ایک اور منصوبہ ناکام ہوا
روزنامہ جنگ جمعرات 23 اکتوبر 1986ء
تعلیم کے وزیر مملکت نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ فروغ تعلیم کی غرض سے دیہی علاقوں میں مزید پرائمری اور مسجد اسکول کھولنے کے علاقہ حکومت نے دو نئے منصوبے یعنی "نئی روشنی اسکول" اور " اقراء پائلٹ پروجیکٹ" شروع کئے ہیں۔ اقراء پائلٹ پروجیکٹ صرف وفاقی دارالحکومت تک محدود رکھا جائے گا اور اسے تجرباتی منصوبہ قرار دیا گیا ہے جبکہ نئی روشنی اسکول منصوبہ کے تحت 10 سے 15 سال کی عمر تک کے بچوں کو شام کے وقت پرائمری تعلیم دی جائے گی۔ اور پانچویں جماعت تک نصاب دو سال کی مدت میں مکمل کرکے بچوں کو چھٹی جماعت میں داخلہ لینے کے قابل بنادیا جائے گا جبکہ اقراء کے تحت ایک ان پڑھ بالغ کو تعلیم دینے والے افراد کو ایک ہزار روپے فی فرد کے حساب سے ادائیگی کی جائے گی۔ یہ دونوں منصوبے " خواندگی اور تعلیم عامہ کمیشن" کے تحت شروع کئے گئے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیر موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ اسی کمیشن نے 1981ء سے تعلیم کے جس منصوبہ پر عمل درآمد شروع کیا تھا اور جس پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاچکے ہیں اچانک کیوں ختم کردیا گیا۔
خواندگی اور تعلیم عامہ کمیشن ابھی دو ماہ قبل تک وزیر اعظم جونیجو کے پانچ نکاتی پروگرام کے حوالہ سے بلند بانگ دعوے کرتا رہا ہے کہ 1990ء تک ملک میں خواندگی کی شرح میں سو فیصد اضافہ کرکے شرح خواندگی کو 26 سے 50 فیصد تک بڑھا دیا جائے گا۔ لیکن گزشتہ ماہ قوم کو اچانک بتایا گیا کہ کمیشن اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ کمیشن 1981ء میں عمل میں آیا تھا اور ملک میں جہالت کے خلاف جہاد کی ذمہ داری اسی کمیشن کے سپرد تھی لیکن پانچ سال کی اس مدت کے دوران شرح خواندگی میں صرف اعشاریہ 24 فیصد اضافہ ہی ممکن ہوسکا۔ 85-1984ء کے دوران صرف 41 ہزار افراد کو خواندہ بنایا جاسکا جن پر تقریباً چھہ کروڑ روپے خرچ ہوئے یعنی تقریباً 1470 روپے فی فرد اخراجات آئے جو پاکستان جیسے غریب ملک کے لئے کسی بھی لحاظ سے معمولی رقم نہیں ہے۔ پھر جتنی تعداد کو خواندہ بنانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے اس کی اصلیت کو جاننے کا معیار بھی قوم کے پاس نہیں ہے۔ اساتذہ کو اس دوران صرف ڈھائی سو روپے ماہانہ اعزازنہ ادا کیا جاتا رہا ہے ۔ اس لحاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نتائج کس قدر افسوس ناک اور حوصلہ شکن رہے۔
اب اعلان کیا گیا ہے کہ نئی روشنی اسکولوں کیلئے 22 ہزار افراد کو ملازمتیں مہیا کی جائیں گی اور ان اساتذہ کو 950 روپے ماہانہ ادا کیا جائے گا او سپروائزروں کو 1395 روپے ماہانہ تنخواہ دی جائے گی۔ 22 ہزار افراد کو ملازمت کے مواقع کی فراہمی تو بڑی خوشی اور اطمینان کا باعث ہے لیکن ملازمتوں کی خوشخبری دے کر خواندگی اور تعلیم عامہ کمیشن اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کی پردہ پوشی بھی کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کمیشن کے قیام کے فوراً بعد افسروں نے غیر ممالک کے مطالعاتی دورے کئے اور جائزہ رپورٹیں تیار کرکے ملک میں علم کی روشنی کو گلی گلی قریہ قریہ پہنچانے کے دل فریب دعوے کئے لیکن اربوں روپے خرچ کرنے اور قوم کے پانچ قیمتی سال ضائع کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ صرف 3 لاکھہ ایک ہزار 993 افراد ہی کو خواندہ بنایا جاسکتا اور اب اس منصوبہ کے خاتمہ اور دوسرے منصوبہ کا اعلان اس اندازہ سے کیا گیا ہے گویا کوئی خاص بات پیش آئی ہی نہیں ہے اربوں روپے کے اس بے مقصد خرچ اور اتنے اہم منصوبہ کی ناکامی کے بعد اہل ارباب اور وزارت تعلیم کا یہ فرض ہوجاتا ہے کہ اس کی ناکامی کے اسباب کا پتہ لگایا جائے اور قوم کو ان اسباب سے آگاہ کرنے کے علاوہ ذمہ دار حضرات کو اس مجرمانہ نااہلی کی بنا پر فوری طور پر ملازمت سے سبکدوش کردیا جائے لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس نہ تو جواب طلبی کی کوائی روایت ہے اور نہ ہی ذمہ داری قبول کرنے کی عادت بلکہ نوکر شاہی سے تعلق رکھنے والے اعلٰی حکام تو خود کو عام لوگوں سے افضل اور "معصوم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخطا" سمجھتے ہیں۔
ملک میں منتخب حکومت کے قیام کے بعد قوم بجا طور پر نوکر شاہی کے رویہ میں مثبت تبدیلی کی امید رکھتی ہے لیکن اب تک کے حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کے بعد مایوسی کے سوا کچھہ نظر نہیں آتا جبکہ قوم کے نمائندوں کو چاہئے کہ وہ حکومت کے ساتھہ ہوں یا نہ ہوں فرض ہے کہ وہ ہر چھوٹے بڑے منصوبہ کے بارے میں قوم تک حقائق پہنچانے کی کوشش کریں اور ان کی ناکامی کے ذمہ دار حضرات کو مناسب سزا سے نوازنے کا اہتمام کریں اس لئے کہ بہتر کارکردگی پر انعامات سے نوازنے کی روایت اگر اپنائی ہے تو بدتر کارکردگی کے ذمہ دار افراد کو سزا سے نوازنا بھی قرین انصاف ہے۔ اس اصول کے پیش نظر یہ بات کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے کہ جو کمیشن اپنے ابتدائی منصوبہ ہی میں ناکام رہا اسی نااہل اور ناکام کمیشن کو دوسرے منصوبہ کی ذمہ داری سپرد کردی جائے ، تجزیہ سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ کمیشن کا موجودہ عملہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے سلسلہ میں مجرمانہ حد تک ناکام ہوگیا ہے اس لئے نئی روشنی اسکول اور اقراء منصوبے انہی افراد کے حوالہ کرنے کا مقصد ان کی غفلت اور نااہلی کی پردہ پوشی اور اربوں روپے کے نقصان کے جواز کو جائز قرار دینا ثابت ہوتا ہے۔
طریقہ کار اس وقت کچھہ بھی ہو ہر وزارت کو چاہئے کہ ہر اہم اور بڑے منصوبہ کو ایوان میں پیش کرکے عوامی نمائندہ کی رائے اور مشورے کے بعد ان منصوبوں کو آخری شکل دے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ متعلقہ وزارت کے حکام جو بھی منصوبہ مرتب کریں وزارت اس کو جوں کا توں منظور کرلے جیسا کہ نئی روشنی اسکول اور اقراء منصوبوں سےظاہر ہوتا ہے۔ کمیشن نے پانچ سال بعد اچانک کروٹ لی اور اسے معلوم ہوا کہ جس منصوبہ پر کام کیا جارہا تھا وہ ناکام ہوچکا ہے اور اب کمیشن کو سوجھا ہے کہ 10سے 14 سال کے درمیان کی عمر کے ان بچوں کو دوسال کی تعلیم دلوائی جائے جو کسی بنا پر پرائمری اسکول میں داخل نہیں ہوسکتے۔
حکومت کےپیش نظر اگر واقعی ملک کو جہالت کے لعنت سے چھٹکارا دلانا مقصود ہے تو پھر خواندگی اور تعلیم عامہ کمیشن کو ختم کرنے فروغ خواندگی کی ذمہ داری محکمہ ہائے تعلیم کے سپرد کردینی چاہئے اس سلسلہ میں درج ذیل چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں ماہرین تعلیم اور عوامی نمائندے غور و حوض کے بعد ان کو مزید بہتر اور قابل عمل شکل میں نافذ کرسکتے ہیں۔
خواندگی کی شرح میں اضافہ کا مقصد حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ منظور شدہ نجی تعلیمی اداروں کا تعاون حاصل کیا جائے۔ مختلف علاقوں کےمنتخب نجی اسکولوں کی انتظامیہ کو دوپہر کی شفٹ شروع کرنے پر راغب کیا جائے ان شفٹوں میں تعلیم بالکل مفت دی جائے البتہ فی بچہ کے حساب سےمقررہ رقم اسکول کی انتظامیہ کو ماہانہ ادا کردی جائے لیکن ان اسکولوں پر اساتذہ کو مقرر کردہ تنخواہ کی ادائیگی لازمی قرار دی جائے۔ اچھے نتائج حاصل کرنے والے اسکولوں کیلئے انعام کی مزید گنجائش رکھی جائے۔ تاکہ پڑھائی کی طرف زیادہ توجہ دی جاسکے ویسے بھی نجی تعلیمی اداروں اور سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے معیار میں نمایاں فرق کے اظہار کی یہاں گنجائش نہیں لیکن تجربہ شاہد ہے کہ فیسوں کی شکایت کے باوجود نجی تعلیمی ادارے بچوں کو رغب کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
نجی نیم سرکاری اور سرکاری صنعتی اداروں اور کارخانوں میں جہاں مزدوروں کی ایک معقول تعداد کام کرتی ہو تعلیم کے مرکز قائم کئے جائیں وہاں مزدور اپنے کام کے آغاز سے پہلے یا کام کے اختتام پر ان مرکزوں میں تعلیم حاصل کریں اور جہاں جہاں ایسے مرکز قائم کئے جائیں وہاں یہ پابندی لگائی جاسکتی ہے کہ دو سال بعد وہاں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہ میں سالانہ اضافہ بنیادی تعلیم سے مشروط ہوگا ساتھ ہی تعلیمی نصاب مکمل کرنے والے افراد کیلئے ایک خاص رقم بطور انعام بھی دینے کا اعلان کیا جائے یہ رقم متعلقہ صنعتی ادارہ سے حاصل ہونے والے اقراء ٹیکس ہی سے ادا کی جاسکتی ہے۔ وہاں پڑھانے کیلئے اساتذہ کا تقرر محکمہ تعلیم کی طرف سے کیا جانا چاہئے۔
کیم جولائی سے نافذ خاندان کے کفیل کی زندگی کے بیمہ کی اسکیم کو مزید توسیع دے جائے اور نئی روشنی اسکولوں سے فارغ التحصیل تمام افراد کو اس بیمہ کا تحفظ حاصل ہوجائے تو یہ ایک اضافی دلچسپی ہوگی جو خصوصاً خواتین خانہ کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کا ایک بہتر ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اقراء منصوبہ کے مطابق جس کا اطلاق فی الحال صرف وفاقی دارالحکومت میں ہی ہوگا ایک ان پڑھ فرد کو تعلیم دینے والے شخص کو ایک ہزار روپے ادا کئے جائیں گے اور یہ تعلیم تین چار ماہ کی مدت کیلئے ہوگی۔ اس مقصد کیلئے ان پڑھ فرد کو یہ حلف نامہ داخل کرنا ہوگا کہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا اور پھر مقررہ مدت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
حساب سے ادا کردیئے جائیں گے۔ اسکیم بظاہر تو بہت دلکش معلوم ہوتی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس پر دیانت داری کے ساتھہ عمل کون کروائے گا۔ اخلاقی لحاظ سے انحطاط پذیر قوم کی حیثیت سےہم حقیقی معنوں میں کتنے لوگوں کو خواندہ بناسکیں گے آج ہم تو مسجد کے منبر پر کھڑے ہوکر جھوٹ گھڑنے اور ہوائی اڑانے سے باز نہیں آسکتے تو ان پڑھ ہونے کا حلف نامہ داخل کرنے میں کیا ہچکچاہٹ محسوس کریں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کمیشن مخصوص طبقہ میں رقم کی تقسیم کا ایسا منصوبہ رکھتا ہے جسے قانون کا تحفظ بھی حاصل ہو ورنہ اس طرح ایک غریب ملک میں صرف ایک شخص کو تین چار ماہ تعلیم دینے کا معاوضہ ایک ہزار روپے مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے عوامی نمائندوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ ان تمام معاملات کو زیر بحث لائیں اور افسر شاہی کی اس منصوبہ بندی کی روک تھام کا کوئی معقول انتظام کریں اس لئے کہ قوم کا ویسے ہی اربوں روپیہ بدعنوانیوں کی نظر ہورہا ہے اس میں مزید اضافہ کیلئے دروازے کھولنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا ہے تعلیم سے متعلق تمام معاملات محکمہ ہائے تعلیم ہی کے سپرد کئے جانے چاہئیں اور ناتجربہ کار سپروائزر بھرتی کرکے انہیں 1395 روپے ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی کے بجائے موجودہ سپروائزروں ہی کو اعزازیہ دے کر اس کام پر مقرر کردیا جائے اس لئے یہ سپروائزر حضرات اپنے کام سے بھی واقف ہیں اور اپنے علاقوں سے بھی اس طرح جو رقم بچے گی وہ مزید اساتذہ کے تقرر پر خرچ کی جاسکتی ہے۔
دیہی علاقوں میں جہاں نجی تعلیمی ادارے اور صنعتی ادارے نہیں ہیں وہاں کی مساجد کو تعلیم کی غرض سے زیادہ بہتر طریقہ پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن بے دریغ اور بلا روک ٹوک سرکاری خزانہ کو افسروں کی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے پر بہرحال مناسب طریقہ سے پابندی لگائی جانی چاہئے بالخصوص ایسے کمیشن کے افراد جو پہلے ہی خطیر رقم خرچ کرکے ایک عظیم منصوبہ کو خاموشی کے ساتھہ ناکام قرار دے چکے ہیں۔
No comments:
Post a Comment