یادِ رفتگاں ، مولانا محمد علی جوہر
روزنامہ جسارت جمعرات 4 جنوری 1990 ء
مولانا محمد علی جوہر کا نام زبان پر آتے ہی تدبر، حکمت عملی، دانش، شجاعت اور جرأت و بےباکی کے ایک ایسے پیکر کا تصور نظروں کے سامنے ابھرتا ہے جس نے مختصر لیکن بھرپور اور کامیاب زندگی اور برصغیر کے کروڑوں انسانوں کو آزادی کی لذت سے آشنا کرگئے۔ آزادی کی جس عظیم نعمت سے آج ہم متمع ہورہے ہیں وہ ایسی ہی بے لوث اور بہادر ہستیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
مولانا محمد علی جوہر نے بہتر ملازمت ک ترک اور بہترین ملازمت کی پیش کش کو ٹھکرا کے 11 جنوری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کو کلکتہ سے ایک انگریزی اخبار کامریڈ کا اجراء کیا تاکہ مسلمانوں کی آواز برطانوی حکمرانوں تک پہنچائی جاسکے۔ مولانا مصلحت کوشی سے کوسوں دور تھے وہ ہر وہ بات لکھتے تھے جسے حق سمجھتے تھے ان کے اداریوں اور مضامین نے حکومت کے ایوانوں میں لرزا پیدا کردیا۔ حکومت نے اخبار کی ضمانت ضبط کرلی لیکن اس قسم کے حربے ان کی راہ رکاوٹ نہ بن سکتے تھے۔ 1912ء میں وہ " کامریڈ" کو دہلی لے آئے جہاں سے اردو اخبار " ہمدرد" بھی جاری کیا اس میں ایک مضمون کی اشاعت پر مولانا کو پانچ سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔
1912ء میں اٹلی نے طرابلس پر اور پھر بلقان کی ریاستوں کے اتحاد نے ترکی پر حملہ کردیا۔ اس حملہ کی خبریں کامریڈ ، ہمدرد، الہلال اور زمیندار کے ذریعہ ہندوستان کے مسلمانوں تک پہنچ رہی تھیں ترکی اس وقت خلافت کا مرکز تھا۔ اس پر حملہ پوتی ملت اسلامیہ پر حملہ تصور کیا گیا۔
اس صورت حال کے مقابلے کے لئے بمبئی میں آل انڈیا خلافت کمیٹی قائم کردی۔ مسلمانوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ مختصر مدت میں پورے ملک میں اس کی شاخیں قائم ہوگئیں۔ مولانا محمد علی جوہر اس وقت جیل میں تھے لیکن جیسے ہی انہیں رہائی ملی وہ پھر سرگرم عمل ہوگئے اور جنوری 1920ء میں خلافت تحریک کے ایک وفد کے قائد کی حیثیت سے انگلستان اور فرانس تشریف لے گئے۔ وہاں صحافیوں، سرکاری اہلکاروں، پارلیمنٹ کے اراکین اور وزیر اعظم سے ملاقاتیں کرکے معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ انہوں نے 23 مارچ 1920ء کو لندن میں اعلان کیا کہ جرمنی اور آسٹریا کی طرح ترکی کے ٹکڑے ٹکڑے نہیں کئے جاسکتے اس لئے کہ جونہی تم خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کرو گے تمہارے خلاف ساڑھے سات کروڑ افراد کے جذبات بھڑک اٹھیں گے۔ بطانوی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور رعونت کی بنا پر وفد بہرحال ناکام واپس لوٹا۔ لیکن مولانا محمد علی نے واپس آتے ہی پورے برصغیر میں اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعہ لوگوں میں ایسا جوش و خروش اور ولولہ پیدا کیا کہ بچہ بچہ کی زبان پر ایک ہی نعرہ گونجنے لگا اور وہ نعرہ تھا۔
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پر دے دو
کراچی میں 9،8 اور 10 جولائی 1921ء کو آل انڈیا خلافت کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں مولانا محمد علی جوہر نے ایک قرار داد پیش کی جس کا مقصد مسلمانوں کو یہ بتانا تھا کہ برطانوی فوج میں ملازمت کرنا یا رنگروٹ کرنا اس کے لئے حرام ہے۔ اجلاس میں یہ بات بھی واضح کردی گئی تھی کہ اگر حکومت برطانیہ نے انگورہ سے جنگ کی تو مسلمانان ہند نا متابعت کریں گے اور پھر ان کے لئے کامل آزادی کے لئے جدوجہد شروع کردینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
یہ قرار داد کیا منظور ہوئی کہ پورے ہندوستان میں اس کے ترجمے جگہ جگہ شائع ہوکر تقسیم ہونے لگے اور مفتی اور علماء اس کی تشہیر میں لگ گئے اور برطانوی حکومت لرزہ براندام ہوگئی تو ستمبر 1921ء میں حکومت نے مولانا محمد علی جوہر اور ان کے دوسرے چھہ ساتھیوں یرنی مولانا شوکت علی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا نثار احمد، مولوی حسین احمد، شنکر اچاریہ کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا اور کراچی سینٹرل جیل میں قید کردیا۔ جیوری کے سامنے مولانا کا خطاب:
کراچی کے خالق دینا ہال میں ان " باغیوں " پر مقدمہ چلایا گیا۔ مولانا جوہر نے جیوری کے سامنے دو روز تک جو بیان دیا اسے آج بھی تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ آپ کا خطاب ایسا جراتمندانہ اور مدلل ثابت ہوا کہ جیوری کے اراکین متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور تمام ملزموں کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات سے بری کردیا لیکن دوسرے الزامات کے تحت دو دو سال قید کی سزا دیدی البتہ جگت گرو شنکر اچاریہ کو رہا کردیا گیا جیوری کے سامنے دیئے گئے مولانا کا بیان کا مطالعہ کرنے پر وہ معرکۃ الآرابیان یاد آجاتا ہے جو سینکڑوں برس پہلے یونان کے شہر ایلتھنز میں سقراط نے جیوری کے سامنے دیا تھا۔ مولانا محمد علی نے وضاحت کے ساتھہ اسلام کی تعریف تشریح کرنے کے بعد جیوری کو بتایا کہ کراچی کانفرنس میں کوئی ایسی قرار داد پیش نہیں کی گئی جس کا مقصد برطانوی فوج میں مسلمانوں کی بھرتی کو حرام قرار دینا ہو بلکہ وہ تو اللہ کا حکم تھا جسے وہاں دہرایا گیا تھا۔
مولانا محمد علی جوہر شروع میں ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی اور گاندھی جی کے بڑے مدّاح تھے خود گاندھی جی نے بھی خلافت تحریک کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی تھی لیکن کچھہ باتیں ایسی پیش آئیں کہ مولانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔مسلم اتحاد سے اعتماد اٹھہ گیا اور وہ بجھہ گئے کہ بشمول گاندھی تمام ہندوؤں کی یہ کوشش ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ دبا کر رکھا جائے اور بالآخر انہیں غلام بنالیا جائے۔
دوسری بات جس سے مولانا ہندو ذہنیت کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے۔ کل جماعتی کانفرنس کی ہدایت پر پنڈت موتی لال نہرو کی سرکردگی میں تیار کردہ رپورٹ تھی جو نہرو رپورٹ کے نام سے معروف ہے۔ رپورٹ میں مسلمانوں کے کسی بھی مطالبہ کو شامل نہیں کیا گیا۔ مولانا آزادی کامل کا اعلان چاہتے تھے۔ جبکہ رپورٹ میں ہندوستان کے لئے درجہ مستعمرات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ہی منزل مقصود قرار پایا اور پھر مسلمانوں کے لئے نشستوں کے تعین کے بغیر ہی مخلوط انتخابات کی تجویز رپورٹ میں شامل تھی اور صوبوں کو بے اختیار کرکے تمام اختیارات کو مرکز میں مرتکز کرکے اگر کہیں مسلمان اکثریت میں بھی تھے ان کی اس اکثریت کو اس طرح بے اثر کردینے کی کوشش کی گئی تھی ۔ مسلمانوں کے مطالبہ کے باوجود رپورٹ میں صوبۂ سرحد اور بلوچستان کے لئے اصطلاحات کے لئے کوئی تجویز شامل نہ تھی اور نہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کا سوال اس میں شامل تھا۔ یہ دراصل نہرو رپورٹ نہیں ہندو رپورٹ تھی۔
مولانا محمد علی اپنی بیماری کے باوجود کل جماعتی کانفرنس میں شریک ہوئے اور اعلان کیا کہ جو لوگ آزادی کامل کے مخالف اور درجہ مستعمرات کے حامی ہیں وہ ملک کے بہادر فرزند نہیں بلکہ بزدل ہیں۔ " نہرو رپورٹ ایسا دوراہا ثابت ہوئی جہاں سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے راستے واضح طور پر الگ الگ ہوگئے۔
بطانوی حکومت نے مسائل پر گفتگو کیلئے گول میز کانفرنس طلب کی جس کے اجلاس نومبر 1930ء میں شروع ہوگئے۔ مولانا محمد علی جوہر نے ڈاکٹروں کے مشورے کے برخلاف بحیثیت مندوب اس کا کانفرنس میں شرکت کی۔ کمزوری اس قدر تھی کہ بیٹھ کر تقریر کرنی پڑتی لیکن جو کچھہ انہوں نے یہاں کہ وہ آج بھی تاریخی اہمیت کا عامل یے ویسے تو مولانا کی پوری تقریر بہت اہم تھی لیکن وہ باتیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ایک تو ان کا یہ بیان کہ " ہم گاندھی جی کا ساتھہ دینے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کی تحریک ہندوستان کی مکمل آزادی کی تحریک نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد سات کروڑ مسلمان کو ہندو مہا سبھا کا تابع بنانا ہے۔" دوسرا ان کا یہ اعلان کہ " وہ انگلستان سے ہندوستان کی آزادی لے کر واپس لوٹیں گے۔ کیونکہ وہ غلام ملک میں واپس جانا نہیں چاہتے۔ اگر حکومت آزادی نہیں دے گی تو اسے ان کی قبر کے لئے جگہ دینی پڑے۔" مولانا سچے اور کھرے تھے انہوں نے جو کچھہ کہا وہی کر دکھایا۔ برطانیہ نے ہندوستان کو آزادی تو نہ دی لیکن مولانا نے اس اعلان کے چند دن بعد ہی 4 جنوری 1931ء کو اپنی جان اللہ کے سپرد کردی اور ہر قسم کی غلامی اور بندھن سے آزاد ہوگئے۔ مولانا کے جسد خاکی کو بیت المقدس میں جگہ ملی جہاں ہزاروں انبیاء محو استراحت ہیں۔
مولانا محمد علی جوہر ایک شخصیت ہے نہیں ایک تحریک کا نام ہے۔ اسی تحریک کا جس کے مظاہر کبھی فلسطین کی سرزمین پر نظر آتے ہیں اور کبھی الجزائر میں نمودار ہوتے ہیں، کبھی وادیٔ کشمیر میں اور کبھی افغانستان میں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment