راجیوگاندھی پر قاتلانہ حملہ ایک ڈرامہ

روزنامہ نوائے وقت01 اکتوبر 1986ء

2 اکتوبر کو بھارت کے دارالحکومت میں گاندھی جی کی سمارھی پر وزیر اعظم راجیوگاندھی پر قاتلانہ حملہ کی خبر ساری دنیا میں بڑی تشویش کے ساتھہ سنی گئی ۔ پاکستان کے صدر جنرل ضیا الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے اس حملہ میں محفوظ رہنے پر راجیوگاندھی کو مبارکباد کے پیغام میں اپنے اطمینان کا اظہار بھی کیا لیکن پاکستان عوام کے خدشے کے عین مطابق بھارتی حکومت نے قاتلانہ حملہ کی منصوبہ بندی بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈال دی اور اپنی دیرینہ فطری خباثت کا ثبوت دیا جس کا مظاہرہ بھارتی حکومت شروع دن سے بڑی مستقل مزاجی کے ساتھہ پاکستان کے بارے میں کرتی رہی ہے۔

اس قاتلانہ حملہ کی تفصیلات پڑھتے ہی پہلا اور آخری تماشہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھہ ایک ڈرامہ کا حصہ تھا راج گھاٹ پر اسٹیج کیا گیا لیکن اس کی تیاری میں بھارت کی اعلٰی ترین قیادت نے خود حصہ لیا ایک ایکٹ کا یہ ڈرامہ اپنے تین مذموم مقاصد رکھتا ہے اول پاکستان دشمنی کو مزید ہوا دینا ، دوئم راجیوگاندھی کی گرتی ہوئی ساکھہ کو بچا کر بھارتی عوام کی حمایت حاصل کرنا اور سوئم امریکہ اور روس کو یہ باور کرانا کہ پاکستان ، بھارت سے مخالفت یں اسقدر آگے بڑھ گیا ہے کہ وہ اب قاتلانہ حملے تک کروانے لگا ہے۔

قاتلانہ حملہ کے سلسلہ میں بھی تین اہم نکات ابھر کر سامنے آتے ہیں پہلا خود قاتلانہ حملہ کی تفصیلات دوسرا حملہ آور کی پاکستان میں تربیت اور تیسرا حملہ سے ایک روز پہلے کراچی اور حیدرآباد میں افواہ ۔ آئیے ذرا ان نکات پر غور کرتے ہیں۔

قاتلانہ حملہ کی تفصیلات:

مختلف ذرائع ابلاغ سے جو تفصیلات اس واقعہ سے متعلق جاری کی گئی ہیں ان سب کے یہاں دہرانے کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ہی ضرارت ملزم کے ہتھیار اس طریقہ واردات اور اعترافی بیان کو ہی زیر غور لا کر حقیقت کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔

واقعات کے مطابق ملزم راج گھاٹ پر جہاں 2 اکتوبر کو وزیر اعظم پر قاتلانہ حملہ کیا گیا 24 گھنٹے قبل ہی جھاڑیوں میں چھپ گیا تھا ملزم کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی موجود تھا اس لئے راجیوگاندھی کے وہاں پہنچنے پر پولیس کے بیان کے مطابق گولی چلائی اور جھاڑیوں میں چھپ گیا پھر وزیر اعظم جب واپس جانے لگے تو ملزم نے دو تین فائر کئے یہ فائر ایک سو فٹ کے فاصلے سے دیسی ساخت کے ایک ناقص ہتھیار سے کئے گئے اور پھر پولیس کے للکارتے ہی ملزم نے بغیر کسی مزاحمت کے خود کو پولیس کے حوالے کردیا اسے ایک ہندو نوجوان کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ لیکن دوسرے ہی روز اسے ایک دہشت گرد سکھہ نوجوان کی حیثیت سے شناخت کیا گیا جس نے دہشت گردی کی ٹریننگ پاکستان میں حاصل کی۔ دو تین روز بعد سکھہ نوجوان کو بھی اس سازش کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ان لوگوں نے بھی اس جرم میں شرکت کا اعتراف بلا حیل و حجت کرلیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جدید ہتھیاروں سے لیس بھارتی وزیر اعظم کے سینکڑوں محافظوں اور کمانڈوز کی موجودگی میں ملزم کس طرح وہاں گولیاں چلانے کے بعد بھی چھپا رہا اور اسے نہ تو تلاش کیا گیا اور نہ ہی حفاظتی انتظامات کو مزید سخت بنایا گیا جب وزیر اعظم واپس جانے لگے تو ملزم نے دوبارہ گولیاں چلائیں لیکن اس مرتبہ بھی پولیس نے ملزم کو للکارا اور اس نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔

لڑتے ہیں اور ہاتھہ میں تلوار بھی نہیں

کے مصداق ملزم ایک معمولی سا ہتھیار اور چند گولیاں لے کر ایک ایسے شخص کو قتل کرنے جاتا ہے جس کی حفاظت کے لئے اعلٰی تربیت یافتہ سینکڑوں کمانڈوز پولیس اور دیگر اداروں کے افراد مامور ہیں اور وہ گولیاں بھی اتنے فاصلے سے چلاتا ہے کہ کسی بھی شخص کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا کیا یہ سب کچھہ بچوں کا کھیل معلوم نہیں ہوتا ملزم کا مقصد فی الحقیقت بھارتی وزیر اعظم کو نشانہ بنانا ہی تھا تو اس کے لئے اپنے ہی ملک میں جدید ترین اور مہلک ہتھیاروں کا حاصل کرنا کوئی ایسا مشکل کام نہ تھا جبکہ بھارت میں ایسے لوگوں کی تعداد کی کمی نہیں جو راجیوگاندھی کی جان لینا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتےہیں۔

دراصل ملزم کو ناقص ہتھیار دینے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ کسی کو نشانہ نہ بنا سکے اور حفظ ماتقدم کے طور پر اس کو اتنے فاصلے پر چھپایا گیا کہ وہ کسی لمحہ دیوانگی سے مغلو ہوکر حقیقت میں قتل کرنے کا آمادہ بھی کرلے تب بھی وزیر اعظم اور دوسرے مہمان اس کی زد سے پوری طرح محفوظ رہیں اس پورے ڈرامے کے دوران پریس یا حفاظتی دستے کی طرف سے جواب میں گولیاں چلانے کی بھی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

پاکستان میں تربیت:

قاتلانہ حملہ میں ملوث نوجوان نے پہلے ہی مرحلے پر انکشاف کیا کہ اس نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے اور یہ کہ وہ چند ماہ پہلے ہی پاکستان سے بھارت آیا ہے ۔ بھارت ایک تسلسل کے ساتھہ یہ الزام تراشیاں کررہا ہے کہ پاکستان میں سکھہ حریت پسند افراد کو بھارت میں تخریب کاری کے لئے تربیت دی جارہی ہے بھارت یہ بھی دعوٰی کرتا ہے کہ اس کے پاس اس سلسلے میں ٹھوس دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں لیکن پاکستان کی مسلسل تردید اور ثبوت پیش کرنے کے مطالبہ کے باوجود آج تک اپنے دعوے کے ثبوت میں پاکستان کی چڑیا کا بچہ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں بھارتکے ایک لیڈر ڈاکٹر سبرامینم سوامی نے بھی بھارتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ یہ اقبالی بیانات کے سوا اور کچھہ بھی نہیں اور اقبالی بیانات حاصل کرلینا کسی بھی ملک کے لئے قطعی مشکل کام نہیں ہے اس بنا پر پاکستان میں ملزم کی تربیت پانے کا بیان بھی بھارتی پولیش بلکہ بھارتی قیادت کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے عین مطابق ہے۔

کراچی میں افواہ:

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کو کراچی اور حیدرآباد میں افواہ گردش کرنے لگی تھی کہ بھارتی وزیر اعظم پر نئی دہلی میں قاتلانہ حملہ ہوا ہے ملزم کےپاکستان میں تربیت حاصل کرنے کے اقبالی بیان کے علاوہ بھارت نے اس افواہ کو بھی بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف الزام تراشی کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ بادی المنظر میں یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوئی ہے کہ ایک دن قبل کراچی اور حیدرآباد میں افواہ کے طور پر جو بات پھیلائی گئی دوسرے ہی دن نئی دہلی میں اس کے مطابق واقعہ پیش آیا۔

اس افواہ کی حقیقت کیا ہے۔ اس لئے کہ یہ منصوبہ نئی دہلی میں اعلٰی سطح پر بنایا گیا تھا۔ یہ ضروری تھا کہ پاکستان کے کسی شہر میں ایک روز پہلے ہی اس نوعیت کی افواہ پھیلائی جائے تاکہ دوسرے دن اس کے مطابق جب ڈرامہ اسٹیج کیا جائے تو مذموم مقاصد کے حصول میں آسانی پیدا ہوجائے۔ کراچی میں یہ کام بھارتی سفارتخانہ اور سندھ میں موجود بھارتی ایجنٹوں اور کرایہ کے سیاسی کارکنوں کے ذریعہ باآسانی کیا جاسکتا تھا اور ساری دنیا مانتی ہے کہ افواہ کی رفتار ہوا سے بھی تیز ہوتی ہے اس لئے بھارتی سفارتخانہ کے ذریعہ یہ خدمت لینے میں کوئی مشکل پیس نہیں آئی لیکن اس سلسلے میں ایک بنیادی غلطی بھارتی قیادت سے یہ ہوگئی کہ یہ افواہ کراچی اور حیدرآباد میں پھیلائی گئی جبکہ اس علاقے میں پاکستان کی وزارت خارجہ، وزارت دفاع اور اینٹیلی جینس کے مراکز قائم نہیں ہیں۔ تمام مراکز اسلام آباد میں کام کررہے ہیں قتل کی اگر کوئی سازش پاکستان میں تیار کی جاتی تو یہ کام اسلام آباد ہی میں ممکن تھا۔ اگر وہاں اس نوعیت کی افواہ پھیلتی تو بھارت کے الزامات میں وزن ہوسکتا تھا پھر یہ بھی سوال ہے کہ کیا اس قسم کی سازش اس طریقے پر کی جاتی ہے کہ منصوبہ سے پہلے ہی اس طرح افشاں ہوجائے پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دو سال قبل وزیر اعظم کے اپنے گھر میں خود ان کے محافظوں نے قتل کا منصوبہ بنایا اور آزادی کے ساتھ اس پر عملدرآمد ہوگیا اور کسی کو اس کی بھنک تک نہ ہوئی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نئی دہلی میں جرم کرنے کے لئے منصوبہ پاکستان میں تیار کیا جائے ملزم بھارت کے دارالحکومت میں موجود ہو اور وہ بھی تین ماہ قبل ہی وہاں پہنچا ہو تو بات یہاں اس طرح پھیل جائے لیکن بھارت کی قیادت نے خود یہ منصوبہ مرتب کیا تھا اس لئے یہاں افواہ پھیلائی گئی تاکہ پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا جواز پیدا کیا جاسکے۔

بھارتی حکومت کا اس افواہ سے کوئی تعلق نہیں تھا تو راجیو گاندھی کی حفاظت کے سلسلے میں مزید اقدامات کیوں نہیں کئے گئے جبکہ اس افواہ سے متعلق خبر پاکستان کے اخبارات میں بھی شائع ہوچکی تھی لیکن اس لئے کہ یہ ڈرامہ کا حصہ تھا پہلے ایک دو روز تک اس سلسلے میں کچھہ نہ کہا گیا اور نہ ہی کیا گیا لیکن پھر قونصل خانہ کی رپورٹ کی بنیاد پر افواہ بھی سازش کا حصہ ٹھہری۔

اس ڈرامہ کی ضرورت:

اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ بھارتی قیادت کو یا حکمران پارٹی کو اپنے وزیر اعظم پر قاتلانہ حملہ کا ڈرامہ رچانے کی آخر ضرورت کیا تھی؟ اس کا جواب تلاش کرنا قطعی مشکل نہیں ہے ۔ بھارت کے حالات پر ایک نظر ڈالئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے ۔ مشرقی پنجاب میں بھارت مخالف مظاہرے اور پاکستان اور رائے شماری کی حمایت میں جلسے جلوس روز کا معمول بن چکے ہیں۔ جنوب میں تامل ناڈو تحریک جاری ہے، بہادر گورکھے بھی خودمختاری کے حصول کے لئے اٹھہ کھڑے ہوئے ہیں۔ آسام کی آگ پر بھی قابو نہیں پایا جاسکا ہے دوسرے علاقوں کے حالات بھی زیادہ بہتر نہیں ہیں مسلمانوں کے خلاف آئے دن فسادات ایک معمول بن چکے ہیں اور برسراقتدار پارٹی کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے ۔ راجیوگاندھی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں وہ اپنی کابینہ میں بار بار تبدیلی کرتے رہتے ہیں لیکن کسی پر اعتماد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اپنے غم زاد اور اسکول اور کالج کے ساتھیوں کو اپنے ارگرد جمع کررہے ہیں نتیجتاً دوسرے سیاستدان سے نالاں ہوتے جارہے ہیں ۔ راجیوگاندھی اپنی مقبولیت کھوتے جارہے ہیں ۔ انتہا پسند ہندو بھی ان سے زیادہ خوش نہیں ہیں حالانکہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہندوستان میں ڈھائی ہزار بے گناہ اور نہتے سکھوں کو قتل کرنے کے بعد ہندوؤں کے یہ طبقے بجا طور پر پر امید تھے کہ راجیو اب ان کے دام میں پھنس جائیں گا لیکن دوسری قوتیں بھی بھارت میں کافی طاقتور ہیں ۔ خواہش اور کوشش کے باوجود ان انتہا پسند ہندوؤں کی کھل کر مدد اور حمایت کرنے سے معذور ہیں۔

پھر بھارت کے تمام پڑوسی اس سے ناخوش ہیں یا خوفزدہ ہیں۔ پاکستان اور سری لنکا کا تو براہ راست بھارتی قیادت کی تنقید کا نشانہ ہیں لیکن نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش کے بھی بھارت سے اچھے تعلقات نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی ریاست میں بھی بے چینی کے آثار پائے جاتے ہیں۔

حال ہی میں ہونے والے بین الاقوامی اجتماعات میں پاکستان کی طرف سے کشمیر کے حوالے سے بھی بھارت بوکھلا اٹھا ہے حالانکہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ کی حیثیت سے تاحال اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کے واقعہ اور ہرارے میں جناب کے ۔ ایچ۔ خورشید کی موجودگی کے بارے میں اوٹ پٹانگ بیانات سے راجیو گاندھی کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سامان پیدا ہوچکا ہے پھر راجیوگاندھی فطرتاً سیاستدان نہیں ہیں ۔ انہیں کھینچ کر میدان سیاست میں لایا گیا تاکہ نہرو خاندان کی بادشاہت قائم رکھی جاسکے ایسے حالات میں راجیو گاندھی کا مشتعل ہو کر غیر سیاسی قدم اٹھانے اور غیر مدبرانہ بیانات دینے قطعی تعجب خیز نہیں۔

پاکستان میں پی پی کی مخالفانہ سیاست بھی دم توڑ رہی ہے اور بھارت نے پی پی کی قیادت سے جو توقعات وابستہ کی تھیں وہ اب ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے اندر ختم ہوچکی ہیں اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی قیادت میں پاکستان کی موجودہ حکومت کو استحکام مل رہا ہے اس طرح راجیو گاندھی کی جھنجھلاہٹ قابل فہم ہے۔ پھر امریکی وزیر دفاع اور روسی لیڈر کے دورۂ بھارت کے موقعہ پر بھی بھارتی قیادت خود کو پاکستان کے مقابلے میں مظلوم ثابت کرکے مزید امداد اور مراعات حاصل کرنے کی خواہاں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ امریکن کے طیارے میں دہشت گردی مشرقی پنجاب میں مداخلت اور اب وزیر اعظم پر قاتلانہ حملے کے تمام شاخسانے پاکستان کو عالمی برادری میں یکہ و تنہا کرکے اس پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے خواب کی تکمیل کا ایک حصہ ہیں اور یہ خواب بھارت 40 سال سے دیکھہ رہا ہے۔ لیکن الحمدللہ ہر بار بھارت کا طمانچہ اسکی کے منہ پر پڑتا ہے۔

ان حالات و واقعات کی روشنی میں یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ راجیو گاندھی پر 2 اکتوبر کے قاتلانہ حملے کا پورا ڈرامہ بھارت کی اعلٰی ترین سطح پر تیار کیا گیا تھا اور اس ڈرامے کے کردار کے طور پر ملزم کے علاوہ کراچی میں بھارتی قونصل خانہ اور بھارت کے برسر اقتدار جماعت کی قیادت کا اہم ترین رول رہا ہے لیکن اس قسم کے حربوں سے بھارت کی کم ظرفی اور مسلمہ بین الاقوامی اصولوں سے انحراف کا ثبوت ہی ملتا ہے لیکن بھارت کی قیادت کو اس بات کا خیال رکھا چاہئے کہ اس مرتبہ اگر اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو بھارت بھی صحیح سلامت نہیں رہ پائے گا اس لئے راجیو گاندھی کو چاہئے کہ وہ اس علاقے میں راون کا رول ادا کرنے کے بجائے امن و سلامتی کے لئے پاکستان کی پرخلوص کوششوں کا جواب اسی انداز میں دیں اس میں بھارت کا بھی بھلاہے اور پاکستان کے لئے بھی بہتری ہے اور علاقے کے تمام لوگوں کا مفاد بھی اسے سے وابستہ ہے۔

No comments:

Post a Comment