بھارت کے مسلم کش فسادات ہمیں کیا سکھاتے ہیں؟

روزنامہ جنگ ہفتہ 20 جون 1987ء

بھارت کی برسراقتدار قیادت کو ہمیشہ یہ دعویٰ رہا ہے کہ اس کا ملک جمہوریت ، سیکولرزم اور غیر وابستگی کا علمبردار ہے لیکن حقیقت بیں نگاہ سے دیکھا جائے تو بھارت کے ان تمام دعوؤں کو صرف ایک لفظ "فراڈ" سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جمہوریت نوازی کی تازہ مثال تو مشرقی پنجاب کی برنالہ حکومت کی معزولی اور صدر راج کا نفاذ ہے۔ سیکولرزم کی دھجیاں چالیس برسوں سے ایک تسلسل کے ساتھہ مسلم کش فسادات اور مساجد کی بے حرمتی کرکے بکھیری جاتی رہی ہے۔ جہاں تک غیر وابستگی کے ڈھونگ کا تعلق ہے تو اس کی قلعی تو اس حقیقت سے کھل جاتی ہے کہ بھارت اپنے مائی باپ روس کی گود میں بیٹھا انگوٹھا چوس رہا ہے اور اسی کے بل پر کبھی پاکستان کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ کبھی سری لنکا کو ملک کے باغیوں کے ساتھہ فوجی کاروائی نہ کرنے کا مشورہ دے کر کھلم کھلا اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کا ارتکاب کرتا ہے، کبھی بنگلہ دیش کی سرحدوں پر فوجیں جمع کرتا ہے، کبھی نیپال کو ہدایتیں دیتا ہے اور کبھی چین کو للکارتا ہے اور اب تو یہ روس کے اتنا منہ چڑھ گیا ہے کہ اس کی دیکھا دیکھی بھارت، امریکہ کوبھی دھمکیاں دینے لگا ہے۔ بہرحال آج کا موضوع گفتگو بھارت کی "قابل فخر" سیکولرزم کا "عظیم کارنامہ" مسلم کش فسادات ہے۔

ماہ مئی 1987ء کے دوسرے پندرہواڑے میں سیکولرزم کی دیوی نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنی شروع کردی ہے جس کی زد میں یوپی ہی نہیں بلکہ گجرات بھی آچکا ہے۔ مسلمانوں کو کرفیو کے دوران امن قائم کرنے والے اداروں کی نگرانی میں نہ صرف زندہ جلایا، ان کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور ان کی لاشوں کو نہروں میں بہایا جارہا ہے بلکہ فوج کو بھی اس کارِ شیطان میں شریک کرلیا گیا ہے۔ ادھر سینکڑوں مسلمانوں کی شہادت اور ان کی جائداد کی تباہی کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سب سے زیادہ بااختیار وزیر اعظم کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی جبکہ پنجاب میں حریت پسند سکھوں کے ہاتھوں ایک ہندو کی ہلاکت پر بھی وہ بے چین ہو جاتے ہیں اور اس "ہتیا" کو بہانا بنا کر سکھوں کے مقدس مقامات پر چڑھ دوڑنے سے بھی نہیں چوکتے لیکن اپنی ڈھائی سالہ بادشاہت کے دور میں 500 مسلم کش فسادات کے باوجود وہ اپنے مائی باپ اور نانا نانی کو بھول کر دوسروں کے نانا اور نانی کو یاد کرتے پھر رہے ہیں جبکہ حالیہ مسلم کش فسادات کی ہولناکی کی شہادت تو ذرائع ابلاغ کے غیر جانبدار عالمی ادارے بھی دے رہے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اس خونریزی سے بھارت اور وہاں کی حکومت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اسلئے کہ اس کے چہرے پر پہلے ہی سے کالک کی کئی تہیں جمی ہوئی ہیں البتہ خون مسلم کی اس ارزانی کی روشنی میں ان پہلوؤں پر غور کرنا چاہئے جن کا براہ راست ہم سے تعلق ہے۔ اس سلسلے میں غور طلب نکات تو (1) حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کی بے حسی (2) عالم اسلام کی خاموشی اور (3) انسانی حقوق کے نام پر قائم عالمی اداروں اور تنظیموں کی چشم پوشی ہیں لیکن چونکہ آخرالذکر اپنی فطرت میں نصرانی یا یہودی تنظیمیں ہیں اسلئے ان کے رول پر بحث کرنے بجائے پہلے دو نکتوں ہی پر بات کرنی مناسب ہے۔

حکومت پاکستان اور عوام کی بے حسی:

مملکت خداداد پاکستان کا قیام برصغیر کےتمام مسلمانوں کی کوششوں کے نتیجہ میں عمل میں آیا تھا اسلئے 1947ء کے پاکستان پر اور آج کے پاکستان اور بنگلہ دیش پر غیر منقسم ہندوستان کے تمام مسلمانوں کا یکساں اور قانونی حق بنتا ہے۔ اسی بناء پر ابتدائی برسوں میں جب کبھی اور کسی جگہ بھی مسلم کش فسادات ہوئے حکومت پاکستان کی طرف سے باقاعدہ اور سخت احتجاج کیا جاتا تھا۔ بلکہ حکومت پاکستان کے نمائندے فساد زدہ علاقوں کے دورے تک کیا کرتے تھے۔ مسلمانوں کی جان، مال اور عزت و آبرہ کے تحفظ کا یہی جذبہ تھا کہ قائد ملت خان لیاقت علی خان صرف مسلم کش فسادات کی روک تھام کا مقصد حاصل کرنے کی خاطر بھارت تشریف لے گئے جس کے نتیجہ میں 8 اپریل 1950ء کو دونوں ملکوں کے مابین ایک معاہدہ ہوا جو "لیاقت نہر پیکٹ" کے نام سے آج بھی معروف ہے۔ اس معاہدہ کے ذریعے ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں نے اس عہد کا اظہار کیا کہ "ہر حکومت اپنی اپنی سرحدوں کے اندر کسی قسم کے مذہبی امتیاز کے بغیر اقلیتوں کیلئے مکمل مساوی شہریت کو یقینی بنائے گی اور ان کے جان ، مال، عزت و آبرہ اور تہذیب کے سلسلے میں پوری طرح تحفظ کا احساس دلانے کے علاوہ اقلیتوں کو اپنے ملک کے اندر ایک دوسری جگہ آنے جانے اور پیشہ اختیار کرنے کی آزادی کے ساتھہ قانون اور اخلاق کے دائرہ میں رہتے ہوئے تقریر اور عبادت کی مکمل آزادی کی ضمانت دے گی۔" 1985ء میں پہلے مارشل لاء سے قبل کے آخری وزیر اعظم فیروز خان نون نے بھی دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کے سلسلے میں ایک معاہدہ کای جو "نون نہرو پیکٹ" کہلایا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھہ ساتھہ اور پاکستان میں ایسے حضرات کے برسراقتدار آنے کے بعد جو تحریک پاکستان کے فلسفہ اور اس کے بنیادی مقاصد تک سے واقف نہیں تھے بھارتی مسلمانوں کو فراموش کرنا شروع کردیا۔ پھر پاکستان کے کچھہ حکمرانوں نے بھارت کے ساتھہ اس نوعیت کے معاہدے کر لئے کہ حکومت پاکستان کے لئے کشمیر اور بھارت میں مسلم اقلیت کے بارے میں بات کرنے پر پابندی سی لگ گئی۔ اور اب تو یہ کیفیت ہوگئی ہے کہ حکومت پاکستان بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام پر احتجاج تو درکنار ہمدردی کا ایک لفظ تک بولنے کے "جرم" کا تصور بھی نہیں کرسکتی ویسے بھی ہماری حکومت کو جنوبی افریقہ جیسے ملکوں میں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے ہی سے فرصت نہیں ملتی اسے بھارت کے "باغی" اور قیام پاکستان کے "مجرم" مسلمانوں کے ساتھہ ہمدردی اور یکجہتی کے اظہار کی فرصت کہاں ملے گی۔ یہ اور بات ہے کہ بھارت کی قیادت کو اپنے داخلی مسائل و معاملات کے بجائے پاکستان کے اندرونی معاملات سے زیادہ دلچسپی ہے اور پڑوسیوں کے معاملات میں بالعموم اور پاکستان کے امور میں بالخصوص مداخلت کا حق تو بھارتی حکومت نے پیدائشی طور پر حاصل کیا ہوا ہے ۔ اسی حق کو جسے روز کی سرپرستی بھی حاصل ہے استعمال کرتے ہوئے بھارت کی طرف سے کبھی پاکستان کی موجودہ منتخب حکومت کو فوجی حکومت قرار دیا جاتا ہے کبھی ہمیں "مشفقانہ" مشورہ دیا جاتا ہے کہ اپنیء افواج کے لئے یہ ہتھیار خریدو یہ نہ خریدو پھر ان کے ماہرین ہمارے لئے ہتھیاروں کی تعداد اور ان کی ضرورت بھی بتادیتے ہیں کبھی "دوستی" اور "قریبی تعلقات" کی بناء پر بھارت ہمیں یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ فلاں فلاں قیدی رہا کردو، فلاں مسئلہ پر نہ بولو، فلاں صوبہ کے حالات درست کرو گویا بھارت ایک "اچھے اور فرض شناس" پڑوسی کے تمام "اختیارات" بڑی خوبی کے ساتھہ استعمال کرتا رہتا ہے لیکن دوسری طرف غیر وابستہ تحریک سے نتھی ہماری حکومت شروع دن سے "حق پڑوسی" ادا نہ کرتے ہوئے کبھی بھارت کے معاملات میں دلچسپی نہ لینے کے "جرم" کا ارتکاب کرتی رہی ہے۔

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و بربریت کے سلسلے میں پاکستانی عوام کی خاموشی البتہ ناقابل فہم ہے۔ 1977ء کے بعد تو بھارت میں ہونے والے کسی بھی فساد کے خلاف عوامی سطح پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار کرنے کی روایت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ عید کے بعد بھارتی قونصل خانہ پر البتہ چھوٹے پیمانہ پر مظاہرہ کا اہتمام کیا گیا لیکن حیدرآباد میں غلط طریقہ اختیار کیا گیا۔ بھارتی مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم کے خلاف جذبات کے اظہار کا یہ طریقہ نہٰں کہ ہم اپنے ہیر شہریوں کو نقصان پہنچانے لگیں۔ یہ انداز تو ان مسلمان بھائیوں کے ساتھہ ہمدردی اور محبت کے بجائے الٹا دشمنی ہے اظہار کا ہوگا ۔

ہمارے ملک کی سیاسی قیادت بھی ان فسادات کے خلاف رسمی "فاتحہ خوانی" قسم کے بیانات دے کر اخبارات کی زینت بننے اور محض حکومت کو ہدف تنقید بنانے کے سنہری موقع سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آزادی کی جو نعمت ہمیں آج حاصل ہے اس میں بھارت میں رہنے والے مسلمانوں اور ان کے آباؤ اجداد کی قرنبانیوں اور دعاؤں کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔

عالم اسلام کی خاموشی:

حکومت پاکستان کی طرح دنیا بھر کے مسلم ممالک اور ان کی عالمی ار علاقائی تنظیمیں بھی بھارت آئے دن ہونے والے مسلم کش فسادات سے لاتعلق ہوکر رہ گئی ہیں بلکہ چند سال پہلے تو ایک مسلم ملک بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کی دوڑ میں اسقدر آگے بڑھ گیا تھا کہ اس نے مسلمانوں کے خلاف فسادات برپا کرنے کا "سہرا" پاکستان کے سر باندھ دیا تھا۔ بہرحال عالم اسلام کی یہ کیفیت شدید احساس کمتری کی علامت ہے اور بے حسی انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوگی اسلئے کہ اگر ہمارا احساس زیاں ہی جاتا رہا تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔

فسادات کا اہم سبب:

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف راجیو حکومت کے دوران فسادات کے اضافہ کے اسباب میں ہندو فرقہ پرستوں کی مخاصمت اور بھارتی حکومت کی مسلم دشمنی کو تو اولیّت حاصل ہے ہی لیکن اس کا دوسرا اہم سبب خود پاکستانی قوم میں بڑھتا ہوا باہمی انتشار و اغتراق، ہماری مادی اور اخلاقی کمزوری اور اسلام سے ہماری دوری ہے۔ اگر قوم کے افراد خود متحد اور منظم ہونے کے بجائے ٹکڑیوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوچکے ہوں ' خود ہمارے ہاتھوں اپنے ہی بھائیوں کی جان، مال اور عزت آبرو غیر محفوظ ہو تو پھر ہم کس منہ سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف قتل و غارتگری کے واقعات کی مذمت کرسکتے ہیں اسلئے کہ جو جرم وہاں ہندو انتہا پسند کررہے ہیں اسی جرم کا ارتکاب ہم خود بھی کررہے ہیں۔

فسادات ہمیں کیا سکھاتے ہیں؟

ہمارے ملک کا جدید ترین فیشن یہ کہتا ہے کہ "پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟ یہ کہنا کہ "ہمیں جتنے حقوق ملیں گے ہم اسی قدر پاکستان کے لئے قربانی دیں گے۔" گویا اب ہم حب الوطنی کے سلسلے میں بھی کوٹہ سسٹم کے قائل ہوچکے ہیں اگر ہم نے پر بات کا معیار یہی بنا لیا کہ "ہمیں کیا دیا؟" تو پھر بیشتر مائیں اور بیمار اور اپاہج والد اور مجبور بھائی سب ہی سے ہمارا تعلق ختم ہوجائے گا۔ ہمارے ملک میں عموماً مائیں کماتی نہیں، بیمار اپاہج اور ضعیف والد بھی یہ کام نہیں کرسکتے تو پھر ہم اسی معیار کے مطابق ان سب کو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں پھینک دیں گے یا سمندر کے حوالے کردیں گے کہ یہ تو ہمیں کچھہ دینے کے قابل ہی نہیں رہے اب ہمیں ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن بھارت میں آئے دن بہنے والا خون مسلم دراصل ایسے ہی لوگوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے عبرت کا ساماں مہیا کرتا ہے۔ یہ فسادات ہمیں چلا چلا کر یاد دلارہے ہیں کہ آزادی بڑی نعمت ہے اپنے آزاد اور خودمختار ملک کی حفاظت کرو اسے مضبوط و مستحکم بنادو تاکہ نہ صرف تم خود بھی یہاں آرام و اطمینان کے ساتھہ آزاد فضاؤں میں سانس لے سکو بلکہ اڑوس پڑوس کے کمزور مسلمانوں اور دوسری مجبور قوموں کے لئے تم سہارا بھی بن سکو کہ وہ بھی بے خوف وخطر زندگی گزارسکیں۔

اگر اس ملک میں بھی چند نادان یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت ان کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں بھارت مسلمانوں کے خاتمہ کا فریضہ تو ادا کرنے کے لئے تیار ہوجائے گا ان کی نجات کا ذریعہ کبھی نہیں بنے گا اور اس کا ثبوت بھارت کے سکھہ ہیں جو کل تک ہندوؤں کے اشارے پر ناچتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلا کرتے تھے لیکن جب انہوں نے کچھہ اختیارات کا مطالبہ کیا تو اب وہی سکھہ بھارتی فوج اور پولیس کے تشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ الحمدللہ کہ پاکستان میں بسنے والے سب ہی لوگ محفوظ و مامون ہیں لیکن ہم سب ایک ہوکر اگر اس ملک کو ناقابل تسخیر بنادیں تو پھر ہم بھارت کے مسلمانوں کے علاوہ دوسری کمزور اقوام کی جان ، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرسکتے ہیں۔ کمزور پاکستان تو خود اپنے ہی باشندوں کی حفاظت کے قابل نہیں ہے وہ کس طرح دوسروں کی مدد کرسکتا ہے اسلئے قوم کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ غلامی سب سے بڑی لعنت ہوتی ہے۔

No comments:

Post a Comment