ہماری ثقافت کو خطرہ ہے؟
روزنامہ جنگ منگل 10 مئی 1988ء
آئے دن ملک کے اخبارات و رسائل میں اہل فکر و دانش ، مصلحین اور سیاسی زعمائے کرام کی طرف سے اس قسم کے انتباہی بیانات اور مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان ثقافت مشرق اور مغرب کی طرف سے حملوں کی زد میں ہے نیز یہ کہ بھارت کی طرف سے دور درشن کے پروگراموں کو طاقتور بوسٹروں کے ذریعہ پاکستان میں دکھانے کا مقصد ہماری ثقافت کو نقصان پہنچانا ہے دوسری طرف ہندی اور انگریزی فلموں کے وڈیو کیسٹوں کی ملک میں بھرمار سے بھی ہماری ثقافت شدید خطرات سے دوچار ہے اور اگر اس کے تحفظ کے لئے فوری اور ٹھوس قدم اٹھائے گئے تو ہماری ثقافت زیادہ عرصہ اس یلغار کا مقابلہ نہیں کر پائے گی اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ ختم ہوجائے گی۔ خبردار کرنے والے تو اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں لیکن ہماری اپنی کیفیت یہ ہے کہ انگریزی اور بھارتی فلموں کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ گویا ہم اپنی ثقافت کو لاحق خطرات میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔
چند سال پہلے عمان ٹیلی ویژن سے جب بھارتی فلموں کے دکھانے کا اہتمام کیا گیا تھا تب ان فلموں کو دیکھنے کے چکر میں مختلف اقسام کے اونچے اینٹینا لگانے کی کوشش میں کئی نوجوان اپنی جان تک سے ہاتھہ بیٹھے اور کئی زخمی ہوکر عمر بھر کے لئے معذور ہوگئے تھے لیکن اس شوق میں کمی واقع نہیں ہوئی اس سے قبل جب پہلے پہل دو درشن پروگرام لاہور اور پنجاب کے دیگر سرحدی علاقوں میں نظر آنے لگے تو پاکستانی بڑے شوق سے یہ پروگرام دیکھتے تھے کہتے ہیں کہ دور درشن سے جس وقت فلم دکھائی جاتی تھی اس وقت تو شہر کی سڑکیں اور گلیاں سنسان ہوجاتی تھیں۔ اس لئے کہ لوگ ہوٹلوں اور گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹ کے سامنے مودٔب ہو کر بیٹھہ جاتے تھے۔ ان دنوں اخبارات میں اداریوں بیانات اور مضامین کے ذریعہ پاکستانی ثقافت کو خطرہ سے آگاہ کرتے ہوئے اور درشن کے پروگرام دیکھنے والوں کو برا بھلا کہا گیا تھا۔
"ہماری ثقافت کو لاحق خطرات" کے سلسلہ میں یہ حقیقت بہرحال ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ سیکڑوں برس تک ہم ہندو اکثریت کے ساتھہ رہتے رہے ہیں، غیر منقسم ہندوستان میں ایسی بے شمار بستیاں تھیں جہاں سینکڑوں کی آبادی میں مسلمانوں کے چند خاندان ہی آباد تھے، مسلم اکثریتی صوبوں سمیت پورے برصغیر میں بحیثیت مجموعی مسلمان تعلیم اور تجارت کے میدان میں ہندوؤں سے بہت پیچھے تھے بلکہ ایسے مسلمانوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی جو ہندوؤں کے مقروض تھے اور اپنی زمین ، جائیداد حتٰی کہ مویشی تک ان کے پاس رہن رکھے ہوئے تھے اور عمر بھر ان قرضوں کے بوجھہ تلے دبے رہتے تھے ، اقتصادی میدان میں ہندو بہت آگے اور بڑے با اثر تھے، معاشرتی اورسماجی لحاظ سے مسلمان صرف اپنوں ہی تک محدود نہیں تھے وہ ہندوؤں کے میلوں، ٹھیلوں میں بھی بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتے تھے وہ ان کی خوشی اور غمی کی تقریبات میں بھی شریک ہوتے تھے۔ ایک ساتھہ رہتے تھے، ایک ساتھہ لکھتے پڑھتے اور کھیلتے کودتے تھے یعنی مسلمانوں کو زندہ اور متحرک ہندو ثقافت سے رات دن سابقہ پڑتا تھا۔ لیکن اس وقت وہ کیا وجہ تھی کہ اس کے ذہن کے کسی بھی گوشے میں اپنی ثقافت کو ہندو ثقافت سے خطرہ محسوس نہیں ہوا۔
ہندو اور مسلمان کے مکانوں کی دیواریں ملی ہوئی تھیں لیکن دونوں مکانوں کی طرز تعمیر مختلف تھی اندرونی اور بیرونی تزین اور نقش و نگار الگ الگ تھے دونوں کے لباس جدا جدا تھے ، عورتوں کے زیورات میں نمایاں فرق تھا، پوری ہندو بستی ہوتی تھی اس میں واحد مسلمان خاندان کی بچی جب دلہن بنائی جارہی ہوتی تو اس کی مانگ میں نہ سیندور بھرا جاتا نہ بعد میں اس کی پیشانی پر کبھی تلک نظر آتی۔
1707ء کے بعد سے برصغیر میں مسلمانوں کی حیثیت بدلنے لگی اور 1757ء تک اس پورے علاقہ میں انگریزی کا تسلط قائم ہوگیا مسلمان حاکم سے محکوم بن گئے تو وہ انگریز فوج می شامل ہونے اور انگریزوں کی ملازمت اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے انگریزی تعلیم بھی حاصل کی انگلستان بھی گئے لیکن چند افراد کے سوا کسی نے بھی انگریزی ثقافت کو نہیں اپنایا بلکہ مغربی ثقافت سے کبھی اپنی ثقافت کے لئے خطرہ بھی محسوس نہیں کیا۔ یعنی تشخص قائم رکھا اور مغرب کی مسحور اور مسرور کردینے والی ثقافت کے مقابلہ میں مسلح ثقافت قائم اور دائم رہی۔
ایک طرف تو دانشور حضرات کی جانب سے "ہماری ثقافت کو خطرہ ہے" کی آواز لگائی جارہی ہے اور دوسری طرف مندرجہ بالا حقائق ہیں۔ اگر خطرہ والی بات صحیح ہے تو پھر ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آج وہ کون سے عوامل سامنے آگئے ہیں کہ ہماری ثقافت کو ہندی یا مغربی فلموں ہی سے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ آج تو ہم آزاد اور خودمختار ہیں ہم بھاری اکثریت میں ہیں، ہمیں ہندو اور مغرب کی زندہ اور متحرک ثقافت سے کبھی سابقہ نہیں پڑتا پھر کیا وجہ ہے کہ آج ہم اپنی ثقافت کو اتنا کمزور اور ناتواں اور بے وقعت سمجھنے لگے ہیں کہ اب اسے صرف وڈیو کیسٹوں کے زور ہی سے ختم کیا جاسکتا ہے، باہم خود اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ اپنی ثقافت کے تحفظ کی سکت نہیں پاتے اور اپنی اس کمزوری پر پردہ ڈالنے کی غرض سے ہندی اور مغربی ثافت کو ہوّا کھڑا کررہے ہیں اگر ہماری ثقافت اتنی ہی کمزور ، ناقص اور بے اثر ہوتی کہ اسے ہندی اور انگریزی فلموں کے وڈیو کیسٹوں اور دور درشن کے پروگراموں کے ذریعہ ہی ختم کیا جاسکتا تو پھر وہ تو صدیوں پہلے ہی ہندو ثقافت میں گھل مل کر ڈھائی صدیوں قبل انگریزی ثقافت میں ضم ہوکر کبھی کی ختم ہوچکی ہوتی اور آج ہمیں اپنی کسی ثقافت کے ختمہ کا نہ خوف ہوتا اور نہ احساس ہوتا قصہ مختصر ہماری ثقافت اس قدر کمزور اور بے جان نہیں کہ فلموں کے یلغار سے دم توڑدے ہماری ثقافت ہمارے تاریخی تشخص کا پرتو ہے اور صدیوں کا تاریخی تشخص لمحوں میں ختم نہیں ہوتا۔
No comments:
Post a Comment