پاک بھارت تعلقات کے پس منظر میں نفسیاتی جنگ
روزنامہ جسارت جمعۃ المبارک ۳ ربیع الثانی ۱۴۱۰ھ 3 نومبر 1989 ء
اعصابی جنگ کے مقابلے میں نفسیاتی جنگ کے حربہ میں یقینی کامیابی مضمر ہوتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ جس قوم یا جماعت کو بھی زیر کرنا مقصود ہو، پہلے اس کی نفسیات اور اس کی کمزوریوں کا صحیح صحیح جائزہ لیا جائے اور پھر کامل ہوش مندی کے ساتھہ منصوبہ بندی کرکے اس پر اس قدر ہوشیاری کے ساتھہ عمل کیا جائے کہ ہدف کو یہ احساس تک نہ ہونے پائے کہ اس پر کس قسم کی جنگ مسلط کردی گئی ہے۔ نفسیاتی جنگ کے اس میدان میں دوسرے کو مغلوب بے اثر بلکہ زیر اثر اور تابع فرمان بناے میں جو کامیابی حاصل کی جائے گی وہ کامیابی فوج کشی یا اعصابی جنگ کے نتیجے میں حاصل کی جانے والی فتح مندی کے مقابلے میں زیادہ دیرپا اور مفید ثابت ہوگی۔ اندراگاندھی کے دوبارہ برسراقتدار آتے ہی پاکستان کے خلاف وہ اعصابی جنگ پھر سے شروع کر دی گئی جو مرار جی ڈیسائی کے دورحکومت میں بند کی جا چکی تھی لیکن اس بار بھارتی قیادت نے نفسیاتی حربوں کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کو رام کرنے کے بعد اپنا آلۂ کار بنانے کا منصوبہ بنایا۔
بھارت خاص طور پر کانگریس قیادت کو دوسروں کی آزادی اور جمہوریت صرف اس وقت تک عزیز ہستی ہے جب تک ان سے خود بھارت کا مفاد وابستہ ہو ورنہ تو گذشتہ 42 سالہ تاریخ بھارت کی آزادی اور جمہوریت نوازی کا منہ چڑانے کے لئے کافی ہے۔ " الذوالفقار" کی تحریک آزادی" اور " پی پی " کی تحریک جمہوریت کے لئے بھارت نے ہر طرح سے جو دست تعاون بڑھایا تھا اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر ان نے فوری طور پر پی پی کو استعمال کرنے کا عمل شروع کردیا اور جیسا کہ نفسیاتی جنگ میں شکست کا خاصہ ہے پی پی نے بلاچوں و چرا بھارت کے اشاروں پر چلنا شروع کردیا۔ افغانستان پر روسی قبضے کے بعد امریکہ نے پاکستان کے ہاتھہ ہتھیار فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے خلاف سب سے اونچی آواز میں بولنے والی پی پی پی کی شریک چیئرپرسن ہی تھیں اور جب جدید جنگی طیاروں کی خریداری کا مسئلہ تھا تب بھی ان کی بے چینی اور پریشانی بھارت سے سوا ہی تھی۔ وہ اور ان کے گماشتے امریکہ کے چکر لگا رہے تھے اور بھارتی حلقہ اثر سے تعلق رکھنے والے بالخصوص یہودی سینیٹروں سے التجائیں کررہے تھے کہ پاکستان کو یہ طیارے ہر گز نہ دیئے جائیں یعنی بھارت کی طرح پی پی پی کی بھی یہ سر توڑ کوشش تھی کہ پاکستان کو دفاعی لحاظ سے اتنا کمزور رکھا جائے کہ وہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کے قابل نہ رہے بلکہ یہ بھارت کے طفیلی ملک کی حیثیت حاصل کرلے تاکہ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی خالصتاً بھارت کی صوابدید پر منحصر ہو اور اس طرح پاکستان کے قتدار پر قبضہ کے امکانات روشن ہوجائیں ۔
بہرحال پی پی کی قیادت پر پوری طرح بھارتی حکمرانوں کا نفسیاتی جادو چل گیا اور ان دونوں کی سوچ میں بڑی حد تک ہم آہنگی پیدا ہوگئی اور اس کے مظاہرے گذشتہ سال 2 دسمبر کو پی پی کی شریک سربراہ کا وزارت عظمٰی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتے رہے ہیں ۔ کوشش کے باوجود بھارتی قیادت ان کے وزیر اعظم مقرر ہونے پر اپنی خوشی اور مسرت کو چھپانے میں ناکام رہی۔ سارک سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے آنے والے چھہ سربراہوں میں دو بادشاہ اور تین صدور شامل تھے لیکن بھارتی وزیر اعظم کا جس والہانہ اور شاندار طریقے پر استقبال کیا گیا وہ مہمان داری کے مسلمہ بین الاقوامی آداب اور اصولوں سے انحراف اور دوسرے مہمانوں کی توہین کے مترادف تھا۔
مسئلہ افغانستان پر نوسال تک خاموشی اختیار کرکے بھارت روسی یلغار کی حمایت کرتا رہا لیکن اب پاکستانی حکمراں اس بات سے اس مسئلہ پر مشورہ حاصل کر رہے ہیں باالفاظ دیگر جنگ کی حکمت عملی دشمن کے مشورہ پر مرتب کی جارہی ہے۔ دولت مشترکہ میں دوبارہ شمولیت پر حکمراں پارٹی میں بڑی بغلیں بجائی جارہی ہیں لیکن اس بات کی وضاحت بھی ہونی چاہئے کہ اس سلسلہ میں بھارت کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے کیا یہ ضمانت نہیں دی گئی کہ دولت مشترکہ کی رکنیت حاصل کرنےکے بعد بھارت کو پاکستان جیسے اہم ملک کی مکمل حمایت حاصل ہوگی؟ پی پی کی قیادت اس پر بھی نازاں ہے کہ سات ماہ کے اندر اندر وہ بھارتی وزیر اعظم کو دو مرتبہ اپنے یہاں بلانے میں کامیاب ہوگئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی خوددار اور امن پسند قوم کے لئے ان دوروں میں فخر و انبساط کے نہیں توہین اور تضحیک کے پہلو نمایاں ہیں راجیوگاندھی کے دورۂ پاکستان کے فوراً بعد دہلی سے نشر ہونے والے ایک پروگرام میں وہاں کے ممتاز صحافی اور دانشور اس بات پر متفق تھے کہ " بھارت اور پاکستان ماں جائے (سگے بھائی) ہیں۔ ماں جائے الگ بھی ہوتے ہیں لیکن وہ بیچ میں دیوار تو کھڑی نہیں کرلیتے " باالفاظ دیگر بھارت ماتا " کے دونوں بچے " اکھنڈ" ہوکر رہیں لیکن ہمارے ایک وفاقی وزیر اسی خیال کو ان سے بھی پہلے ان الفاظ میں پیش کرچکے ہیں۔ " ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ ثقافت اور تاریخی مقامات مشترک ہیں" اکبر الٰہ آبادی نے غالباً ایسے ہی موقعوں کے لئے کہا تھا۔
انہی کے مطلب کی کہہ رہاہوں زبان میری ہے بات انکی ۔ ۔ ۔ ۔
انہیں کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میری ہے رات انکی ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن پی پی کی وزیر اعظم اس دوڑ میں بھی سب سے آگے ہی رہیں" (پاک) پنجاب بھارتی پنجاب میں دہشت گردی کا ذمہ دار ہے۔" یہ بیان کس بھارتی وزیر اعظم نے ان کے کسی وزیر سفیر سےنہیں بلکہ پاکستان کی وزیر اعظم سے منسوب ہے۔ اس سے پہلے یہ خبریں تو تواتر کے ساتھہ آتی رہیں کہ میاں نواز شریف کشمیر اور افغانستان کے بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں اس لئے بھارتی وزیر اعظم انہیں پنجاب کے وزیر اعلٰی کی حیثیت سے سند نہیں کرتے۔
یہ بات بہرحال سب کو اچھی طرح سمجھہ لینی چاہئے کہ نفسیاتی شکست اگر کھائی ہے اور " معمول" کا کردار اختیار کیا ہے کہ وہ تو صرف پی پی کی قیادت ہے پاکستان کے غیور اور خود دار عوام تو بشمول بھارت کسی بھی ملک کی بالادستی قبول کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں وہ اور انکے قائدین شروع دن سے اپنے تمام پڑوسی ملکوں خاص طور پر بھارت کے ساتھہ دوستی اور پائیدار اور دیرپا امن کے لئے دل سے خواہش مند اور کوشاں رہے ہیں۔ لیکن یہ دوستی اور امن پاکستان کےمفادات اور اس کا سودا کرکے نہیں بلکہ بقائے باہمی اور برابری کے ان ہی اصولوں کے مطابق ممکن ہے جو بابائے قوم حضرت قائد اعظم نےابتداء ہی میں مقرر فرمادیئے تھے۔
11 مارچ 1948ء کو سوئیزرلینڈ کے ایک صحافی کے اس سوال کےجواب میں کہ " کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کبھی اپنے اختلافات اور تنازعات پر امن طور پر حل کرلیں گے؟ قائد اعظم نے فرمایا تھا۔ " ہاں یقیناً۔ بشرطیکہ حکومت بھارت احساس برتری ختم کردے۔ پاکستان کو برابر کا سمجھے اور اصل حقائق کا سامنا کرلے۔"
No comments:
Post a Comment