئر پر فوجی قبضہ جیسے سنگین واقعات کے باوجود بھی بھارت کی طرف ہمیشہ دوستی کا ہاتھہ بڑھایا ہے اور یہ بات امن پرہمارے پختہ یقین کا ثبوت ہے لیکن دوسری طرف جارح اور مداخلت کار ملک ہونے کی باوجود دوستی کا جواب بھارت کی طرف سے الزام تراشیوں، جھوٹے پروپیگنڈے اور دھمکیوں کی شکل میں دینے سے یہ بات کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہوجاتی ہے کہ بھارت علاقہ کے امن وامان کا کٹر دشمن ہے اور وہ انسانی خون کی ہولی کھلینے کے درپے ہے۔ اسلئے حکومت پاکستان کو بھارت سے دوستی کیلئے خوب سوچ سمجھہ کر قدم اٹھانے چاہیں اور کسی بھی پیشکش سے پہلے عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لینا چاہئے ورنہ ڈر ہے کہ ملک خدانخواستہ کہیں کسی فرد کی حکومت رہے گی پاکستان کے ساتھہ ان کی طرف سے دوستی کیلئے کسی بھی کاروائی کی توقع عبث ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ بھارت کے ساتھہ کسی بھی کمزوری کا اظہار کرکے قوم کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں اسی میں پاکستان کی بھلائی ہے بلکہ علاقہ کے امن کا دارومدار بھی اسی حقیقت میں مضمر ہے کہ باعزت دوستی کا راستہ اختیار کیا جائے ورنہ بھارت پورے علاقہ کو ہڑپ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔
No comments:
Post a Comment