سندھ میں امن و امان کا مسئلہ چند تجاویز
روزنامہ نوائے وقت 02اکتوبر 1986ء
سندھ میں امن و امان کی صورت حال اب اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ اسے الفا میں بیان نہیں کیا جاسکتا اور اس کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ہر طبقہ کی خواہش کے باوجود مستقبل قریب میں اس میں کسی بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آتے اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ کہ متحارب گروہ خدانخواستہ کسی ایسے نقطہ پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں سے واپسی ممکن ہی نہ رہی ہو بلکہ اس سلسلہ میں افسوسناک حقیقت حکمران جماعت کی صوبائی اور مرکزی قیادت کا رویہ ہے جس کی وجہ سے مایوسی اور ناامیدی پیدا ہورہی ہے۔ حکمران جماعت کی طرف سے کھلم کھلا صرف ایک طبقہ کو مظلوم اور معصوم اور دوسرے کو ظالم اور دہشت گرد قرار دینے اور نقل مکانی کرنے والے صرف ایک ہی طبقہ کو ٹی وی پر رکھانے کا مقصد دونوں طبقوں کو اشتعال دلا کر اٹھہ کھڑے ہونے کا پیغام دینے کی کوشش کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے پھر ایک صوبائی وزیر نے تیسرے طبقہ کو بھی اکسانے کا مذموم فریضہ سنبھال لیا ہے ایسا ارادی طور پر کیا جارہا ہو یا غیر ارادی طور پر لیکن یہ سب کچھہ نہ صرف بہت ہی خطرناک رجحان ہے بلکہ یہ آئین و قانون کی صریحاً خلاف ورزی اور اس کی کھلی توہین ہے ہر شخص کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ جسم انسانی کی طرح قوم بھی ایک ناقابل تقسیم اکائی ہے اعضائے جسمانی کے نام تو مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ان سب کو علیحدہ علیحدہ کرکے کسی بھی عضو کو زندہ اور متحرک نہیں رکھا جاسکتا اور یہی اصول جسد قومی پر بھی صادق آتا ہے۔ اگر کسی جماعت کی سوچ یہ ہے کہ اس کے تمام کارکن فرشتے اور دوسری جماعتوں کے تمام حامی مجرم ہیں یا کوئی طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ صرف وہی مظلوم ہے اور دوسرا ظالم تو صوبہ میں امن و امان کے قیام اور محبت اور بھائی چارہ کی فضا کی بحالی محض ایک خواب ہی رہے گا اگر ہم سب خلوص نیت کے ساتھہ یہ چاہتے ہیں کہ بدامنی اور بے اعتمادی کے موجودہ عذاب سے نجات ملے تو اس کیلئے اولین شرط ایسی سوچ میں یکسر اور فوری تبدیلی ہے اس لئے کہ سندھ میں رہنے والے تمام ہی طبقے مظلوم بھی ہیں اور بے گناہ بھی لیکن بدقسمتی سے ہر طبقہ میں چند کالی بھیڑیں بھی موجود ہیں جنہوں نے صوبہ کے امن و امان کو غارت کرکے رکھہ دیا ہے جب تک ان سب کالی بھیڑوں کو بلا امتیاز کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا صوبہ میں کسی کی بھی جان و مال اور عزت و آبرہ محفوظ نہیں رہے گی۔ صوبہ کی موجودہ انتہائی تشویشنال اور کشیدہ صورت حال میں جلد اور مثبت تبدیلی کے سلسلہ میں چند تجاویز نکات کی صورت میں اس حسن ظن کے ساتھہ پیش کی جارہی ہیں کہ حکمران جماعت بھی عوام کو اس عذاب سے نجات دلا کر قانون کی بالادستی قائم کرنے کی خواہش اور کوشش میں مخلص نہیں۔
1۔ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا قیام حکومت کا اولین فریضہ ہے جس کا تقاضا ہے کہ حکومت پہلے خود اس کا عملی مظاہرہ کرے اورپھر دوسروں سے بھی سختی کے ساتھہ اس پر عمل کروائے اس لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے حکمران جماعت کے چھوڑے بڑے کارکنوں اور لیڈروں نے غیر قانونی ہتھیاروں کے جو ذخیرے جمع کررکھے ہیں وہ فوج کے حوالے کردیئے جائیں۔
2۔ پی پی کی ذیلی تنطیموں اور حلیف گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھی فی الفور ہتھیار جمع کرلئے جائیں۔
3۔ یکم اپریل 1985ء کے بعد سندھ میں کسی بھی سیاستدان کی سفارش پر جاری کردہ ہتھیاروں کے لائسنس فوری طور پر منسوخ کردیئے جائیں۔
4۔ یکم دسمبر1988ء کے بعد جن مسلمہ اور معروف دہشت گردوں اور قانون شکنوں کو رہا کیا گیا ہے یا جن کی سزاؤں میں کمی کرکے چھوڑ دیا گیا ہے انہیں فوراً گرفتار کیا جائے۔
5۔ پی پی کے ان لیڈروں کو بھی گرفتار کیا جائے جن پر دہشت گردی ، قتل ، اغواء، توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کے الزامات ہیں لیکن آج کل ضمانت پر رہا ہیں یا جو مصنوعی طریقہ پر مفرور قرار دے کر کھیل کھیلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیئے گئے ہیں۔
6۔ پی پی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے ان تمام اراکین اور وزیروں اور مشیروں کو جن پر دہشت گردی ، اغواء، قتل یا ڈکیتی وغیرہ کے الزامات ہوں ان سب کو قانون کے حوالہ کردیا جائے۔
اس طرح پہل کرنے سے حکمران جماعت کے بارے میں یہ عملی ثبوت مل جائے گا کہ اس کے ارادے نیک ہیں اور یہ کہ حکومت جانبدارانہ ، منتقمانہ اور متعصبانہ جذبات کے تحت کوئی کاروائی نہیں کررہی تو عوام میں اعتماد بحال ہو جائے گا۔ اس کے بعد:
1۔ عام لوگوں سے کہا جائے کہ وہ دو دن کے اندر اندر غیر قانونی ہتھیارفوج کے حوالے کردیں اور ملزمان کو ایک محدود مدت میں قانون کے حوالہ کردینے کے لئے کہا جائے پھر پورے صوبہ میں ایک ساتھہ کاروائی کا آغاز کیا جائے تاکہ کسی طبقہ کو جانبداری کی شکایت نہ ہو ، امید ہے کہ ایسی صورت میں متعلقہ علاقہ کے لوگ بھی قانون شکنوں کو قانون کے حوالہ کرنے یا ان کی نشاندہی کرنے میں پورا تعاون کریں گے۔
2۔ جن لوگوں نے ماضی قریب میں کسی بھی طبقہ کو دوسرے طبقہ کے خلاف بھڑکانے یا کسی شہر یا دیہات کو تباہ کر دینے کی دھمکیاں دی ہوں انہیں بھی گرفتار کیا جائے۔
3۔ جو لوگ ہتھیاروں کی نمائش یا غیر قانونی ہتھیاروں سے مسلح مرد و خواتین سے سلامیاں کے کر اپنے جذبات کی تسکین اور قوم کی بیٹیوں کی توہین جیسے عزائم کے مرتکب ہوئے ہوں انہیں بھی بلاتاخیر گرفتار کیا جائے۔
4۔ آزادی صحافت سب ہی کو عزیز ہے لیکن انسانی جان، عزت اور آبرو، امن و امان اور ملک کی سالمیت ہر شے پر مقدم ہے اس لئے جن اخبارات یا جرائد نے گذشتہ پانچ سال کے دوران اشتعال انگیزی کا ارتکاب کیا ہے ان سب کے خلاف پریس کونسل یا کسی اور بااختیار ادارے میں سماعت کے بعد کاروائی کی جائے۔
5۔ اپریل 1986ء کے بعد سے پولیس کی درج کردہ ایف ۔ آئی ۔ آر کی بنیاد پر گرفتاری کا فیصلہ اشتعال انگیزی کا باعث بنے گا اس لئے یا تو گرفتاریاں5 جولائی1977ء کے بعد سے درج ایف آئی آر کی بنیاد پر عمل میں لائی جائیں یا پھر ہر محلہ میں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے معززین کی مشترکہ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو اپنے اپنے علاقہ کے دہشت گردوں اور امن و امان میں خلل ڈالنے والوں کے بارے میں فیصلہ کرکے فوج کو اس سے مطلع کریں تاکہ بے گناہ لوگ گرفتاری سے بچ سکیں اور لوگوں کو مشتعل ہونے کا موقعہ نہ ملے۔
6۔ گذشتہ دو تین برسوں کے دوران نقل مکانی کرنے والوں کو فوری طور پر اپنے اپنے گھروں میں بحال کیا جائے اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ذمہ داری اجتماعی طور پر اہل محلہ متعلقہ کونسلر صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن اور علاقہ میں سیاسی جماعتوں یا دیگر سرگرم تنظیموں کے عہدیداروں پر عائد کی جائے اس طرح اجتماعیت کا احساس بھی پیدا ہوگا اور متاثرین میں اعتماد بھی بحال ہوگا۔ مجرموں کی گرفتاری یا غیر قانونی ہتھیاروں کی بازیابی کے سلسلہ میں حکومت کی طرف سے کسی بھی قسم کی بدعملی یا بدنیتی کے مظاہرہ کی غلطی فوج کو آڑ بنا کر ہی کیوں نہ کی جائے ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر کسی ایک طبقہ کے لوگوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کرکے دوسرے طبقہ کو جشن منانے کا موقع فراہم کردیا جائے لیکن اس تلخ حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے کہ معاشرہ کے ہر طبقہ کے پاس مہلک ہتھیار بڑی تعداد میں موجود ہیں پھر ان کو حاصل کرنا بھی اب کوئی مشکل کام نہیں رہا اس لئے آج اگر کسی خاص طبقہ کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانے کی غلطی کی گئی تو اس طبقہ سے رد عمل کے طور پر امن پسند نوجوان بھی مسلح ہوکر نکل کھڑے ہوں گے جن پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا اس لئے اگر قوم اور سندھ کی بھلائی پیش نظر ہے تو جوش یا انتقامی جذبہ کے بجائے ہوش اور عدل و انصاف سے کام لینا ہوگا۔ اس کا ایک نازک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ فوج کو ایسی کسی غیر عادلانہ کاروائی کا فریق ہر گز نہ بنایا جائے وگر نہ:
ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
No comments:
Post a Comment