اسلام ہی نظریۂ پاکستان ہے
روزنامہ جنگ جمعۃ المبارک 30 اکتوبر 1987ء
اسلام پر اسلامی نظام کو نظریۂ پاکستان کا ہم معنی تسلیم نہ کرنے یا اسکی کوئی اور توضیح و تشریح پیش کرنے والے حضرات کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو سورج کی ہتھیلی سے ڈھانپ کر رات کا سماں پیدا کرنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد خود اپنی آنکھوں کو بند کرکے تاریکی شب کو تصور کرلیتے ہیں۔ افسوس ہے کہ اس قسم کی کوشش 2 اکتوبر 1987ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے ایک مضمون بعنوان "نظریۂ پاکستان لیا تھا؟ کیا بنادیا گیا" میں کی گئی ہے یہ مضمون مولانا سیّد وصی مظہر ندوی کے قلم کی کاوش ہے۔ پاکستان کے ہر شہری کو تحریر و تقریر کی آزادی کا جو حق حاصل ہے مولانائے محترم پوری طرح اس حق کو استعمال کرتے ہیں اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے میں بھی مذکورہ مضمون کے مندرجات سے اختلاف رائے کا اظہار کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ اصولی بات کی زد اگر کسی ذات خاص پر بھی پڑتی ہو تو اسے عمومی معنوں ہی میں لینا چاہئے میں یہ کہتے ہوئے معذرت چاہوں گا کہ محولہ بالا مضمون تضاد بیانی اور انتشار فکری کا ایک شاہکار ہے لیکن اس میں جو نکات ابھر کر سامنے آتے ہیں ان میں سے چند پر بالاختصار گفتگو کا مقصد نظریۂ پاکستان کے بارے میں اس تذبذب کو دور کرنا ہے جو اس مضمون سے چند لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوا ہو گا۔ یہ نکات کچھہ اس طرح ہیں (1) نظریۂ پاکستان اس کی تعبیر و تشریح (2) پاکستان مسلمانوں کے لئے ہوم لینڈ (3) پاکستانی قومیت اور وطنیت (4) بھارتی مسلمانوں ور مہاجرین کے ساتھہ زیادتیاں (5) انحراف و تضادات۔
نظریۂ پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تعبیر و تشریح
محولہ بالا مضمون میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام کبھی بھی پاکستان کا نظریۂ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ رہا اور نہ ہی برصغیر کے مسلمانوں اور ان کے قائدین کرام نے نظام اسلام کے نفاذ کی خاطر حصول پاکستان کی کوشش کی تھی، مولانا موصوف نے لکھا ہے کہ "قیام پاکستان کے بعد ہی سے نظریۂ پاکستان کی من مانی تشریحات و تاویلات شروع کردی گئی تھیں چنانچہ ایک جماعت اپنےسیاسی مقاصد کیلئے نظریہ پاکستان کو اسلام اور اسلامی نظام کے ہم معنی قرار دینے کی کوشش کرتی رہی، عوام کی ایک خاصی تعداد اور کچھہ خواص نے "سادگی" میں اس تاویل کو بڑی حد تک قبول بھی کرلیا۔" آگے چل کر مزید فرمایا گیا ہے کہ اسی جماعت نے اپنی پاکستان مخالفت کے مؤقف سے انحراف کر کے (1) پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااللہ، کے نعرے کو خوب خوب پھیلایا اور (2) اپنے پروپیگینڈے سے ثابت کیا کہ اسلامی نظام کے بغیر پاکستان قائم نہیں رہ سکتا۔
اس سلسلے میں عرض ہے کہ "پاکستان کا مطلب کیا؟" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔قیام پاکستان کے بعد کسی جماعت کے سیاسی مقاصد کے حصول کی راہ ہموار کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس سے پہلے ہی یہ نعرہ جس سے چاٹگام اور ہمالیہ سے راس کماری تک برصغیر کے چپہ چپہ پر پھیل چکا تھا بلکہ اسی نعرہ کا معجزہ تھا کہ چند سال کے اندر اندر دنیا کے نقشہ پر ایک آزاد ، خود مختار، اسلامی ملک نمودار ہو گیا اس کے لئے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے تاریخ کے عظیم ترین قربانیاں پیش ہی س غرض سے کی تھیں کہ وہ ایک ایسا خطۂ زمین چاہتے تھے جہاں اسلامی نظام پوری طرح نافذ کرکے وہ اس کے بطابق اپنی زندگی گزارنے میں آزاد ہوں۔ یہی نہیں بلکہ آج بھی پاکستان کے مسلمان ملک، میں نفاذ اسلام کیلئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اب یہ کہنا کہ یہ سب کچھہ مصنوعی طریقے پر کیا گیا زیادتی کی بات ہی نہیں بلکہ برصغیر کے تمام مسلمانوں اور ان کے قائدین کرام کی توہین کے مترادف بھی۔
راج کا کام کرنے والا ایک عام شخص بھو خوب جانتا ہے کہ چھوٹی یا بڑی، کچی یا پکی کیسی بھی عمارت ہو وہ بغیر بنیاد کے قائم نہیں رہ سکتی تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسانی جسم سے اس کی روح اور پاکستان سے ان کے نظریہ کو جدا کرکے بھی یہ امید رکھی جائے کہ انسان سلامت اور پاکستان قائم رہ سکتا ہے اس لئے اس حقیقت کو تسلیم کرانے کیلئے کسی بھی پروپیگینڈے کی ضرورت نہیں۔ اس ملک کے عوام اچھی طرح سجمھتے اور جانتے ہیں کہ اسلام ہی پاکستان کا نظریہ ہے اور اسلامی نظام کے نفاذ ہی کے ذریعے ملک کو مستحکم کرکے اسے ہر قسم کے خطرات سے بچایا جاسکتا ہے۔
اگر کسی نے نظریۂ پاکستان کی "من مانی تشریحات اور تاویلات کی بھی ہیں تو " نظریہ" یا اسے پیش کرنے والے زعمائے کرام اور اس کے لئے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والے کیوں کے اس کے ذمہ دار قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی صحیح تعبیر و تشریح معلوم کرنے کے لئے نہ تو ہمیں "سیکولر ذہن" رکھنے والوں کی نگارشات پڑھنے کی ضرورت ہے نہ "۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ "مسلمانوں کی طرف رجوع کرنے کی اور نہ "جماعت" کے سیاسی غلبہ سے بچنے کیلئے اپنے ہی لیڈروں کی تقریروں اور بیانات کو منافقت پر مبنی قرار دینے والے طالع آزماؤں کے افکار و خیالات سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ نظریۂ پاکستان جاننے کے لئے اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم قائد اعظم ، قائد ملت لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر جیسے رہنماؤں کے بیانات پڑھیں جو قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد بھی واضح اور غیر مبہم الفاظ میں " پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی" کی بات کرتے تھے۔
یہاں یہ بات بھی صاف ہوجانی چاہئے کہ پاکستان کی کٹر مخالفین نے بھی اگر 15 اگست 1947ء کو پاکستان کے ساتھہ اپنی غیر مشروط وفاداری کا اعلان کردیا یا اس کا ارادہ کرلیا اور وہ پھر اس پر جمے بھی رہے تو ایسے لوگ دوسرے پاکستانیوں کی طرح سچے اور پکے پاکستانی ہی کہلائیں گے۔ کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے ان اراکین دستوریہ کو قائد اعظم یا قائد ملت بے بھی کبھی پاکستان کا مخالف ہونے کا طعنہ نہیں دیا جنہوں نے پاکستان کے ساتھہ اپنی قسمت کو وابستہ کر لیا تھا۔ لیکن یہ بات انتہائی ناقابل فہم ہے کہ جس مخصوص جماعت یا افراد نے قیام پاکستان کے ساتھہ ہی خود کو پاکستانی قرار دے لیا اور اس کی تعمیر و ترقی اور استحکام کی جدوجہد میں دوسروں کے شانہ بشانہ شریک ہوگئے ان میں سے بالخصوص ایک جماعت پر بھی تک "پاکستان مخالف" کی پھبتی کسی جاتی ہے لیکن جو کل بھی پاکستان کے مخالف تھے اور آج بھی اس کو توڑنے کے کھلم کھلا درپے ہیں وہ ماضی میں بھی معزز اور بزرگ پاکستانی کہلائے اور آج بھی ان کے حضور بڑے بڑے پاکستانی نذرانۂ عقیدت پیش کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کے لئے ہوم لینڈ
انگریزی لفظ ہوم لینڈ کا ترجمہ چاہے " قومی گھر" یا قومی وطن کرلیجئے لیکن یہ دراصل ہے "وطن" ہی کا ہم معنی اور وطن نام ہے اس خطہ زمین کا جس کی حدود متعین ہوں، جہاں آبادی ہو، وہ آبادی اپنے داخلی اور خارجی امور میں آزاد ہو اور وہاں نظام حکومت چلانے کیلئے کسی قسم کا دستور ہو۔ چند سال پہلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ایک وطن تھا لیکن اب وہ بھارت کا ایک علاقہ ہے۔ آج کا بنگلہ دیش کل پاکستان کا ایک صوبہ تھا اور آج ایک وطن ہے۔ اس طرح پاکستان کے حصول کا مقصد بھی برصغیر میں مسلمانوں کے ایک وطن کا قیام تھا لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ پاکستان سے باہر رہ جانے والے بھارتی علاقوں کے تمام مسلمانوں کو نقل مکانی یا ہجرت کے ذریعے یہاں آباد کرنا بھی تھا یہ تاثر غلط طریقے پر پیدا کیا جارہا ہے اگر ایسی بات ہوتی تو قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں کے قائدین اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں سے یہ کیوں کہتے کہ " آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ پاکستان آپ کے علاقہ میں نہیں بن رہا تو پھر آپ "بٹ کررہے گا ہندوستان بن کررہے گا پاکستان " کا نعرہ کیوں لگاتے ہیں؟ اور اس کا جواب کچھہ اس مفہوم کا ہوتا تھا۔
آچکے تھے برق کی زد میں تمام اہل چمن
ہم نے اپنے آشیانے کو مقابل کر دیا
قیام پاکستان کے موقع پر اور بعد میں ہندؤں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مشرقی پنجاب، دہلی، یوپی، سی پی، بمبئی، بہار، راجپوتانہ، جنوبی ہندوستان اور مغربی بنگال وغیرہ سے مسلمانوں کے لاکھوں خاندان اپنے آبائی علاقوں کو خیر باد کہہ کر بلا روک ٹوک پاکستان آئے۔ یہاں ان کی آبادکاری اور روزگار کیلئے تمام مواقع مہیا کئے گئے لیکن یہ سلسلہ غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رکھا جاسکتا تھا اس کے علاوہ آج کے دور میں ہر حکومت قانون، قاعدوں اور ضابطوں کے تحت چلائی جاتی ہے کوئی بھی ملک آج اپنی سرحدوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کھلا نہیں رکھہ سکتا خاص طور پر پاکستان کیلئے تو ایسا کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ یہ چاروں طرف سے بدطنیعت دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔ پھر جن مسلمانوں نے بھارت کو اور جن ہندوؤں نے پاکستان کو اپنے وطن کے طور پر اختیار کرلیا ہو اب انہیں وہیں کا شہری بن کر رہنا ہے۔
اس سلسلے میں ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ اگر پاکستان کو برصغیر کے تمام مسلمانوں کا وطن ہونا تھا تو پھر قائد اعظم بھارتی حکومت سے مسلمان اقلیت کی حفاظت کی اپیل کے بجائے تمام مسلمانوں کو ہدایت کرتے کہ وہ پاکستان آجائیں۔ اقلیتوں کی جان، مال اور عزت و آبرہ کے تحفظ کے علاوہ ان کو مساوی حقوق کی ضمانت دینے کی خاطر "لیاقت نہرو پیکٹ " اور نون نہرو پیکٹ" کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ یہ معاہدے بھی دراصل اس خیال کی نفی کرتے ہیں کہ ہوم لینڈ سے مراد تمام مسلمانوں کا وطن تھا پھر بھارت جانے والے ہندوؤں کو امن و امان کے ساتھہ زندگی گزارنے کی قائد اعظم کی طرف سے یقین دہانیاں بھی اس نظریہ کو جھٹلاتی ہیں۔
پاکستانی قومیت اور وطنیت
چند حضرات وطن اور وطنیت کے تصور کو رد کرکے اپنی وسیع النظری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ اس سلسلے میں علامہ اقبال کی نظم وطنیت کے کچھہ اشعار استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن اس نظم کے بغور مطالعہ کی زحمت گوارا نہیں کرتے اس لئے کہ علامہ نے وطنیت کے اس تصور کی مخالفت کی ہے جس میں اسے بت کی حیثیت دیکر دوسروں کے ساتھہ جبر و زیادتی اور خود کی برتری کا ذریعہ بنانے کوشش کی جاتے ہے۔ ورنہ اسی نظم میں یہ شعر بھی موجود ہے۔
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھہ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھہ ہے
ویسے بھی وطن کے بغیر قوم کا تصور کم از کم آج کے دور میں ممکن نہیں۔ علم السیاست کا ایک معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ قوم یا قومیت وطن ہی ہے منسوب ہوتی ہے اگر ایسا نہ ہو تو پھر ہم پاکستان سے اپنی نسبت کس طرح ظاہر کریں گے اور خود کو کیا کہیں گے؟ جیسے ہم ہم نے خود کو "پاکستانی" کہا اسی لمحہ ہم نے وطن کے وجود کو تسلیم کرلیا۔
جس طرح تعارف کی خاطر اللہ تعالٰی نے قبائل بنائے ہیں اسی طرح ملک اور وطن بھی تعارف کی ایک بنیادی ضرورت ہے ویسے ملکوں کا وجود بھی بہت قدیم ہے ان کے نام بھی بہت قدیم ہیں۔ کبھی کبھار ان کے ناموں یا ان کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تبدیلی رونما ہوئی لیکن پھر بھی ان کا وجود بہرحال قائم رہا۔ ہم مصری ، ترکی، رومی، ہسپانوی اور ہندوستانی اقوام کا ذکر کرتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ نبی اکرم کے صحابہ کرام میں کسی کی نسبت حبشہ سے ملتی ہے تو کسی کی فارس سے۔ اگر وطن کا وجود اتنا ہی معیوب ہوتا تو آج ہم نہ حضرت بلال کو حبشی کہتے اور نہ حضرت سلمان کو فارسی کہہ کر پکارتے۔ پھر تاریخ مسلمانوں کے زیر تسلط علاقوں کے تحفظ کیلئے جہاد کے واقعات سے فانی نہیں۔ ہمارے یہاں کئی حضرات ملک میں قومیتوں کے وجود کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ وہ زور دیتے ہیں کہ ان قومیتوں کو تسلیم بھی کیا جائے جو بجائے خود قومی اتحاد پر تیشہ چلانے کے مترادف ہے لیکن عجیب مذاق ہے کہ جیسے ہی "پاکستانی قوم" یا "پاکستان ایک وطن" کی بات ہوتی ہے تو یہی حضرات فوراً چونک پڑتے ہیں اور اس تصور کو یہ کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام میں وطنیت کی نسبت سے قوم کی گنجائش نہیں۔ اگر وطن کا وجود فی الواقع ممکن یا جائز نہیں تو پھر کسی ایک علاقہ میں آباد افراد کے مجموعہ کو آپ کیا کہیں گے؟ اگر ان کی نسبت یا ان کا تعارف کسی وطن کے حوالہ سے نہیں ہوگا تو کیا وہ فضا میں معلق قرار پائیں گے؟
مولانا ندوی نے اپنے مضمون کے ابتدائی حصہ میں وطنیت کے تصور کی مخالفت کرتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ علامہ اقبال کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں نے "وطنیت" کے اس بت کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔خاک میں ملادیا " لیکن مضمون کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے اپنے اس مؤقف سے انحراف جا خطرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔اور یہ تجویز پیش کردی کہ "بھارت اور بنگلہ دیش کے مستحق ضرورت مند اور اہل مسلمانوں کے لئے پاکستانی قومیت کا حصول آسان بنایا جائے۔
قوم وطن سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور امت یا "قوم اور ملت" کو ہم معنی سمجھنے کی وجہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ وطن سے نہیں بلکہ دین سے ہے لیکن قوم وطن ہی سے ہے۔ قوم محدود ہے ایک خطہ زمین کی نسبت تک جب کہ امت جغرافیائی حدود سے بالاتر اور غیر محدود ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک کا مسلمان باشندہ امت مسلمہ یا "مسلم امہ" کا ایک فرد ہے لیکن وہ ہر ملک کا شہری یا "وطنی" قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح ضروری نہیں کہ ایک قوم کے تمام افراد امت کے رکن بن سکیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کا ہر باشندہ جسے ہم پاکستان کا وطنی بھی کہہ سکتے ہیں امت کا رکن نہیں بن سکتا اس لئے کہ یہاں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی بستے ہیں اور نہ ضروری اجازت اور قانونی ضابطوں کے تقاضے پورے کئے بغیر کسی دوسرے ملک کا وطنی خود کو پاکستان کا وطنی قرار دے سکتا ہے۔
زیر بحث مضمون میں بھارتی مسلمانوں کے ساتھہ زیادتیوں کا الزام بھی پاکستان پر لگایا گیا ہے حالانہ پاکستان کی ہر حکومت نے اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کیلئے آنے کے خواہشمند بھارتی مسلمانوں کو ہمیشہ فراغ دلی کے ساتھہ ویزے جاری کئے ہیں اس سلسلے میں اس سہولت کو جنوبی ہند تک پہنچانے کی غرض سے کوشش کے باوجود بھارتی حکومت نے بمبئی میں قونصل خانہ کے قیام میں رکاوٹیں ڈالی ہیں پھر ویزا پر یہان آنے والے بھارتی باشندے پولیس کو اطلاع دیئے بغیر آزادی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے ہیں اور ان کے قیام کی مدت میں اضافہ بھی آسانی سے کردیا جاتا ہے ، 1982ء کے اعداد شمار کے مطابق ویزا پر پاکستانی آنے والے 15 فیصد مسلمان غیر قانونی طور پر پاکستان میں ہی رک جاتے رہے تھے۔ جہاں تک ڈاک کی شرح میں اضافہ کا سوال ہے تو بھارت نے تو کافی پہلے شرح میں اضافہ کردیا تھا پاکستان کافی بعد میں اس شرح کو بین الاقوامی سطح پر لایا ہے اس لئے کہ شرح کا یکطرفہ ٹریفک آخر کب تک جاری رکھا جاتا۔
کھوکھرا پار کا راستہ ضرور ایک مسئلہ ہے لیکن اس کی بندش 1965ء کی پاک، بھارت جنگ کی بناء پر ہوئی تھی اور اب حکومت پاکستان کی طرف سے اس راستہ کو کھولنے کی تمام تیاریوں کے باوجود اس راستہ کے تاحال نہ کھلنے کا ذمہ دار بھی بھارت ہے اس لئے کہ بڑی کوششوں کے بعد اس سلسلے میں بھارت کے ساتھہ معاہدہ کی تاریخ طے ہوئی تو غالباً ریلوے کے بھارتی وزیر کو زکام ہوگیا اور وہ نہ آسکے اس طرح یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا اس لئے پاکستان کو اس کا ذمہ دار گرداننا بھی نامناسب بات ہے۔
انحراف و تضادات
مذکورہ مضمون جہاں خود بھی تضاد بیانی کا نادر نمونہ ہے وہاں یہ صاحب مضمون کے اپنے مؤقف سے انحراف کا اعلان بھی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے موصوف جماعتوں کے خلاف لکھتے اور بولتے رہے ہیں لیکن اس مضمون کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اب انہوں نے نہ صرف یہ کہ جماعتوں کی ضرورت اور ان کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے ساتھہ ہی اسلام کے اس عالمگیر اصول کو ماننے سے بھی انکار کردیا ہے کہ ۔ ۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اس لئے کہ اصلاح احعال کے سلسلے میں مشورہ دیتے ہوئے مولانا نے فرمایا ہے کہ "برادریوں اور قومیتوں کو سیاسی تفریق کے نمائندے مسلمانوں کی "واحد سیاسی" جماعت کے اندر شامل ہوں اور یہ جماعت سب کے حقوق کی محافظ بنے۔ " واحد سیاسی جماعت" پر زور قابل غور ہے۔ دین اور سیاست کو علیحدہ علیحدہ شعبوں میں محدود کرنے کی غرض سے آپ کو مشورہ یہ ہے کہ "خالص اسلامی نظام" قائم کرنے کی خواہشمند جماعت کو اس مسلمان قوم کے ووٹوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے طریق انبیائے کرام کے مطابق ذہن و فکر کی اصلاح کا بیڑا اٹھانا چاہئے۔" یعنی ایک تو سیاسی جماعت ہو اور دوسری خالص اسلامی نظام کے نفاذ کی داعی جماعت جو مسلمانوں کے ووٹوں پر بھروسہ نہ کرے ۔ علامہ اقبال نے اسی کو "چنگیزی" قرار دیا ہے۔
مولانا محترم نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ سے بھی اختلاف کا اظہار کیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ آج کے حالات میں اسلامی نظام کا نفاذ ہر شعبہ زندگی میں نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ فرماتے ہیں "پہلے مرحلے میں اسلام کے اخلاق و عبادات سے متعلق ان احکام کو جاری کرکے مقبول بنایا جائے جو تمام مسلمانوں میں متفق علیہ ہیں۔" دوسرے الفاظ میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ چونکہ چند افراد اسلام کے اصولوں پر پوری طرح متفق نہیں اس لئے اسلام کو جزوی طور پر نافذ کرنے کی کوشش کی جائے لیکن اس پر مزید غور کیا جائے تو پھر آپ مطمئن ہوکر بیٹھہ جایئے کہ ملک میں اسلام کے مکمل نفاذ کی توقع نہیں اس لئے کہ اس کے نفاذ کیلئے سب کو اس پر متفق ہونا لازمی ہے اور ایک طبقہ ابتداء ہی سے ایسا موجود ہے جو اس سے اختلاف کرتا آرہا ہے پھر ایسی صورت میں آپ اسلام پر اتفاق حاصل نہیں کر پائیں گے اور اس طرح اسلام آپ یہاں نافذ نہیں کرسکیں گے اور اگر بات یہی ہے تو پھر حصول پاکستان کا مقصد کیا رہ جاتا ہے " چند "بہی خواہان وطن" یہی باور بھی کرانا چاہتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment