جمہوریت ، جمہوری روایات اور ہم
روزنامہ نوائے وقت منگل ۲۵ ربیع الثانی ۱۴۰۶ھ 7 جنوری 1986ء
ہمارے ملک میں برطانوی طرز کی پارلیمانی جمہوریت کی حمایت میں لکھنا اور بولنا آج کل ایک فیشن بن چکا ہے اور جو حضرات پارلیمانی جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ بس وہی خود کی (بزم خود) جمہوریت کے پرستار اور عوامی حقوق کے علمبردار سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے سیاستدان بدقسمتی سے کسی بھی طرز جمہوریت کے قائل نہیں ہیں انہیں تو صرف وہ طرز جمہوریت یا نظام حکومت پسند ہے جس میں اقتدار نہیں حاصل ہوسکے اب دیکھہ لیجئے کہ جمہوریت کے نام پر چلائی گئی نام نہاد تحریک کے لیڈروں کا طرز عمل فروری کے عام انتخابات کے سلسلہ میں کیا رہا ہے۔ پہلے تو انہوں نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی اور اب ان انتخابات کے نتیجے میں قائم اسمبلیوں وار پارلیمان کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، جبکہ کم از کم 3 فی صد رائے دہندگان نے ان انتخابات میں حصہ لیا آج کل کی مروجہ جمہوریت کی ابجد سے واقف ایک معمولی طالب علم بھی یہ بات خوب جانتا ہے کہ "
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
تاہم خامیوں اور برائیوں سے قطع نظر آئیے ذرا یہ دیکھیں کہ برطانوی پارلیمانی طرز کی جمہوریت کی کامیابی کس طرح ممکن ہے اور آیا ہمارے سیاستدان اس کے اہل بھی ہیں؟
سیاستدان حضرات تو خاص طور پر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہی ہوں گے کہ برطانیہ کے دستور کا بیشتر حصہ غیر تحریری ہے۔ یعنی وہ کسی دستور کی کتاب میں اس طرح منضبط نہیں جس طرح ہمارے یا دوسرے ملکوں کے دساتیر باقاعدہ دستور کی کتابوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بلکہ وہاں کی روایت ہی دستور کا سب سے بڑا اور اہم ماخذ ہیں اور ان روایات کی پشت پر عوام کی زبردست قوت ہے۔ چنانچہ کوئی حکومت ان روایات کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کرسکتی یہی وجہ ہے کہ وہاں جمہوریت کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ نہیں ہے۔ اب دیکھئے کہ اگر برطانوی پارلیمنٹ میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کو کسی مسئلہ میں یا قرار داد پر مساوی ووٹ ملیں تو اسپیکر اپنا اختیاری ووٹ ہمیشہ حزب اقتدار ہی کی حمایت میں استعمال کرتا ہے چاہے اسپیکر کا تعلق حزب اختلاف ہی سے کیوں نہ ہو پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر یا سب سے سینئر رکن کو اسپیکر منتخب کرلینا بھی وہاں کی ایک روایت ہے اور اس ضمن میں جماعتی تعلق کو خاطر میں نہیں لایا جاتا کسی وزیر یا ممبر کی طرف سے پارلیمنٹ میں غلط بیانی وہاں کی روایت کے منافی ہے اور اس سلسلہ میں چند سال قبل برطانوی کابینہ کے ایک رکن ڈاکٹر پروفیومو کا استعفاء ایک بڑا ثبوت ہے حالانکہ وزیر موصوف نے اپنے ذاتی کردار کے بارے میں غلط بیان دیا تھا لیکن خود ہی ایک ہفتہ بعد کابینہ سے مستعفٰی ہوگئے اور اپنی غلط بیانی پر معذرت چاہ لی۔ وزیر خزانہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ کے سلسلہ میں اگر افشائے راز کا الزام لگادیا جائے تو وزیر خزانہ مستعفٰی ہوجاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ایک یا دو ممبروں کی اکثریت کے ساتھہ حکومتیں چلانا بھی برطانیہ ہی کی روایت کا ایک حصہ ہیں اس سلسلہ میں نہ تو وہاں توڑ جوڑ ہوتا ہے اور نہ اراکین اپنی جماعتی وفاداریاں تبدیل کرکے حزب اقتدار یا حزب اختلاف کے ساتھہ سودے بازی کرتے ہیں انتخابات کے بارے میں بھی کوئی آئینی شق وہاں موجود نہیں ہے لیکن وقت مقررہ پر انتخابات میں کبھی فرق نہیں پڑتا ملکہ یا بادشاہ ذاتی پسند یا ناپسند سے قطع نظر اکثریتی پارٹی کے لیڈر ہی کو کابینہ بنانے کی دعوت دے گا اور یہ بھی دستور کی کتاب میں تحریر نہیں ہے۔ بادشاہ یا ملکہ کی طرف سے کسی بھی مسئلہ پر اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کیا جاتا بلکہ صرف سرکاری پالیسی کے مطابق ہی بیانات دیئے جاتے ہیں اور یہ سب کچھہ وہاں کی روایت ہی کے مضبوط پہلو ہیں۔
اب ذرا اپنے یہاں دیکھئے کہ روایات تو درکنار ہم تو دستور کے مندرجات ہی نہیں بلکہ پورے کے پورے دستور کو منسوخ اور معطل کردیتے ہیں اور ملک میں کسی جماعت یا سیاستدان کو اس کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے کی جرأت نہیں ہوتی اس کا مظاہرہ دیکھنے کے لئے پاکستان کے ابتدائی دور میں چلئے، الحاج خواجہ ناظم الدین پاکستان کے وزیر اعظم ہیں وہ پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت کے لیڈر اور پاکستان مسلم لیگ کے صدر ہیں۔ حال ہی میں بجٹ منظور کیا جاچکا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کو اعتماد حاصل ہے۔ لیکن گورنر جنرل غلام محمد ایک حکم کے ذریعے خواجہ صاحب کو مبزول کردیتے ہیں ۔ وزارت عظمٰی سے ایک ایسے شخص کو وزیر اعظم نامزد کردیتے ہیں، جو دستور ساز اسمبلی کا رکن بھی نہیں ہے وہ محمد علی بوگرہ ہیں جوامریکہ میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہے ہیں گورنر جنرل کے اس غیر آئینی اقدام پر ملک کے بیشتر مقامات پر اور خصوصاً اس وقت کے مغربی پاکستان میں مٹھائی تقسیم کر کے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور غلام محمد کو مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔ مسلم لیگ یا پارلیمنٹ اور خواجہ صاحب کی کابینہ کے کسی بھی رکن کی جانب سے اس غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدام کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی جاتی بلکہ مسلم لیگ نے محمد علی بوگرہ کو اپنا صدر دستور ساز اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی نے اپنا لیڈر بنایا اور خواجہ صاحب کی کابینہ کے بیشتر اراکین جذبۂ تشکرکے ساتھہ بوگرا کابینہ کی رکنیت قبول کرلیتے ہیں اور اسطرح ملک کی واحد سیاسی جماعت اور سیاستدانوں کی طرف سے غلام محمد کی کاروائی کی توثیق کردی جاتی ہے۔
آگے چل کر انہی غلام محمد صاحب نے ائین ساز اسمبلی اور پارلیمنٹ کو توڑ دیا۔ سیاسی جماعتیں ان کے لیڈر اور اراکین اسمبلی خاموش تماشائی کا رول ادا کرتے ہیں۔ ایک مولوی تمیز الدین خان مرحوم اس کاروائی کو چیلنج کرتے ہیں لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ گورنر جنرل کے آمرانہ اقدام کو آئینی قرار دیتا ہے اور جب نئی پارلیمنٹ اور دستور ساز اسمبلی قائم ہوتی ہے تو اراکین کی اکثریت سابق ممبروں پر ہی مشتمل ہے وہاں مشرقی پاکستان سے البتہ نئے چہرے آئے۔ جمہوریت کے ساتھہ گورنر جنرل کا یہ کھیل کسی رکاوٹ یا مزاحمت کے بغیر جاری رہتا ہے۔
1956ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کے اراکین عوام سے بالا ہی بالا ری پبلکن پارٹی قائم کرتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں راتوں رات مسلم لیگ اسمبلی پارٹی اکثریت سے محروم اور نئی پارٹی اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے نمودار ہوتی ہے اور وہ شخص پارٹی لیڈر کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ جسے سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کا بھائی اکثر کانگریسی لیڈر ہونے ہی کا اعزاز حاصل نہیں، بلکہ اسی شخص کی وجہ سے صوبہ سرحد میں اس سوال پرریفرینڈم کروانا پڑا کہ آیا صوبہ کے عوام پاکستان میں شامل ہونا چاہتےبھی ہیں؟ یہ تھے ڈاکٹر خان صاحب جن کو مغربی پاکستان کا وزیر اعلٰی مقرر کردیا جاتا ہے پاکستان کے کٹر مخالف پاکستان کے ایک صوبے کے وزیر اعلٰی اب یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ یہ سب کھیل اوپر سے ہی ہوتا رہا ہے یہ سب کچھہ نوکر شاہی کا کارنامہ تھا لیکن گورنر جنرل اور صدر کی ڈگڈگی پر ناچنے والے یا غلط اقدامات پر خاموش رہنے والے تھے تو سب ہی سیاستداں۔
اور قریب آئیے۔ صدر سکندر مرزا نے چوہدری محمد علی مرحوم کے بعد شہید سہروردی مرحوم کو وزیر اعظم نامزد کیا تو قومی اسمبلی میں وہ بھی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے حالانکہ ان کی اپنی پارٹی کے اراکین کی تعداد اسمبلی میں اتنی نہیں تھی کہ وہ وزارت بنا سکتے لیکن اراکین پارلیمنٹ تو یہ دیکھتے تھے کہ سربراہ حکومت کیا چاہتا ہے۔ صاحب صدر نے سہروردی مرحوم کو آزمانا چاہا تھا اس لئے اراکین پارلیمنٹ ان کی خوشنودی کی خاطر سہروردی صاحب کے ساتھہ ہوگئے حالانکہ سہروردی مرحوم نے اس وقت تک 56 کے دستور کو تسلیم کرلیا اور اپنے سابق مؤقف سے تائب ہوگئے ۔ سہروردی مرحوم کو معزول کرکے جب صدر مرزا نے جناب آئی آئی چندریگر کو وزیر اعظم نامزد کردیا تو ان کو بھی پارلیمنٹ میں اکثریتی حمایت حاصل ہوگئی اور وہی اکثریت 58 دن کے بعد ختم ہوگئی اس لئے کہ اسکند مرزا نے فیروز خان نون کو چندریگر صاحب کی جگہ وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا اب یہی اکثریت نون صاحب کے بارے میں تھی۔ قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد گورنر جنرل ہاؤس سے اور 23 مارچ56ء کے بعد ایوان صدر سے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ممبروں کو جس قدر چاہا گیا نچایا جاتا گیا ، مغربی پاکستان اسمبلی میں تو اراکین کا زیادہ تر وقت جماعتی وفاداریاں بدلنے میں ہی صرف ہوتا ہتا۔ ایک دن میں تین تین مرتبہ جماعتی وفاداریاں بدلنے کا عالمی ریکارڈ بھی ہماری اسی مغربی پاکستان اسمبلی میں قائم کیا گیا۔
وزارتوں کا حصول توبڑی بات ہے ہمارے یہاں پارٹی کی مرکزی بلکہ صوبائی صدارتوں کے حصول کے لئے بھی غیر جمہوری حربے اختیار کیا جانا ایک معمول رہا ہے پنجاب صوبہ مسلم لیگ کی صدارت حاصل کرنے کے لئے میاں عبدالباری جیسی بااصول اور مقتدر ہستی کو پارٹی کے اجلاس سے باہر پھینکوادیا گیا اور کونسل مسلم لیگ کی صدارت حاصل کرنے کیلئے اجلاس میں ہڑبونگ کرواکر گولیاں چلوائی گئیں اور پھر خود صدارت پر منتخب ہوگئے یہ کارنامے کسی غیر معمولی شخصیت کے نہیں ہیں بلکہ یہ کام میاں ممتاز خان دولتانہ جیسی شخصیت کے کھاتے میں جاتے ہیں آج وہی دولتانہ صاحب ملک میں جمہوریت کی عدم موجودگی کا ذکر کرکے ملول ہوجاتے ہیں کاش یہ اپنے ماضی پر نگاہ ڈال کر بھی کچھہ ملول ہولیا کریں۔
اب ذرا پاکستان میں قائم سیاسی جماعتوں کی ہیئت پر بھی نگاہ ڈال لیجئے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسی جماعتوں کی اکثریت ہے جن کے ممبروں کی تعداد اس جماعت میں عہدوں کی تعداد کے مساوی بھی نہیں ہے کہ جماعتی عہدے ہی پرُ کیے جاسکیں لیکن اس کیفیت کے باوجود ملک کے اخبارات سے نامعلوم وجوہ کی بناء پر اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے پاکستان سے مخاصمت کی بنا پر ان خانہ ساز جماعتوں کے لیڈروں کے بے معنی اور لغو بیانات کو شائع کرکے ان کو نہ صرف سیاسی لحاظ سے زندہ رکھتے ہیں بلکہ آگے بھی بڑھاتے ہیں پھر یہ نام نہاد لیڈر حضرات غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں جگہ بنانے کے لئے خود پاکستان اور اس کے بنیادی نظریۂ کے خلاف بھی گل افشانیاں شروع کردیتے ہیں۔ یہ بات یقین کے ساتھہ کہی جاسکتی ہے کہ ایسے لیڈروں کے پینل انٹرویو نہ لینے اور ان کے بیانات کو شائع نہ کرنے کے سلسلے میں پاکستانی اخبارات متفقہ فیصلہ کرلیں تو ملک کی نوے فیصد سیاسی جماعتیں ایک ہفتہ بھی زندہ نہ رہ سکیں گی۔ ہاں جس کو بھی سیاست کا شوق یا خدمت کا جذبہ ہے اسے چاہئے کہ وہ ملک میں موجود کسی بھی معروف سیاسی جماعت کی رکنیت حاصل کرلے اور قومی خدمت کے جذبہ کے تحت کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے لیکن ہماری بدقسمی یہ بھی ہے کہ بیشتر سیاستداں قومی جماعت کے جذبہ سے عاری ہیں اور اقتدار اور لیڈری کے شوقین ہیں۔
اگر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھہ غور کیا جائے تو اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہوگا کہ ہم اور ہماری موجودہ سیاسی قیادت بنیادی طور پر آمرانہ ذہنیت کی حامل آمریت پسند قوم ہیں۔ مخالفت کو برداشت نہ کرنا آمر کا سب سے بڑا خاصہ ہوتا ہے۔ ہمارے لیڈر اس سلسلہ میں انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ ہماری اس آمرانہ ذہنیت کو سب سے بڑا اور منہ بولتا ثبوت پابندی کے دور میں بھی سیاسی جماعتوں کے کئی کئی دھڑے ہیں جو لیڈر یا نمایاں سیاسی کارکن پارٹی میں اپنی بات نہ منواسکے یا پارٹی میں وہ اپنی مرضی کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے وہ فوراً چند لوگوں کو جمع کرکے یا لوگوں کے بغیر ہی پارٹی کے نام سے ایک نیا دھڑا یا گروپ قائم کر لیتا ہے یا پھر ایک عدد سیاسی جماعت قائم کرلیتا ہے ، یہی سبب ہے کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کی بہتات تو ہے ہی تقریباً ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کے تین تین اور چار چار دھڑے موجود ہیں اگر ہمارے سیاستدان حقیقتاً جمہوریت کے قائل ہوتے تو اپنی اپنی جماعتوں ہی میں رہ کر دلائل اور جمہوری طریقوں سے اپنی بات منوانے کی کوشش جاری رکھتے اور اگر وہ اکثریت کو اپنا ہمنوا نہ بنا سکیں تو پھر مغربی یا برطانوی طرز جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اکثریتی فیصلہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے جائیں ویسے خود اسلام بھی اظہار خیال کی تو آزادی دیتا ہے لیکن اکثریتی فیصلہ کے خلاف قدم اٹھانے کی اجازت یہاں بھی نہیں ہے بشرطیکہ کوئی بات یا فیصلہ قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو لیکن ہمارے یہاں نہ تو علماء ہی اس اصول پر کاربند نظر آتے ہیں اور نہ ہی خالص مغربی طرز جمہوریت کا نعرہ بلند کرنے والے سیاستداں ہی ہیں۔ اس کا سبب وہی بنیادی طور پر ہمارا آمریت پسند ہونا ہے۔
ملک میں سیاسی جماعتوں کے اتحادوں پر ایک نظر ڈالئے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ ہر اتحاد مزید انتشار کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ مشرقی پاکستان میں " ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد متحدہ حزب جمہوری محاذ (یو۔ ڈی، ایف) پھر متحدہ حزب اختلاف ( سی۔ او۔ پی) پھر پاکستان جمہوری تحریک (پی۔ ڈی۔ ایم)77ء کا پاکستان قومی اتحاد (پی ۔ این ۔ اے) اور اب تحریک بحالی جمہوریت (ایم ۔ آر۔ ڈی) ہاں 77ء سے پہلے قومی اسمبلی میں بھی حزب اختلاف کا ایک اتحاد قائم تھا جب بھی ضرورت محسوس کی لیڈر حضرات قوم کے سامنے آئے کبھی قیام جمہوریت کا نعرہ بلند کیا کبھی مہنگائی ختم کرنے کا وعدہ کیا اور کبھی نفاذ اسلام کا عہدہ کرکے لوگوں کو میدان میں نکلنے اور قربانیاں دینے کے لئے پکارا۔ قوم نے لیڈروں کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ نفاذ اسلام کے نعرے پر تو تقریباً تمام ہی لیڈروں نے ایک ساتھہ مرنے کا وعدہ قسمیں کھا کھا کر کیا اور قوم اس کے جواب میں سڑکوں پر نکل آئی، بچے ، بوڑھے ، جوان ، مرد اور عورتیں سب ہی میدان میں نکل کھڑے ہوئے، ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کا، بہنوں نے اپنے پیارے بھائیوں کا، بیویوں نے اپنے سہاگوں کا نذرانہ پیش کیا۔ نوجوان نہ تو جیل کی صوبتوں سے خوف زدہ ہوئے اور نہ اس تحریک کو خون سے سینچنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس کی۔ لیکن اس کے جواب میں لیڈروں نے قوم کو کیا دیا؟ 77 ء کے مارشل لاء کے فوراً بعد نشستوں کے لئے جھگڑے ، عہدوں کے لئے اختلاف ، ایک دوسرے کے خلاف بہتان طرازی اور پھر انتشار ہی انتشار حسب معمول اصغر خان نے پہل کی جمعیت العلمائے پاکستان نے تقلید کی۔ مقصد محض اقتدار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کا حصول تھا۔ کرسی حاصل کرنے کے لئے کسی نے ایران کے سابق شاہ کے دربار کا طواف شروع کردیا۔ کوئی امریکہ کی طرف مدد اور تعاون کے لئے دیکھنے لگا کسی نے ہندوستان اور ماسکو سے حصول تعاون کی آس لگا کر اپنی ڈگر پر چلنا شروع کردیا۔
قوم کو اعتماد میں لینے کی زحمت کسی نے نہ تو گوارا کی اور نہ اس کی ضرورت محسوس کی گئی بعد کے حالات کو دہرانے کی ضرورت نہیں واقعات سب کےسامنے ہیں۔
71ء میں پاکستان کی منتخب قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دی گئی۔ تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان سے کوئی بھی ممبر اجلاس میں شریک ہونے کی جرأت نہیں کرسکا۔ انہوں نے اپنی ٹانگیں بچانے کی خاطر ملک کو لوٹ جانے دیا " ادھر ہم ادھر تم" کا غیر جمہوری نعرہ بلند کیا گیا تو ملک کی کسی بھی پارٹی کو اس نعرے کے خلاف میدان میں نکلنے کی ہمت نہیں پڑی بلکہ جس جماعت یا افراد نے اس رجحان کی مخالفت کی اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی پیش کی ملک کے دونوں حصوں میں یعنی آج کے پاکستان اور بنگلہ دیش میں ان نوجوانوں کو سلام کرنے کے بجائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کیا جاتا ہے۔ کیا حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے کہ ان لوگوں کو فراموش کردیا جائے جنہوں نے ایک متحدہ پاکستان کے قیام کو دوام بخشنے کی کوشش میں اپنی قیمتی جانیں نچھاور کردیں؟ ویسے قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی کو اقتدار نہ دینے کی سازش کس کے تحت جائز ہے؟ لیکن ہم تو نہ جمہوریت کے پرستار ہیں نہ آمریت کے مخالف ہم صرف " اقتدار پسند سیاستدان کے مجموعے" کا نام ہیں۔
گذشتیہ فروری میں 53 فیصد سے زیادہ رائے دہندگان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا لیکن بحالی جمہوریت کے نام پر قائم نام نہاد تحریک اور ان کے ہمنوا یک آواز ہوکر ان منتخب اسمبلیوں کو غیر نمائندہ قرار دے رہے ہیں اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ انتخابات از سر نو کرائے جائیں اور یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے لیڈروں کی بھاری اکثریت جمہوریت کی قائل نہیں آمریت پسند بلکہ آمریت پرست بھی ہے اس ملک کو تو بس اسی طرح ہچکولے دیتے رہیئے۔ کبھی مارشل لاء، کبھی دہشت گردی، کبھی بائیکاٹ م کبھی آمریت جسے عوامی آمریت کہہ لیجئے لیکن سیاستدان حضرات کبھی کو یہ بات زیادہ بہتر طور پر معلوم ہوگی کہ جیب کتروں کے بھی کچھہ اصول ہوتے ہیں اور وہ ان پر پوری طرح کاربند رہتے ہیں۔ اگر سیاسی لیڈر جیب کتروں کی تقلید کرتے ہوئے جمہوریت کے بدترین اصولوں ہر پر عمل پیرا ہوسکیں تو اس غریب ملک کو بہت سے مسائل سے نجات مل جائے گی۔
آج سیاسی جماعتوں کی نام نہاد ایم آر ڈی پیپلز پارٹی کا دوسرا نام ہے اور اس پارٹی کا اول اور آخر مقصد صرف حصول اقتدار ہے۔ اس ہوس اقتدار نے پاکستان کے دو ٹکڑے کروانے سے بلکہ دو ٹکڑے کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ یہی نہیں اندرا کے ٹینکوں پر آکر اس ملک میں دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی دھمکی بھی اسی پارٹی کی نرالی شان کی ایک مثال ہے پھر" بائیکاٹ" بھی اسی پارٹی کا اہم بنیادی اصول رہا ہے اپنے آغاز کے فوراً بعد سے حزب اختلاف کے اتحاد کا بائیکاٹ۔ پارلیمانی جمہوریت کی بحالی کے سلسلہ میں صدر ایوب خان کے ساتھہ گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ اقوام متحدہ میں اس قرار داد کا بائیکاٹ جس کے مطابق مشرقی پاکستان میں جنگ بندی عمل میں لائی تھی۔ پھر 77ء کے انتخابات کے دوران اقتدار قائم رکھنے کی خاطر انصاف اور غیر جانبداری کے مسلمہ اصولوں کا بائیکاٹ، حزب اختلاف سے طویل عرصہ تک بات چیت کا بائیکاٹ پھر پہلے اور دوسرے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ، ریفرینڈم کا بائیکاٹ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ، حتیٰ کہ خود پاکستان کا بھی بائیکاٹ کہ آج اس پارٹی کی قیادت ملک سے باہر بیٹھی نت نئے شگوفے چھوڑنے میں مصروف ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کالعدم پیپلز پارٹی نے پاکستان کے تعلق سے اگر کسی بات کا بائیکاٹ نہیں کیا تو وہ ہے پاکستان ہوائی جہاز کا اغوا، دہشت گردی کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔غارت گری کی سرپرستی، توڑ پھوڑ بموں کے دھماکے، پاکستان کے مانے ہوئے دشمنوں سے ساز باز، دفاعی لحاظ سے پاکستان کو اپاہج بنانے کے لئے امریکہ اور دوسرے ملکوں میں ملک کے خلاف مہم اور کنفڈریشن کا ہونا۔
اسمبلیوں کی موجودہ ہیئت پر ایک نظر ڈالئے تو اس میں ایسے اراکین کی بڑی تعداد نظر آئے گی جو کل تک گلا پھاڑ کر بائیکاٹ ، بائیکاٹ کا نعرہ بلند کرتے پھر رہے تھے لیکن جیسے ہی انتخابات یقینی ہوگئے۔ سیاستدانوں کی روایت کے عین مطابق انہوں نے اپنا بہروپ بدل لیا، جو سیاستداں دباؤ کے ہتھکنڈوں میں کامیاب نہ ہوسکے اور حالات کے رخ کا صحیح یقین کرنے میں ناکام ہوگئے وہ پارلیمنٹ سے باہر رہ گئے لیکن اب وہ " کھسیانی بلی کھمبا نوچے" کے مصداق 53 فیصد رائے دہندگان کی اکثریت سے منتخب اراکین کی نمائندہ حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں ۔ لیکن خود ایسے افراد کو عوام کی طرف سے بولنے کا اختیار کس نے دیا ہے۔ جو اپنی پارٹیوں کے عہدوں پر بھی یا تو محض نامزدگی کی بنا پر فائز ہیں یا پھر وہ خود ساختہ پرائیویٹ لمیٹڈ پارٹیوں کے مینیجنگ ڈائریکٹر بنے ہوئے ہیں؟ خود کالعدم پی پی کے ہاں تو عہدیداروں کے انتخاب کا کوئی بھی تصور موجود نہیں ہے اگر سولہ سترہ سال تک بغیر کسی پارٹی انتخابات کے کام چل سکتا ہے تو پھر اس تکلف کی ضرورت ہی کیا ہے یہ دوسری بات ہے کہ جمہوریت کی بحالی کے لئے دنیا بھر میں سب سے زیادہ شور یہی پارٹی مچاتی رہتی ہے۔ لیکن جب یہ پارٹی ملک میں برسراقتدار تھی تب جمہوریت کا کیا حشر کیا ہوا تھا اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے پارٹی کی قیادت سے اختلاف کرنے والے طلبا و طالبات مزدوروں ، کسانوں، وکیلوں، خواتین علماء حتیٰ کہ اپنی پارٹی کے اراکین بلکہ وزراء تک کو بھی ظلم و تشدد کا وہ نشانہ بنایا گیا کہ بدترین آمریت بھی اس عوامی جمہوریت کے آگے نادم نظر آنے لگی ملک میں مکمل جمہوریت کے قیام اور آزادی صحافت کی ضمانت کے وعدوں پر عمل کا آغاز اقتدار سنبھالنے کے پہلے ہی دن کالعدم پی پی کے چیئرمین کو خود کو چیف مارشک لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے تقرر اور ایک اخبار کے ایڈیٹر کی معزولی سے کیا پی پی کے پورے دور حکومت میں اخبارات کے ساتھہ جس رواداری ، انصاف اور شفقت و محبت کا سلوک روا رکھا گیا، اس کے دہرانے کی یہاں ضرورت نہیں کہ دسمبر 71ء اور جولائی77ء کے دوران ملک میں آزادی صحافت کا تصورہی بدل کر رکھہ دیا گیا تھا۔
صدر اسکندر مرزا کو اسکینڈل مرزا کہنے اور ملک میں خونی انقلاب کی دھمکیاں دینے والے خان اعظم کو جب قید کردیا گیا تو ایک ہفتہ کے اندر اندر معافی نامہ لکھہ کر جیل سے رہائی حاصل کرلی اور پھر ایوب خان کے پورے دور میں ایسی چپ سادھی گویا اس ملک میں مرد آہن خون عبدالقیوم خان کا وجود تھا ہی نہیں، ایوب خان مارشل لاء کے دوران ملک کے بیشتر سیاستدانوں پر مختلف الزامات عائد کرکے جب یہ کہا گیا کہ تو وہ رضاکارانہ طور پر سیاست سے دستبردار ہوجائیں یا پھر الزامات کا جواب دینے کے لئے تیار ہوجائیں تو تقریباً تمام ہی معروف اورغیرمعروف سیاستدانوں نے بدعنوانیوں کے لگائے گئے الزامات کو تسلیم کرکے رضاکارانہ طوپر پر سیاست سے علیحدگی اختیار کرنے ہی میں اپنی عافیت جانی، ہاں شہید سہروردی مرحوم نے الزامات کا جواب دینے کا فیصلہ کیا ۔ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ پاکستان کی قسمت اور یہاں کا کاروبار حکومت "انہی رضاکار مجرموں" کے ہاتھہ میں رہا ہے۔
چوہدری محمد علی مرحوم اور نواب زادہ نصراللہ خان نے کوشش کرکے ایئر مارشل اصغر خان کو بھی رضامند کرلیا کہ وہ اپنی اپنی جماعتیوں یعنی نظام اسلام پارٹی عوامی لیگ (نوازادہ گروپ) اور جسٹس پارٹی کو ختم کرکے نئی پارٹی پاکستان جمہوری پارٹی تشکیل دے کر اس میں مدغم ہوجائیں اس ادغام کے بعد جناب اصغر خان کے لئے ایک ماہ بھی اس نئی جماعت کے ساتھہ رہنا مشکل ہوگیا اس لئے کہ نوابزادہ کو جمہوری پارٹی کا صدر منتخب کرلیا گیا تھا۔ اس بات سے جناب اصغر خان اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ انہوں نے سیاست ہی سے دستبرداری کا اعلان کردیا، لیکن اپنی دستبرداری کے چہلم پر ایئر مارشل ایک نئی جماعت " تحریک استقلال" کے کنوینر کی حیثیت سے میدان سیاست میں دوبارہ نمودار ہوگئے حالانکہ عملی سیاست میں آنے سے پہلے موصوف نے اپنے مضامین کے ذریعہ سیاسی جماعتوں کی تعداد کو ہدف تنقید بنایا اور سیاستدانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ رضاکارانہ طور پر پارٹیوں کی تعداد کم کرنے پر تیار ہوجائیں لیکن اپنی نصیحتوں پر عمل اس طرح کیا کہ ملک میں ایک اور سیاسی جماعت " جسٹس پارٹی" کا اضافہ کردیا۔ قول و فعل کا یہی تضاد دراصل ہمارے قومی مسائل اور مشکلات کا اصل سبب ہیں۔
سندھ میں قیام پاکستان کے فوراً بعد اور ون یونٹ کا حصہ بننے تک کی درمیانی مدت میں وزارتوں کی تبدیلی کے سلسلہ میں جو کھیل ہوتا رہا ہے اس کی وجہ سے صوبہ سندھ میں تعمیری اور ترقیاتی کاموں میں بڑی رکاوٹیں پڑی ہیں، ہمارے سیاستداں سیاسی توڑ جوڑ اور وزارتوں کی اکھاڑ پچھاڑ ہی میں لگے رہے اور عوام کی خدمت کو انہوں نے پس پشت ڈال دیا، پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معدودے چند حضرات کے سوا سندھ کے تمام سیاستدانوں نے کسی نہ کسی مرحلہ پر ون یونٹ کی موافقت اور اقتدار سے ہٹنے کے بعد اس کی پرزور مخالفت کا فرض ضرور ادا کیا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے ہمارے یہاں جمہوری روایت قائم کرنے یا ان پر عمل کرنے کی کوئی روایت نہیں ہے اس کا تازہ ترین شکار اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کی دوہری رکنیت پر پابندی کے خاتمہ کا قانون ہے، مارچ میں اس قانون پر عمل درآمد کو موخر کیا گیا اور پھر دوسری رکنیت کو قانونی قرار دے دیا گیا اور اس کی وجہ ہمارے سیاستدانوں کی صرف یہ ہوس ہے کہ وہ اقتدار کے لڈو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے قاتل ہیں، قومی اسمبلیوں میں ایسے حضرات بھی پہنچ گئے ہیں جو بلدیاتی اداروں کے رکن یا ان اداروں کے سربراہ ہیں پھر ان میں چند ایک صوبائی اور وفاقی کابینہ کے رکن بھی بن گئے ہیں اب یہ حضرات گوارا نہیں کرسکتے کہ ان کو دہری رکنیت سے ہاتھہ دھونے پڑیں اور صدر مملکت اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی مدد دل کھول کر کرتے ہیں وہ روایت کے زیادہ پابند نہیں ہیں۔ لیکن اراکین اسمبلی کو انتخابی گوشوارے داخل کرنے کی پابندی سے مستشنٰی قرار دیا گیا اور دہری رکنیت کی اجازت دے کر بڑی ہی غلط اور خطرناک روایت کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے آئندہ انتخابات تک بیک وقت اور صوبائی اسمبلی کی دوہری رکنیت کو جائز قرار دینے کا مطالبہ ہوگا اور پھر ایک شخص صوبائی کابینہ کی رکنیت کے ساتھہ وفاقی کابینہ میں شمولیت کی بھی کوشش کرے گا اور دہری رکنیت کے حامل اراکین کی ایک معقول تعداد صوبوں اور مرکز کی اسمبلیوں میں پہنچ جائے گی تو پھر کسی بھی صدر مملکت کے لئے ان کی خوشنودی کے خلاف مذکورہ قانون کو قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔
دوہری رکنیت کی اجازت سے ایک اور بات بھی ثابت ہوتی ہے اوروہ یہ کہ ہمیں نہ تو فل ٹائم منسٹر صاحبان کی ضرورت ہے اور نہ ہی بلدیات کے فل ٹائم سربراہ درکا ہیں لیکن کیا یہ سب کچھہ مناسب ہے؟ وزیر صاحب نہ تو اپنی وزارت ہی کے ساتھہ انصاف کرسکیں گے اور نہ ہی وہ شہری مسائل کے حل پر پوری توجہ دے پائیں گے۔ اس سے توبہتر ہے کہ کابینہ میں دوچار فل ٹائم منسٹرہوں اور ان کی مدد کے لئے مقرر کئے گئے پارلیمانی سیکریٹریوں اور مرکز میں وزارئے مملکت کی فوجی ظفر موج کو ان کے عہدوں سے ہٹادیا جائے لیکن ایسا ہونا اس لئے ممکن نہیں کہ ایسا کرنے سے قومی مفادات کو ترجیح دینے کا ثبوت مل جائے گا اور ہم ایسا کوئی ثبوت فراہم کرنے کے لئے کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہیں۔
ملک میں جمہوری عمل کے بار بار کے تعطل کی وجہ سے عوام کسی بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طور پر اظہار سے کتراتے ہیں لیکن خود سیاستدانوں اور اسمبلیوں کے اراکین کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ جمہوری روایات قائم کرنے کے سلسلے میں ذاتی قربانیوں سے دریغ نہ کریں، ورنہ آج کی خود غرض ہمیں کسی قابل نہیں چھوڑے گی اور ہم پھر آمریت کے ایسی دلدل میں پھنس کر رہ جائیں گے کہ اس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ملے گی جہاں صاحب صدر کا فرض ہے کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو انتخابی اخراجات اور اسمبلیوں کی دہری رکنیت پر پابندی ختم کرنے جیسی غلط روایت قائم کرنے سے اجتناب برتیں وہاں اراکین اسمبلی کا بھی فرض ہے کہ وہ از خود اس قسم کے قوانین کے سلسلہ میں تعمیری اور مثبت رویہ اختیار کریں اور اپنا وقت اپنے اپنے لئے مراعات حاصل کرنے کے بجائے قوم اور ملک کی بہتری کے لئے کام کرنے میں صرف کریں تاکہ سیاسی تعطل کے دوران جو نقصانات قوم کو اٹھانے پڑے ہیں ان کی کسی حد تک تلافی ہوسکے۔ اگر ملک میں ٹھوس جمہوری روایات کا چلن ہوہوجائے تو پھر جمہوریت اور جمہوری اداروں کے خلاف کوئی بھی سازش کسی وقت بھی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
درج بالا چند ایسے حقائق ہیں جو ہمارے سیاسی لیڈروں کے کارہائے نمایاں کو اجاگر کرتے اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ کی جمہوریت پسندی کی تصوری پیش کرتے ہیں پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کے سیاستدان ہر طرز کی حکومت میں فٹ ہوجاتے ہیں بس انہیں کسی طرح یہ اشارہ مل جانا چاہئے کہ فلاں پارٹی یا فلاں شخص حکومت بنائے گا تو سیاستدان فوراً ہی اس پارٹی یا شخص کی وفاداری کا دم بھرنے لگتے ہیں مسلم لیگ سے ری پبلکن پارٹی ، عوامی لیگ ، نیشنل عوامی پارٹی، کنونشن مسلم لیگ اور اس کے بعد کالعدم پی پی تمام پارٹیوں میں ہمیشہ وہی چہرے نظر آئیں گے یہی نہیں ہمارے سیاستدان مفلوج گورنر جنرل غلام محمد کی گالیاں سن کر بھی بے مزہ نہیں ہوتے تھے اور سکندر مرزا اور فیلڈ مارشل ایوب خان کو بادشاہ بنانے کے لئے بھی یہ لوگ تیار رہے تھے۔ انہی سیاستدانوں کو جنرل یحیٰی کی شخصیت میں بھی ملک کی نجات نظر آئی تھی اور آخر میں ذوالفقار علی بھٹو کی خوشامد ہی سب سے بڑی قومی خدمت سمجھی جائے گی اور ایل المیہ یہ بھی رہا کہ ہر سربراہ مملکت کے دور میں یہ سوال بار بار دہرایا جاتا ہے کہ " اس کے بعد کون؟" حالانکہ جمہوری ملکوں میں یہ ایک احمقانہ سوال گردانا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں اہم ترین سول یہی ہوتا ہے اور یہ سوال ہر نئے آنے والے کے لئے کیا جانے لگتا ہے۔
No comments:
Post a Comment