نوجوانوں کے لئے لمحہ فکریہ

روزنامہ جسارت ہفتہ 8 اگست 1987 ء

نوجوان ہمارا سب سے قیمتی اور عظیم سرمایہ ہیں ہمارا روشن اور شاندار مستقبل اور عزت و وقارکلیتاً انہی سے وابستہ ہے نوجوانوں کا کردار جس قدر بلند ، ان کی عقل و شعور جس قدر پختہ، ان کی نظر جس قدر وسیع اور ان کا دل جس قدر کشادہ اور محبت کرنے والا ہوگا۔ قوم کا مستقبل اسی قدر شاندار اور تابناک ہوگا۔ انہیں اپنے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ اپنی شاندار روایات اور اپنے وطن کی ہر شے سے بے لوث اور بے پناہ محبت ہوتی ہے۔ وہ تنگ نظر اور متعصب نہیں ہوتے ۔ وہ بہادر اور بے باک ہوتے ہیں۔ وہ ظالم کے ہاتھہ توڑنے اور مظلوم کے لئے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ وہ ہمہ وقت چوکس اور ہوشیار رہتے ہیں۔ کہ یہی زندہ ، آزاد ور خود دار قوم کے نوجوانوں کی روایت رہی ہے ہمارے نوجوانوں نے بھی ہمیشہ تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ آزادی کی تحریک ہو یا وطن کے ناموس کے تحفظ کے مرحلے، قدرتی آفات سے مقابلے کے مواقع ہوں یا انسان نما شیطان کے ہاتھوں آئی ہوئی مصیبت میں، سماجی خدمات اور قربانیوں کی ضرورت، ہمارے نوجوانوں نے کسی بھی مرحلے پر قوم کو مایوس نہیں کیا اور قوم خوش قسمت ہے کہ اس کے نواجوان ستاروں پر کنڈ ڈالنے کی صلاحیت اور طوفان کا مقابلہ کرنے کا پورا پورا حوصلہ رکھتے ہیں۔

لیکن چند سالوں سے یہ کیا کہ نوجوانوں کے نام سے سندھ اور خاص طور پر کراچی کے امن امان کو تہہ و بالا کرکے رکھہ دیا ہے۔ یہاں جان و مال محفوظ ہے نہ عزت و آبرو، اب اس شہر میں جو محبت و اخوت کا گہوارہ تھا نفرت، تعصب اور انجانے خوف کا تعفن پھیل رہا ہے اب یہاں مرد کی پگڑی عورت کا سہاگ اور بہن کی چادر غیر محفوظ ہوکر رہ گئی ہے۔ اب یہاں کوئی نہیں جانتا کہ ماں کی گود کب اجڑ جائے گی۔ اور بچے کی سر سے باپ کا سایہ کب چھین لیا جائے گا۔ گلے میں جھولی ڈال کر چیزیں بیچنے والا غریب اور کروڑوں کا کاروبار کرنے والا تاجر سب ہی اپنے مستقبل سے مایوس ہیں۔ کون نہیں چاہتا کہ اس کی ماں اور بہن بلاخوف خطر باہر جائیں۔ کس کی یہ خواہش نہیں کہ اس کا باپ یا بھائی بسوں کی آمدورفت میں تعطل ، پتھراؤ، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور گولی کے خطرے سے محفوظ اپنے کام پر جائے۔ لیکن افسوس کہ آج بالخصوص کراچی ہر لحاظ سے غیر محفوظ شہر بن کر رہ گیا ہے۔ لوگوں کو دوسروں پر اعتماد رہا ہے نہ خود پر ہی بھروسی کرسکتے ہیں۔ اس سے بڑا اور کیا عذاب ہوگا۔ جس میں یہ شہر اور اس کا ہر شہری آج مبتلا ہے۔

کیا کبھی نوجوانوں نے یہ سوچا کہ اس ملک کے ہر چیزمیں چاہے وہ پن جتنی حقیر چیز ہی کیوں نہ ہو قوم کے ہر فرد کا حصہ شامل ہے۔ سڑکوں کو زندگی مہیا کرنے والا رکشا، ٹیکسیاں اور بس سب سو فیصد ہم سب کی ملکیت ہیں۔ یہاں کے بینک، ڈاکخانے ، چھوٹی بڑی دکانیں ہماری اپنی ہیں۔ یہ کسی پٹھان، پنجابی، سندھی، بلوچ یا مہاجر کی نہیں۔ یہ کسی صدر ، وزیر اعظم ، گورنر ، وزیر اعلٰی کی نہیں۔ یہ سب قوم کے نوجوانوں کا اپنا مستقبل ہے یہ ان کےملک کی خوشحالی اور استحکام کی ضمانت ہیں۔ اس لئے نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ اٹھیں آگے بڑھیں اور ان ہاتھوں کو روک دیں جو ان کے اپنے مستقبل کو تباہ کرنے کے درپے ہیں توڑ پھوڑ کرنے والے اور شہر کے امن کو درہم برہم کرنے والے کچھہ بھی نعرے لگائیں وہ دوست کسی کے بھی نہیں۔ انہیں کسی سے کوئی ہمدردی نہیں۔ وہ نوجوان کے مستقبل کے کھلے اور چھپے دشمن ہیں۔ انہوں نے عیاری سے ہمارے چند نوجوانوں کا اپنا آلۂ کار اس طرں بنالیا ہے کہ ہمارے ہاتھہ خود ہمارے اپنے ہی گریباں کو چاک کئے دے رہے ہیں۔ ہم اپنے ہاتھہ میں خنجر لے کر خود اپنے ہی گلے کاٹ رہے ہیں۔ ہم خود اپنے ہی گھر اپنی ہی جائیداد کو آگ لگا رہے ہیں۔ ہم اپنی بہن کا سہاگ اور اپنی ماں کی گود کو اجاڑ رہے ہیں اور اپنے بھائی کو یتیمی کا تحفہ دے رہے ہیں۔ یہ صریح خودکشی ہے یہ تو بزدلی اور کم ظرفی ہے۔ یہ تو ہماری انتہائی نادانی ہے۔ ہمارے اسلاف تو ایسے نہیں تھے۔ ویسے ہم بھی ایسے نہیں ہیں یہ تو سب ہمارے دشمنوں کا کام ہے۔ لیکن زندہ و بیدار قوم کے چوکس اور مستعد نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ ان کو پہچانیں اور ان کو اپنی صفوں سے نکال باہر کریں۔ اس لئے کہ ہماری نجات اور ہمارے نوجوانوں کے مستقبل کا انحصار اسی پر ہے ہمارے نوجوانوں کی شکایتیں اپنی جگہ قطعی جائز ہیں کہ انہیں روزگار نہیں ملتا ، اس کے ساتھہ انصاف نہیں کیا جاتا۔ وہ ناانصافی اور ظلم و زیادتی کے شکار بنائے جارہے ہیں ۔ لیکن اہنے حقوق کے حصول کے لئے یہ لڑائی کس انداز سے لڑی جارہی ہے کہ ہمارے ولاقے میں جو ذرائع موجود ہیں ہم انہیں بھی ختم کئے دے رہے ہیں کیا کوئی غیر ملکی سرمایہ دار ایسے علاقے میں صنعت لگائے گا؟ ہر گز نہیں بلکہ کراچی میں آئے دن کی ہڑتال اور سندھ میں اغوا کی وارداتوں کی بنا پر یہاں قائم صنعتی و تجارتی اداروں کی انتظامیہ کے ذمہ دار اپنے اداروں کو یہاں سے منتقل کرنے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں اور یہ بات غیر منطقی بھی نہیں اگر موجودہ صورتحال مزید کچھہ عرصہ برقرار رہی تو کراچی اور سندھ کے باشندے کارخانوں کی چمنیوں سے اٹھنے والے دھویں سے محروم ہوجائیں گے۔ دراصل یہی دھواں جس کی بنا پر تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ ، ہنر مند اور غیر ہنر مند ہر قسم کے لاکھوں افراد کے گھروں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی رونق قائم ہے۔ اگر یہ چمنیاں بے جان ہوگئی تو یہ لاکھوں چولہے بھی اجڑ جائیں گے۔

کراچی کے ہنگامے یہاں کے نوجوانوں کو جہالت کے غار میں بھی دھکیل رہے ہیں ، تاکہ ان کے مستقبل کو تاریک بنایا جاسکے۔ سال کے بیشتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باہر جانے سے مجبور ہوتے ہیں تو وہ اپنے معصوم بچوں کے ساتھہ بھوکے اور پیاسے گھروں میں بند رہتے ہیں مریض علاج معالجے کی سہولت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ آخر یہ چند لوگوں کو ایسی جرأت کیسے ہوتی ہے کہ وہ پورے شہر کے امن و امان کو ختم کردیں؟ اس لئے کہ امن پسند نوجوان خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ اگر نوجوان اتفاق و اتحاد اور نظم و ضبط کی طاقت اور محبت و اخوت کے ہتھیار کے ساتھ میدان میں آجائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ شیطانی قوتیں راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور نہ ہوجائیں۔ صرف اسی طرح ہم کراچی کی عروسی کو بحال کرسکتے ہیں اور امن و امان کی نعمت دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment