کراچی بار میں آمریت کا رقص

روزنامہ جنگ منگل 18 مارچ 1986ء

12 مارچ کو کراچی بار میں جو کچھہ ہوا وہ پاکستان میں تاریخی جمہوریت کے سیاہ ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ بظاہر تو اس واقعہ کا ذمہ دار چند وکیل صاحبان ہی کو قرار دیا جارہا ہے لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ ہماری قومی سوچ اور رجحان کا پتہ دیتا ہے اور یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں جو جمہوریت کا جتنا بڑا دعویدار ہے وہ دراصل آمریت کا اتنا ہی بڑا ستون ہے۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ہم لوگ نہ صرف یہ کہ جمہوریت کے اہل نہیں بلکہ دراصل ہم اپنے ملک میں جمہوریت برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ ہم میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو جمہوریت کے علمبرداروں کے لبادے میں آمریت کے ایجنٹ ہیں اور وہ آمریت کے لئے ملک میں سازگار ماحول پیدا کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھہ سے نہیں جانے دیتے۔ یہاں سوال جنرل چشتی کی توہین یا ان کے خیالات سے اختلاف یا اتفاق کا نہیں ہے بلکہ سوال ہے جمہوریت کی صحیح اور سچی تعریف و توضیح کا اور وکلاء برادری کی روایات کا ہم جاہلوں کو تو آزادی تقریر و تحریر کو جمہوریت کی روح بتایا جاتا ہے اور یہ حق سب کے لئے تسلیم کرنے کو کہا جاتا ہے دہشت گردی پھیلانے کے اعلانات تخریب کاری کے دعوؤں ملک کو توڑنے کی باتوں یا دوسری طاقتوں کو ملک پر حملہ کرنے کی دعوت جیسی مذموم حرکات کو تو عین مقتضائے جمہوریت قرر دیا جائے لیکن اختلاف رائے رکھنے والے کسی محبّ وطن پاکستانی کے خلاف ہنگامہ آرائی کے باوجود خود کو جمہوریت کو چیمپئن قرار دینے کی کوشش کی جائے۔ جمہوریت کو عملی شکل دینے کے سلسلے میں بعض وکیلوں کی اس حرکت سے کراچی بار کے صدر اور ان کے ڈیڑھ سو سے زائد ساتھیوں ہی کا نہیں بلکہ پوری قوم کا سر ندامت سے جھک گیا ہے۔

اس واقعہ کے پس منظر میں چند صاحبان سیاست جمہوریت کے بیانات بھی قول و فعل میں واضح تضادات کا ثبوت ہیں اور اس قسم کے بیانات سے جن میں جنرل چشتی کے ساتھہ ہونے والے واقعہ کو دوسروں کے لئے عبرت کا سبب بتایا گیا ہے وہ آزادیٔ تحریر و تقریر کے بنیادی اصولوں کی توہین کے مترادف ہیں بالفظ دیگر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہاں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں اور اگر اختلاف رائے ہے بھی تو اس کا اظہار کرنے والے کا سر توڑ دیا جائے گا۔ یہی ہماری جمہوریت کا نیا اصول ہے" آمرانہ جمہوریت" Dictatorial Democracy کے علمبردار سیاست داں اور وکیل صاحبان کیا آزادیٔ تحریر و تقریر اور اجتماعی کے جملہ حقوق اپنے ہی لئے محفوظ کروانا چاہتے ہیں؟ عمل سے تو یہی بات ثابت ہوتی ہے گزشتہ چند سالوں کے دوران کراچی کے علاوہ ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنوں میں ایسے لوگوں کو بھی خطاب کی دعوت دی گئی ہے جو سیاسی لحاظ سے منفی سطح کے مالک ہیں۔ اب یا تو اختلاف رائے کے احترام کو جمہوریت کا فرسودہ اور متروک اصول قرار دے دیا جائے یا پھر خود کو دیانتداری کے ساتھہ آمریت کے پیشہ ور اور تربیت یافتہ ایجنٹ کے طور پر متعارف کروایا جائے۔

بعض وکیل صاحبان نہ صرف چوری ڈکیتی، زنا، قتل، تخریب کاری، دہشت گردی اور وطن دشمن سرگرمیوں میں ملوث افراد کی وکالت اور عدالتوں میں ان کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے تو ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں بلکہ پاکستان کے کھلے دشمنوں اور اس کے توڑنے والوں کے بچاؤ تک کیلئے مجالس اور تنظیمیں قائم کرکے ایک طرف تو نام نہاد جمہوریت کے ڈھنڈورچی بن کر سامنے آتے ہیں اور دوسری طرف دولت کے انبار لگا لیتے ہیں اور یہ سب کچھہ " پیشہ ورانہ ذمہ داریوں" کے تحت کیا جاتا ہے اور پھر انسانی حقوق کے نام پر بھی اپنی دکانوں کو چمکانے کو کوشش کرتے ہیں لیکن ان کا عمل وہ ہے جو انہوں نے جنرل چشتی کے ساتھہ کیا ہے۔ جمہوریت اور احترام آدمیت تو بڑی بات ہے اب تو وکیل صاحبان کو مہمان نوازی جیسے بنیادی اصول بتانے کے لئے بھی ہمارے ان دیہاتی بھائیوں کو آگے آنا ہوگا جن میں سے بیشتر اسکولوں کے دروازوں تک میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔

کراچی بار میں آمریت کے جس رقص کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وکیلوں کی معزز برادری میں کیسے کیسے لوگ شامل ہوکر اس وکلا برادری کی توہین کا سبب بن رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وکلا برادری کو سوچنا چاہئے کہ کیا انہیں خود کو ایسے لوگوں سے الگ تھلگ نہیں کرلینا چاہئے۔ اس سلسہ میں تاخیر پوری قوم کی سوچ کو متاثر کرسکتی ہے اور خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو پھر آمریت کے منحوس سائے اس ملک پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسلط ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھہ ہی ان حضرات کو بھی سوچنا چاہئے جو اس فعل کے ذمہ دار ہیں کہ کیا جمہوریت صرف اپنی بات کہنے ہی کا نام ہے یا دوسرے کو بھی پورا موقع ملنا چاہئے۔

آخر میں ایک سوال اور رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ایک معزز شہری پر بار میں حملہ کیا گیا اس کی توہین کی گئی اور جلسہ میں ہنگامی برپا کیا گیا تو کیا بار کے صدر کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اس کے خلاف مناسب قانونی کاروائی عمل میں لاتے؟ یہ ان کی اخلاقی اور قانونی ہر لحاظ سے ذمہ داری تھی جو افسوس کہ پوری نہیں کی گئی۔ ایسا کرکے آئندہ کے لئے بھی ایک بری روایت قائم کرنے کی بھول سر زد ہوگئی ہے جس کا ازالہ ضروری ہے۔

No comments:

Post a Comment