سندھ کے عوام بے گناہ ہیں

روزنامہ جسارت جمعۃ المبارک 30 جون 1989 ء

سندھ میرے عظیم اور عزیز وطن پاکستان کا ایک ایسا صوبہ ہے جسے ملک کے دوسرے صوبوں پر کئی لحاظ سے فوقیت حاصل ہے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم اور قابل فخر بات تو یہ ہے کہ سندھ برصغیر کا باب الاسلام ہے۔ دین کامل ' اسلام کی روشنی سے منور ہونے والا اس علاقہ کا سب سے پہلا صوبہ سندھ ہے اس صوبہ کے شہر ٹھٹھہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاںدرس و تدریس اور علم و دانش کا ایسا مرکز تھا جہاں دور و نزدیک سے بے شمار تشنگان علم آکر دیتی اور دینوی علوم حاصل کرتے تھے اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد دنیا کے مختلف مقامات پر علم و حکمت کی روشنی پھیلاتے تھے مکلی کے قبرستان میں ہزاروں علماء وفضلا اور بزرگ ابدی نیند سورہے ہیں۔ سندھ کی سرزمین پر شاہ عبدالطیف بھٹائی لعل شہباز قلندر اور سچل سرمست کی آخری آرام گاہیں موجود ہیں۔ یہ وہ بزرگ تھے جنہوں نے بلا امتیاز تمام انسانوں سے محبت اور الفت کا پیغام دیا اور آھ بھی سندھ کی فضاؤں میں محبت اور بھائی چارہ کے اس پیغام کی آواز سنی جاسکتی ہے بشرطیکہ کوئی سننا چاہتا ہو۔ سندھ کے شہر کراچی کو دنیائے اسلام کے بطل جلیل محمد علی جناح کا مولد اور مدفن ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ اسلام کی روایت کے مطابق سندھ کے لوگوں نے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے کبھی کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ اگر ہجرت تحریک شروع کی گئی تو سندھ کے فرزند یہاں سے ہجرت کرگئے تحریک کو ضرورت پڑی تو پیر غلام محمد سرہندی کو پیش کرکے سندھ کے لوگوں نے سرخروئی حاصل کی سندھ برصغیر کاواحد صوبہ ہے جہاں کے مسلمانوں نے مطالبہ کرکے بیرون صوبہ سے مسلمان افسر یہاں تعینات کروائے۔ صوبہ سندھ کی اسمبلی نے بہت پہلے قرارداد پاکستان کی حمایت کرکے ہر منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ وہ بھی ایک عظیم تاریخی واقعہ ہے یہ اور اس قسم کی بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ جن کی وجہ سے سندھ کے فرزندوں کے سر فخر سے بلند ہوجاتے ہیں۔

میں نے 1947ء میں جب سے بے سروسامانی کی حالت میں بھارت سے ہجرت کرکے اپنے خوابوں کی جنت پاکستان کے صوبہ سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا تو یہاں کے لوگوں نے اس قدر خوشدلی اور محبت کے ساتھہ مجھے اپنی سینے سے لگا یا کہ میں محبت خلوص اور اخوت کی اس معطر فضا میں اپنے دکھہ اور تکلیف کو یکسر بھول گیا۔ میرے سندھی بھائی نے میرے لئے اپنے گھر کے دروازے کھول دیئے۔ اسے فخر تھا کہ اسے انصار ہونے کا مشرف حاصل ہورہا ہے گو وہ خود اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں صوبوں سے پستا چلا آرہا تھا۔ وہ غریب تھا لیکن اس کی یہ مظلومیت اور غربت میری دل جوئی میں رکاوٹ نہ بن سکیں جب میں نے خود کو پرخلوص محبت کرنے والے اپنے بھائیوں کے درمیان پایا تو ایک لمحہ کے لئے بھی یہاں اجنبیت کا احساس پیدا نہیں ہوا۔ اس صوبہ کے شہر، قصبے، دیہات اور ان کی گلیاں ، یہاں کے صحرا اور جنگل، یہاں کے دریا اور پہاڑ مجھے اس قدر مانوس سے لگے کہ میں نے سمجھا شاید میں اسی مٹی کا فرزند ہوں۔ زبان اور لباس کا فرق ہمارے درمیان محبت اور خلوص کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوا۔ میں نے جب اور کہاں پر چاہا بلا خوف و تردد چلا گیا۔ مجھے ہر جگہ محبت اور خلوص کے نغمے ہی سننے کو ملے۔ ہم سب یہاں ایک ساتھہ پڑھتے تھے ، دفتروں، کارخانوں اور دکانوں اور کھیتوں پر ایک ساتھہ کام کرتے تھے ایک ساتھہ رہتے تھے، ایک ساتھہ سفر کرتے تھے۔ ایک دوسرے کی شادی اور غمی کی تقریبات میں شریک ہوتے تھے لیکن ذہن کے کسی بھی گوشہ میں کبھی بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ ہم میں سے کوئی اجنبی ہے یا کوئی غیر ہے کوئی سندھی ہے یا کوئی مہاجر ہے۔ یہاں کوئی غیر نہ تھا ، کوئی اجنبی نہ تھا۔ ہم سب ایک بڑے خاندان کے فرزند بن چکے تھے۔ سندھ کی ترقی اور خوشحالی سب کو یکساں عزیز تھی پاکستان کا مفاد سب کے لئے مقدم تھا۔

لیکن یہ اچانک کیا ہوگیا؟ میں شاید کوئی سہانا خواب دیکھہ رہا تھا یا شاید میں غلط بیانی کررہا تھا یا شاید میں خود کو اور دوسروں کو دھوکہ دے رہا تھا۔ میری ان باتوں پر آج کا نوجوان کیسے یقین کرے گا کہ کل تک یہاں محبت کرنے والے ہمدرد دوست اور بھائی بستے تھے۔ آج یہاں نفرت ہی نفرت کا طوفان ہے۔ کل یہاں کی ہواؤں میں محبت اور الفت کے نغمے بکھر رہے تھے۔ آج یہاں کی فضا خون ناحق سے مسموم اور متعفن ہے۔ کل یہاں یہاں مسلمان اور انسان آباد تھے۔ آج یہاں سندھی مہاجر، پنجابی، پٹھان اور بلوچی بستے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو لوگوں سے باتیں کرکے دیکھہ لیجئے۔ اخبارات کا مطالعہ کر لیجئیے۔ کوئی کہہ رہا ہے " اتنے سندھی قتل کردیئے گئے" دوسری طرف سے آواز آتی ہے۔ " اتنے مہاجر مار دیئے گئے۔" ایک اور آواز آتی ہے " اتنے پٹھان ہلاک کردیئے گئے" پھر خود ساختہ اور نام نہاد دانشور اور لیڈر کے مطالبے پڑھئے۔ " سندھی اسیروں کو رہا کرو" "مہاجر قیدیوں کو فوراً چھوڑ دو" اور سنئے " مہاجر طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے" " سندھی طلبہ کو ہراساں کیا جارہا ہے" ایک شور بپا ہے۔ " شہروں سے سندھیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے۔" " دیہی علاقوں سے مہاجر خاندان بے دخل کردیئے گئے ہیں۔"

یہ سب کچھہ کیا اور کیوں ہوگیا؟ وہ میرے بھائی ، میرے ہمدرد ، میرے دوست سب کے سب ان بستیوں سے کہاں چلے گئے۔ وہ اپنے مہیب سائے یہاں کیوں چھوڑ گئے ہیں۔ میرا شہر ، میرے قصبہ، میرے گاؤں کی گلیاں میرے لئے اجنبی کیوں ہوگئیں۔ میں اب دیہاتوں کا رخ کرتے ہوئے کیوں خوف کھانے لگا ہوں۔ دیہاتوں میں رہنے والا میرا بھائی اب شہر آتے ہوئے کیوں ڈرنے لگا ہے۔ میرے پڑوسی مجھے کیوں مشورہ دے رہے ہیں کہ تم کسی اور محلہ میں منتقل ہوجاؤ۔ میرا مال، میری جان اور میری عزت آبرو اب اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں کیوں غیر محفوظ ہوکر رہ گئی ہے! میرا رب تو مجھے یہ خوشخبری سنا رہا ہے کہ " مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو۔ اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔"

میں کیوں ڈاکو اور قاتل بن گیا ہوں۔ میں امن و سلامتی کے گہوارے اپنے صوبہ کو نفرت اور عصبیت کی آگ میں جھونک کر کیوں خودکشی پر تل گیا ہوں؟ اپنے ہاتھوں سے لگائی ہوئی اس آگ کے شعلوں کی تپش میں آج اپنے گھر محلہ اپنی مسجد اور اپنے مدرسہ میں شدت کے ساتھہ محسوس کرنے لگا ہوں ۔ کیا یہ عذاب میں نے خود ہی اپنے اوپر نازل نہیں کیا ہے؟ آج میں ہوش و خرد سے آزاد ہوں۔ اس لئے تو میں اپنی بہن کے سہاگ کو اجاڑنے، اپنی ماں کی گود خالی کرنے، اپنے ضعیف باپ کو زندگی کے آخری سہارے سے محروم کرنے، بچوں کے سر سے باپ کے سایہ کو ختم کرنے، بہن سے اس کے سر پر شفقت کا ہاتھہ پھیرنے والے بھائی کو چھیننے کے مذموم اور گھناؤنے شغل کو اختیار کر بیٹھا ہوں۔ جو دھرتی ماں کی طرح مجھے غذا، پانی، لباس، رہائش اور کروڑوں افراد کے مقابلہ میں زندگی کی بہتر سہولتیں اور آسائش فراہم کرتی ہے میں خون ناحق سے اس کو ناپاک کرنے میں لگ گیا ہوں میں اپنی دھرتی کو اس کے اپنے ہی معصوم اور بے گناہ بچوں کے خون کی سرخ چادر اوڑھا کر اسے اذیت میں مبتلا کرنے پر تل گیا ہوں۔ اب میں بے گناہ کو تڑپتا دیکھہ کر رقصاں ہوتا ہوں۔ بہتا خون دیکھہ کر مجھے اب بے پایاں خوشی ہوتی ہے۔

شاید میری عقل پر پردہ پڑگیا ہے۔ عصبیت کا ، خود غرضی وار تنگ نظری کا۔ شاید میری سماعت ور بصارت کی قوتوں کو سلب کرلیا گیا ہے۔ اسی لئے تو بے گناہ مارے جانے والے کے عزیز و اقارب کی کلیجہ شق کرنے والی آہ و بکا میں سن نہیں پارہا ہوں اور ضعیف والدین کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں اور اجڑے سہاگ اور یتیمی کے غم سے نڈھال عورتوں اور بچوں کی تباہ حال مجھے نظر نہیں آتی ہے۔ میں یہ خونریزی اور ظلم و ستم سندھ سے محبت اور عقیدت کے نام پر کررہا ہوں۔ یعنی ماں سے محبت اور عقیدے کے نام پر میں اس کی اور اس کی نسلوں کی دنیا اجڑے دے رہا ہوں میں حقوق کے نام پر لوگوں کو جینے کے حق سے محروم کئے جارہا ہوں۔ سندھ کی عظمت کو چار چاند لگانے کا دعویٰ کر کے میں اس صوبہ کو علاقہ کا سب سے زیادہ بدنام اور غیر محفوظ خطہ میں تبدیل کئے دے رہا ہوں۔ روزگار کے بہتر اور زیادہ مواقع کی خاطر میں یہاں روزگار کے موجود مواقع اور ذرائع ہی کو ختم کرتا جارہا ہوں۔ جن کارخانوں کی چمنیوں کے دھویں سے لاکھوں غریبوں، ان پڑھ اور تعلیم یافتہ لوگوں کے چولہے جلتے ہیں میں ان کارخانوں کی چمنیوں ہی کو بے جان بنانے چلا جارہا ہوں ۔ حصول تعلیم کے لئے بہتر سہولتوں کے نام پر تعلیمی اداروں کو اسلحہ خانوں اور عقوبت خانوں میں تبدیل کرکے صوبہ کو جہالت کے تاریک غار میں دھکیلنے کو پورا پورا اہتمام کرچکا ہوں۔ باغوں کو کاٹ کر ، لہلہاتے کھیتوں کو تباہ کرکے اور کھلیانوں کو جلا کر سندھ کو بنجر اور یہاں کے لوگوں کو بھوک اور افلاس کی لعنت کا شکار بنانے کے لئے میدان ہموار کرچکا ہوں۔ جب سندھ کی زمین بانجھہ ہوجائے گی، جب یہاں کے کارخانوں کی چمنیاں دھواں چھوڑنا بند کردیں گی۔ جب یہاں ہر قسم کی اقتصادی سرگرمیاں بند ہوجائیں گی، جب زمیں کا سینہ چیر کر فصلیں اگانے والے نہروں کا پانی کھولنے والے ، سڑکیں بنانے والے اور بیل گاڑیوں اور سڑکوں پر ادھر سے ادھر سامان لانے اور لے جانے والے اغوا اور قتل کے ڈر سے گھروں میں بیٹھہ رہیں، جب یہاں جہالت کا مہیب اندھیرا چھا جائے گا تو پھر سندھ میں رہ ہی کیا جائے گا، مجھے کوئی بے غیرتے کہے یا بے شرم اور بے حیا یا احسان فراموش، مجھے تو اپنے صوبہ سے امن، پیار اور محبت کا انتقام لینا ہے، جو صدیوں سے وہ میرے ساتھہ کرتا آیا ہے، میں اسے اس کی نیکی کی اذیت ناک سزا دینا چاہتا ہوں، سو وہ میں اسے دے رہا ہوں۔

آخر میں رازکی ایک بات بتاتا جاؤں۔ شاید لوگ سوچیں ، سمجھیں اور خود کو اور اس صوبہ کو عذاب سے بچالیں۔ وہ راز کی بات یہ ہے کہ ظالم اور قاتل نہ مہاجر کے دوست ہیں نہ سندھ کے ہمدرد، انہیں نہ پنجابی سے محبت ہے ، نہ پٹھان سے اور نہ بلوچی سے وہ تو آپس میں ایک دوسرے کے ہمدرد مونس ہیں ، وہ آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ ان کی عادات و اطوار یکساں ہیں۔ ان کا کوئی مذہب نہیں، ان کی کوئی قومیت نہیں۔ ان کا مسلک اور مذہب اور قومیت فقط قتل و غارت گری ہے وہ صرف گولی کی بولی بولتے ہیں۔ انہیں تو صرف خون بہانا ہے۔ کس کا اور کہاں اس سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں بس انہیں اگر دلچسپی ہے تو اس سے کہ بے گناہوں کی لاشیں تڑپتی رہیں۔ خون بہتا رہے اور سندھ کی فضاؤں میں آہوں اور سسکیوں کے نغمے بکھرتے رہیں اور وہ ان نغموں پر رقص کرتے رہیں۔ جس طرح آنسوؤں اور مسکینوں کی کوئی زبان نہیں ہوتی ، جس طرح خون کے رنگ میں فرق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ان قاتلوں اور ظالموں کی کوئی زبان نہیں ہوتی وہ تو صرف قاتل ہیں ، ظالم ہیں لیکن جب تک عام لوگ ان کو ان کے اصلی روپ میں پہچانیں گے نہیں اس وقت تک ان کا کھیل جاری رہے گا۔ وہ یونہی تڑپتی لاشوں پر رقص کرتے رہیں گے اور عام آدمی گھروں میں سہما بیٹھا رہے گا۔ کیا ہم سب ہی سوچنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔

No comments:

Post a Comment