پی پی کی حکومت کا ایک سرسری جائزہ
روزنامہ نوائے وقت بدھ 13 اکتوبر 1989ء
ذاتی، گروہی، قبائلی، علاقائی اور جماعتی مفادات پر قومی مفادات کو ہر حال میں ترجیح دینا حب وطن ہی نہیں بلکہ کامیاب حکمرانی کے لئے بھی ایک لازمہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ حکمران اپنے اپنے عوام سے بلاامتیاز محبت اور ملک میں قائم بنیادی اداروں کا پورا پورا احترام کرتے ہیں وہ اپنے مذہب اور عوام کی ثقافت کا خیال رکھتے ہیں وفاق میں قائم پی پی کی حکومت پہلے دن سے عوام کے جذبات ، آئین کے تقاضوں، مقننہ کی آراء، عدلیہ کے فیصلوں، افواج پاکستان، تحریر و تقریر بشمول صحافت کی آزادی اور انتظامیہ کی غیر جانبداری کا احترام کرنے کی یقین دہانی کرواتی رہی ہے۔ اس لئے جائزہ لینا بے رمل نہ ہوگا کہ اس مدت میں حکمراں جماعت اپنے دعوؤں میں کس حد تک سچی ثابت ہوئی ہے۔ یہ بات بہرحال واضح ہوجان چاہئے کہ یہاں نیتوں کو زیر بحث لانا مقصود نہیں کہ نیتوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے ہم تو محض اعمال ہی کی روشنی میں کوئی نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔
مملکت:
بحیثیت مسلمان ہم نہ تو کسی خاص خطہ زمین سے محبت کے پابند ہیں اور نہ نفرت کے۔ ہماری محبت اور نفرت کا معیار تو دین اسلام کے اصول اور نظریات ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے۔ اس لئے اس کی ایک ایک انچ زمین ہمارے لئے مقدس ہے۔ اس سے عقیدت و محبت اور اس کا احترام و وقار مسجد کی طرح ہم پر لازم ہے لیکن بدقسمتی سے آج مرکز میں جس پارٹی کی حکومت قائم ہے اس پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش میں شریک ہونے کا الزام ہے۔ اس پارٹی نے پہلی مرتبہ برسر اقتدار آنے کے چند ماہ بعد ہی 1972ء میں صوبہ سندھ میں لسانی فسادات کی سرپرستی کرکے ملک کو اس طرح مفلوج بنانے کی کوشش شروع کردی تھی کہ ہمیشہ کے لئے اسے اپنے زیر اثر بنالیا جائے۔ پی پی نے آج بھی اپنی اس پرانی روش کو تبدیل نہیں کیا ہے اور ملک کے اکثریتی صوبہ پنجاب پر پہلے تو بھارتی پنجاب میں مداخلت کا الزام لگا کر بحیثیت مجموعی پورے ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگایا اور اب چند افسروں کے تنازعہ پر وزیر اعلٰی پنجاب میاں نواز شریف پر یکطرفہ اعلان آزادی کا الزام لگادیا ہے۔ اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس قسم کے الزامات لگانے کا فریضہ وزیر اعظم بنفس نفیس خود سرانجام دیتی ہیں۔ آئین صوبوں کو بنک قائم کرنے کا اختیار دیتا ہے لیکن پنجاب کی صوبائی حکومت نے اسمبلی سے صوبائی بنک کے قیام کی اجازت لی تو پی پی پی کی صوبائی اور مرکزی قیادت نے قومی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ قوم کو یہ باور کرانے کی سر توڑ کوشش کی گویا پنجاب کی حکومت نے وفاق سے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے اور پی پی کی وزیر اعظم نے اپنی طرف سے پنجاب کی حکومت کے اس ارادہ کا اضافہ بھی کردیا کہ نواز شریف ٹیلی ویژن اور ریلوے سے بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔
آئین:
آئین کسی بھی ملک کا ہو وہ عوام کے مساوی حقوق ، ان کے جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ آئین میں حکمرانی کے حدود و قیود کا تعین بھی ہوتا ہے عوام کے نمائندوں کا مرتب کردہ آئین ہر قسم کے احترام کا مستحق ہوتا ہے۔ ہمارے آئین کی خلاف ورزی کی سزا تو ویسے بھی موت ہے لیکن حقیقت اپنی جگہ ہے کہ پاکستان کا آئین ہمیشہ ہی ایک بے وقعت دستاویز سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرسکا۔ حکمراں جب چاہتے ہیں اس کی من مانی تشریح کرکے اس کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ وہ اس سلسلہ میں نہ توعدالتوں ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں نہ مقننہ سے مشورہ لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ آئین کے مطابق ملازمت اور تعلیم کے حصول کے مساوی حقوق کی ضمانت موجود ہے لیکن برسراقتدار آتے ہی پی پی کی وزیر اعظم نے آئین کو بالائے طاق رکھہ کر اعلان کردیا کہ ملازمتوں میں ترجیح کوڑے کھانے والوں کو دی جائے گی یہ کوڑے چاہے انہوں نے چوری، ڈکیتی ، قتل، زنا، دہشت گردی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ یا وطن دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بناء پر ہی کیوں نہ کھائے ہوں۔ اہلیت کے سوا کسی اور بنیاد پر کسی کو ملازمت دینا غیر آئینی ، غیر منصفانہ اور غیر اخلاقی عمل تو ہے ہی لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایسا کرکے اداروں کو تباہ کرنا بھی ہے اور اسی طریقہ سے ہر شعبہ زندگی میں رشوت ، سفارش اور بدعنوانیوں کو فروغ بھی حاصل ہوتا ہے جو معاشرہ کی بنیادوں کو دیمک کی طرح کمزار کردیتی ہیں۔
پنجاب اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے مسلسل مطالبہ کے باوجود مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کے معاملے میں اجتناب سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ پی پی پی کی حکومت آئین کی ہر اس دفعہ کو غیر ضروری اور خطرناک سمجھتی ہے جس سے اس کے اپنے مفادات پر زد پڑتی ہو۔ مشترکہ مفادات کی کونسل آئین کے مطابق قائم ایک ادارہ ہے لیکن وفاقی حکومت کے وزیر اور پی پی پی کے دیگر رہنما بار بار یہ کہہ کر اس کے اجلاس کے مطالبہ کو رد کرتے رہے ہیں کہ اگر مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس بلالیا گیا تو تباہی آجائے گی گویا آئین کی کسی دفعہ پر عمل تباہی کا باعث ہوگا۔ اس سلسلہ میں پیرس میں پیش آنے والے اس لطیفہ نما واقعہ کا ذکر بے عمل نہیں ہوگا جو کچھہ اس طرح ہے کہ ایک صبح ایک اخبار فروش آواز لگارہا تھا " پیرس میں زبردست تباہی ، پیرس میں زبردست تباہی" کئی لوگوں نے اخبار خریدا لیکن انہیں کہیں ایسی کوئی خبر نظر نہیں آئی تو ایک شخص نے اخبار فروش سے کہا ۔" میاں کیوں بے وقوف بنارہے ہو، اس میں تو ایسی کوئی خبر ہی نہیں؟" اخبار فروش نے چند سطروں کی ایک خبر پر انگلی رکھہ کر کہا " یہ رہی وہ خبر۔" خبر یہ تھی کہ " مقامی اسپتال میں ایک عورت نے چار جڑواں بچوں کو جنم دیا اور ان کا باپ میں ہوں۔" اخبار فروش نے کہا اور وہ پھر اپنے کام میں لگ گیا۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس کے سلسلہ میں پی پی کا معاملہ بھی کچھہ اسی نوعیت کا معلوم ہوتا ہے کہ بلاجواز صوبائی رابطہ کی کونسل قائم کردی ہے۔
موجودہ آئین صدر مملکت کو کئی معاملات میں اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرنے یا قدم اٹھانے کا اختیار دیتا ہے لیکن وزیر اعظم وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بضد ہیں کہ صدر مملکت کو کوئی بھی صوابدیدی اختیارات حاصل نہیں۔ وزیر قانون نے تو ایک بار یہ اعلان بھی کردیا تھا کہ آئین کے تحفظ اور اس کی تشریح کی ذمہ داری نہ صدر مملکت پر ہے نہ وزیر اعظم پر بلکہ یہ اختیار اور ذمہ داری وزارت قانون کو حاصل ہے۔ صدر مملکت کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کا مقصد ملک میں آئینی بحران پیدا کرکے اپنا مذموم مقاصد کا حصول ہے۔
عدلیہ:
عدلیہ کے احترام کا تقاضا ہے کہ اس کی شان میں خوشنما اور بھاری بھر کم الفاظ کی ادائیگی کے بجائے اس کے فیصلوں کو دل سے تسلیم کیا جائے چاہے ، یہ فیصلے اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں عدالت کے فیصلے سے اختلاف کی گنجائش عدالت کے آخری فیصلے سے پہلے تک موجود رہتی ہے اسی لئے نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف اعلیٰ عدالت کے دروازے کھٹکھٹانے کی اجازت ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مفر کا کوئی راستہ نہیں ہاں سزائے موت کی صورت میں صدر مملکت سے رحم کی گنجائش البتہ موجود ہے۔ موجودہ حکومت اکثر و بیشتر عدالت کے احترام کے دعوے تو ضرور کرتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تو ایک برسرکار جج کو گرفتار کرکے " احترام عدلیہ" کا ثبوت فراہم کیا گیا تھا اور اب موجودہ حکومت سپریم کورٹ تک کو " قاتل" قرار دے رہی ہے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق قتل کرکے جرم پر موت کی سزا دی گئی تھی لیکن پی پی پی کی وزیر اعظم اور ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اور لیڈر اس سزا کو "قتل" قرار دے کر بھٹو مرحوم کو " شہید" گردان رہے ہیں۔ ایسا کرنا عدالت کی صریح توہین ہی نہیں بلکہ مذکورہ فیصلہ کرنے والے فاضل منصف صاحبان کو بھی " بھٹو کے قتل" کا "شریک جرم" قرار دینے کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں متعلقہ عدالت کے جج صاحبان کیوں خاموش ہیں؟ یہ بات ناقابل فہم ہے۔
مقنّنہ:
عوام کے منتخب نمائندوں کے اس سب سے بڑے ادارہ کو مقنّنہ کہا جاتا ہے جو آئین کے مطابق قانون سازی اور ملک کے حالات وواقعات پر قومی نقطۂ نگاہ سے غور و خوض کرکے حکومت وقت کو صحیح مشورے دینے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ صوبائی مقنّنہ کا دائرہ اختیار صوبہ تک محدود رہتا ہے جبکہ مرکزی مقنّنہ کا دائرہ اختیار پورے ملک تک ہوتا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی کو بھی غیر نمائندہ قرار نہیں دیا جاسکتا نہ توقیر کے لحاظ سے ان میں کوئی کمتر یا برتر ہوتا ہے۔ پنجاب پاکستان کا ایسا اکثریتی صوبہ ہے جہاں میاں نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد کی مضبوط حکومت قائم ہے۔ نومبر کے عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد پر عوام کی بھاری اکثریت نے اعتماد کا اظہار کرکے پی پی پی سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا ہے لیکن " عوام عوام" کی رٹ لگانے والی وفاقی حکومت نے تاحال پنجاب کی مجلس قانون ساز میں میاں نواز شریف کی اکثریت کو تسلیم کرکے حقیقت پسندی اور عوام کے فیصلہ کے احترام کا ثبوت فراہم کرنے سے معذوری رہی ہے یہی نہیں بلکہ ائی جے آئی کے اراکین اسمبلی کو توڑ کر میاں نواز شریف کو وزرات علیا سے ہٹانے کے لئے دھن، دھونس اور دھاندلی کے تمام حربے آزمائے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ شاید ناتمام ہی رہے گا۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو توڑنے اور انہیں اپنی جماعتی وفاداریاں بدلنے کی ترغیب دینا غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہی نہیں بلکہ عوام کی کھلی توہین اور بددیانتی کی بھونڈی مثال ہے۔ یعنی بیانات کے ذریعہ سینٹ کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ادارے:
گر لفظ ادارہ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوسکتا ہے لیکن یہاں اس سے مراد وہ چند ادارے ہیں جن کا تعلق انتظامیہ سے ہے یا جو دستور کے تحت قائم کئے گئے ہیں۔ ادارے قائم کرنا یا تو بہت آسان ہے لیکن ان کو بااعتماد اور باوقار بنیاد فراہم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آزادی سے قبل جن اداروں پر عوام کا اعتماد قائم تھا ہم ان کا بھرم بھی برقرار نہ رکھہ سکے نئے اداروں کا تو ذکر ہی کیا ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ
ہر کہ آمد عمارت نو ساخت
مقنّنہ، عدلیہ اور انتظامیہ جیسے اداروں کے ساتھہ بھی زیادتی سے ہم باز نہیں آتے۔ آج ہماری انتظامیہ انتہائی کاہل اور بدعنوان ہے۔ اور اس کا کچھہ اگر بھرم باقی بھی تھا تو موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی پارٹی کے کارکنوں کو نوازنے کی غرض سے پارلیمنٹ بیورو قائم کردیا اور اب ہر گریڈ میں براہ راست بھرتی کے نام پر پبلک سروس کمیشن کو بھی نمائشی ادارہ بنا کر رکھہ دیا گیا ہے۔ ادنٰی ترین سطح کی ملازمت کھول دیئے گئے ہیں ایسی صورت میں کسی بھی ادارے پر عوام کا اعتماد قائم نہیں رہ سکتا اور پھر یہ ادارے بھی پارٹی ادارے بن کر رہ جائیں گے جہاں مخالفین اور غیر پارٹی افراد اپنے جائز کام کروانے سے بھی محروم رہیں گے۔ ائرپورٹ سیکیورٹی فورس تک میں پلیسمنٹ بیورو کے سفارشی بڑی تعداد میں بھرتی کرکے ہوائی اڈوں اور ہوائی سفر کو غیر محفوظ بنایا جارہا ہے۔ اس طرح ادارے بنتے نہیں بگڑتے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل دستور کے مطابق ایک مستقل ادارہ ہے لیکن موجودہ حکومت نے اس کو عملاً معطل کرکے رکھہ دیا ہے اس لئے کہ اس کا کوئی بھی رکن نہیں ہے اور ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اسے یونہی قائم رکھا جائے گا۔ آئی ایس آئی بڑا موثر اور فعال ادارہ تھا اسے متنازعہ بنا کر من مانے تبادلے کردیئے گئے اور اس کی حیثیت کو بدل کر رکھہ دیا گیا۔ ریلوے قومی ادارہ ہے لیکن اسے بھی پارٹی ہی کا ایک شعبہ بنا کر رکھہ دیا گیا۔ مخالفین کو سامان کی نقل و عمل کے لئے ویگنیں مہیا نہ کرکے قومی پیداوار ہی کو متاثر نہیں کیا جارہا بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی تنبیہ کی جارہی ہے کہ وہ یہاں صنعتیں قائم کرنے کی غلطی نہ کریں۔ یہ تمام باتیں قومی سوچ سے بعید محض انتقامی جذبہ ہی کا نتیجہ ہیں اور جب برسراقتدار جماعت انتقام لینے آجاتی ہے تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ٹرسٹ کے اخبارات کو پارٹی کا ترجمان بنادیا گیا۔ چھوٹے بڑے سرکاری ملازمین کو پارٹی کے ملازم کی جو حیثیت دی جارہی ہے صوبوں میں تعین وفاقی ملازمین کو غیر جانبداری اور دیانتداری کے ساتھہ اپنے فرائض کی ادائیگی کا موقع دینے کے بجائے وفاقی حکومت سے تعاون کرنے کی ہدایتیں دی جارہی ہیں اور حکومت سے مراد پی پی پی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پی پی کی موجودہ قیادت بھی پارٹی کے بانی کی اس سوچ کو عملی شکل دینے کے لئے اب تک کوشاں ہے کہ ڈپٹی کمشنر کو پارٹی کا ضلعی سربراہ ہونا چاہئے۔
فوج:
افواج پاکستان کی سب سے بڑی قوت اور دشمن کے مقابلہ میں اس کا سب سے مہلک ہتھیار وہ محبت اور تعاون ہے جو عوام کی طرف سے غیر مشروط طور پر اسے شروع سے حاصل رہا ہے۔ گو کئی کوتاہ بین لوگوں نے گذشتہ چند سالوں کے دوران اس کی حیثیت کو گرانے اور اسے کمزور رکھنے کی کوشش ضرور کی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ایسے عناصر کو ناکامی کا سامنا ہی کرنا پڑا۔ پی پی کی قائد وزیر اعظم بننے کے بعد اپنا طریقہ تبدیل کرکے افواج کے ساتھہ یک جہتی جیسے دن بھی منانے لگی ہیں لیکن قوم کو معلوم ہے کہ یہی صاحبہ کل امریکی سینٹ کے بھارت نواز اور یہودی اراکین کی خوشامد کرتی پھررہی تھیں کہ پاکستان کو جدید ہتھیار اور فوجی طیارے نہ دیئے جائیں اور ملک کے اندر پنو عاقل چھاؤنی کے قیام کے خلاف احتجاجی مہم چلارہی تھیں۔ اب برسراقتدار آنے کے بعد ظاہری تبدیلی کو قوم خوب سمجھتی ہے۔ بغاوت کی سازش کی خیالی خبروں کے ذریعہ البتہ فوج کے کردار کو متنازعہ بنایا جارہا ہے۔
صحافت:
پی پی کی سابقہ قیادت کی طرح موجودہ قیادت بھی تحریر و تقریر کی آزادی کے بلند بانگ دعوے تو خوب کرتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی پی کے دونوں دور صحافت اور اجتماع کی آزادی کے لئے سب سے زیادہ کھٹن ثابت ہوئے ہیں۔ گیارہ ماہ کے دوران بھی سندھ اور سرحد میں صحافیوں کی گرفتاری کے علاوہ اخبارات کے دفتروں پر قبضہ اور توڑ پھوڑ کے مظاہرے پی پی کے دعوؤں کو پول کھولنے کے لئے کافی ہیں پھر وفاقی حکومت نے بھی صحافیوں کو گرفتار کرکے اپنی جمہوریت نوازی کا ثبوت دے دیا ہے۔
اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پچھلے دنوں صوبائی اور مرکزی قیادت کے اشاروں پر اخبارات کے دفتروں پر حملے کئے گئے اور تشدد کے زور پر معذرت نامے شائع کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پی پی کا معیار جمہوریت یہی ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی کو بھی مخالفین کے کردار کشی کا ذریعہ بنا کر ان ذرائع ابلاغ کو پی پی کا شعبہ نشرواشاعت بنا دیا گیا ہے۔ فنانشل ٹائمز کی کرسٹینا لیب کا ملک سے اخراج بھی آزادی صحافت کی تضحیک کے مترادف ہے۔
عوام:
پاکستان میں "عوام" کا سب سے زیادہ کلمہ پڑھنے والی پی پی پی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوام کی سب سے زیادہ توہین بھی اسی پارٹی کے ہاتھوں ہوتی رہی ہے۔ 1985ء کے عام انتخابات میں رائے دہندگان کی بھاری اکثریت نے اپنی رائے کا اظہارکیا تھا لیکن پی پی کی موجودہ قیادت نے ان انتخابات کو تسلیم نہ کرکے ہمیشہ ہی عوام کی توہین کی ہے۔ پھر پنجاب میں آئی جے آئی اکثریت کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے حکومت کررہی ہے لیکن پی پی کی وزیر اعظم پنجاب کی حکومت کو تسلیم نہ کرکے پنجاب کے رائے دہندگان کی توہین کررہی ہیں۔ حزب اختلاف کو بحیثیت مجموعی جمہوریت دشمن یا ضیاء شہید کی باقیات قرار دے کر بھی عوام کے فیصلہ سے نفرت کا ثبوت دیا جارہا ہے۔ عوام کے مسترد افراد کو مشیر وغیرہ مقرر کرنا بھی لوگوں کا منہ چڑانے کے مترادف ہے ۔ پھر عوام کے خلاف دہشت گردی طیارے کو اغوا کرکے کئی دن تک مسافروں کو اذیت دینے اور عوام کے لیڈروں کو قتل کے ملزموں کو عزت و احترام کے ساتھہ واپس بلا کر ان کا استقبال کرکے ان کو مشیر اور افسر بکار خاص مقرر کرنا بھی عوام کی توہین ہے عوام کی توہین کی سب سے بڑی مثال بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کو اپنے وطن آنے کے راستے میں رکاوٹ ہے۔
پرچم:
پرچم اندرون ملک اور بیرون ملک قوم کی عظمت و وقار اور اس کی شناخت کی علامت ہوتا ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ اپنے قومی پرچم کو بلند رکھنے کی خاطر لوگوں نے کبھی کبھی اپنی جان کی پروا نہیں کی لیکن سکھر کے ہوائی اڈے کی عمارت سے پاکستانی پرچم کو اتارے جانے کے سنگین واقعہ کو پی پی کی حکومت نے جس طرح معمولی نوعیت کا واقعہ قرار دے کر جان چھڑانے اور مجرموں کو سزا سے بچانے کا اہتمام کیا ہے وہ اس کی عین نفسیات کے مطابق ہے پی پی کو پاکستان کے قومی پرچم سے زیادہ عزیز اور محترم پارٹی کا پرچم ہے اور جس کا ثبوت یہ ہے کہ وزیر اعظم اپنی سرکاری گاڑی پر پاکستان کے قومی پرچم کے مقابلے پر پی پی کا ترنگا لہرانا ضروری سمجھتی ہیں ۔ ایسا کرنا ملک اور قوم کی توہین کے سوا اور کچھہ نہیں۔
اسلامی تعزیرات کو ظالمانہ قرار دے کر اسلام کی توہین کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔ راجیوگاندھی کے دورۂ پاکستان پربغلیں بجا کر بھارت کی بالا دستی قبول کرنے کا تاثر دیا جارہا ہے جو پاکستان قوم کی توہین کے مترادف ہے۔ حکومت کی اعلٰی ترین سطح پر بھی کھل کر جھوٹ بولا جارہا ہے۔ گیارہ ستمبر کو قائد اعظم کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ڈرامہ کرنے والی وزیر اعظم اپنی پہلی سرکاری پریس کانفرنس کے موقعہ پر بابائے قوم کی تصویر کے بجائے عدالتی فیصلہ کے مطابق ایک قاتل کی تصویر آویزاں کرکے بانیٔ پاکستان کے ساتھہ اپنی " عقیدت" کا ثبوت دے چکی ہیں۔ اپنی ڈولتی ہوئی نیّا کو بچانے کے لئے صدر جارج بش کو مدد کے لئے پکار کر ملک میں بیرونی مداخلت کو دعوت دے کر ہماری قومی جمعیت کو صدمہ پہنچا چکی ہیں۔ افغان جہاد کو بھی موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور وہاں فتح کو شکست میں محض اس لئے بدلنے کی سازش کی جارہی ہے کہ اس کا سہرا ضیاء الحق شہید کے سر نہ بندھ سکے۔ سانحہ بہاولپور کے کئی جانباز جرنیلوں کی شہادت کا مضحکہ اڑا کر اپنے سینے میں سلگتے ہوئے منتقمانہ جذبات کو سرد کرنے کی کوشش کو بھی فوج دشمنی اور قوم دشمنی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہودی قوم کو پاکستان کی لابی کے لئے مقرر کرنے سے موجودہ حکومت کی یہودی نواز پالیسی کا پتہ چلتا ہے یہ اور اس قسم کے اور بھی کئی واقعات ہیں جو پی پی پی کے دعوؤں کی نفی کے ثبوت میں پیش کئے جاسکتے ہیں۔ جبکہ قوم ہر منتخب نمائندے سے بجا طور پر یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ جماعتی تعصبات سے بالاتر ہوکر ملک کی ترقی و خوشحالی اور اس کے استحکام اور قوم کے وقار اور اس کی عظمت کے لئے اپنے فرائض انجام دے گا۔
No comments:
Post a Comment