ہماری اپاہج خارجہ حکمت عملی

روزنامہ جسارت بدھ 9 جولائی 1986 ء

" بھارتی فوج نے چند پاکستانیوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔" اس قسم کی خبریں آئے دن ایک معمول کے طور پر آل انڈیا ریڈیو کے حوالے سے ہمارے ملک کے اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ ان خبروں کو بھارت کے اس الزام کے تناظر میں دیکھنا چاہئے جس میں وہ بھارتی پنجاب میں گڑبڑ اور دہشت گردی کے سلسلے میں پاکستان کو ایک عرصے سے ملوث کرتا آرہا ہے۔ ان خبروں کا زیادہ تشویشناک پہلو یہ حقیقت ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ان کی تردید یا تصدیق کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا اور اگر کبھی اس سلسلے میں زحمت کی جاتی ہے تو اس بے دلی کے ساتھہ کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کام زبردستی کروایا جارہا ہے۔ اگر فی الحقیقت سرحد پار کرتے ہوئے پاکستانی بھارتی فوج کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں تو یہ پتہ لگانا حکومت کا فرض ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور کس مقصد کیلئے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرکے بھارت جاتے ہیں اور اگر بھارت غلط خبریں دیتا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ ان پاکستانیوں کی لاشیں طلب کرے جن کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور غلط خبروں کی اشاعت پر بھارت سے باقاعدہ احتجاج کیا جائے لیکن بھارت سے احتجاج ہماری نظر سے ایک عرصہ سے نہیں گزرا۔

حکومت پاکستان کی طرف سے گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاک لیبیا ہولڈنگ کمپنی کے محمد احمد عمار کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔ اس شخص کو ملک میں تخریب کاری اور بالخصوص بدنام زمانہ ہتھوڑا گروپ کی سرگرمیوں کی سرپرستی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا' اسے حکومت لیبیا کی مداخلت پر رہا کرکے پاکستان سے چلے جانے کی اجازت دے دی گئی ۔ اس ضمن میں حکومت پاکستان نے یہ بھی کہا ہے کہ لیبیا کے ساتھ ہمارے خصوصی نوعیت کے تعلقات ہیں اس لئے بھی ایسے شخص کو ملک سے جانے کی اجازت دیدی گئی جس پر بیسیوں بے گناہ افراد کے قتل اور تخریب کاری کا جرم ثابت ہوچکا تھا۔

" تعلقات کے خصوصی نوعیت کو سفارتی اور بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں خصوصی اہمیت حاصل ہے اور یہ بات کسی بھی ملک کے سلسلے میں کہی جاسکتی ہے لیکن بین السطور میں اس کے معانی و مطالب یکسر بدل جائیں گے مثلاً بھارت اور افغانستان کے ساتھہ ہمارے تعلقات کی نوعیت خصوصی ہے۔ اسی طرح چین اور سعودی عرب سے بھی ہمارے خصوصی نوعیت کے تعلقات قائم ہیں لیکن اس بات کو آپ مثبت پہلو ہی سے دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ لیبیا سے ہمارے گہرے دوستانہ ہی نہیں بلکہ مسلم مملکت ہونے کے ناطے برادرانہ تعلقات قائم ہیں لیکن حکومت کے اس قسم کے اعلانات اور ہماری دلی تمنا کے باوجود حقائق ہمارا ساتھہ نہیں دیتے۔ اگر محمد احمد عمار اپنی حکومت کے ایماء یا اجازت کے بغیر پاکستان میں دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث تھا تو پھر لیبیا ایسے مجرم کو واپس مانگنے کے بجائے اسے پاکستان ہی میں قانون کے مطابق سخت ترین سزا کا مشورہ دیتا اس کے علاوہ چند سال قبل ذوالفقار نامی ایک ایجنسی کے ذریعہ سینکڑوں پاکستانیوں کو لے جا کر لیبیا میں انہیں تخریب کاری کیلئے زبردستی رضامند کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے ۔ جن لوگوں نے انکار کیا ، ایک عرصہ تک انہیں بڑی اذیت ناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور اہل خاندان تک سے رابطہ قائم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

جولائی 1977ء میں نفاذ مارشل لا کے بعد سے لیبیا نے علانیہ اور خفیہ دونوں طریقوں سے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کی ہر لحاظ سے مدد کی بلکہ بھٹو صاحب کو پھانسی دیئے جانے کے بعد ان کے صاحبزادوں نے جس دہشت گرد تنظیم کی داغ بیل ڈالی اس کو مالی اور تربیت کی پوری پوری سہولتیں لیبیا کی حکومت نے مہیا کیں بلکہ پی پی پی کو اب بھی لیبیا کی سرپرستی حاصل ہے جس کا اظہار صدر مملکت کے اس بیان سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے پیپلز پارٹی کو فنڈ مہیا کئے جانے کے سلسلے میں بھارت اور لیبیا پر اپنے شبہ کا اظہار کیا ہے۔ کیا یہ تمام باتیں خصوصی نوعیت کے تعلقات کے تحت آتی ہیں؟ احمد محمد عمار کی رہائی کے سلسلے میں لیبیا کی یہ مستعدی اور ہمارے داخلی معاملات میں سیاسی جماعتوں کے ذریعہ مداخلت اور دہشت گردی کی مسلسل سرپرستی کے باوجود امریکہ کے طرف سے فراہم کئے گئے دستاویزی ثبوتوں سے کس طرح چشم پوشی کرسکتے ہیں اور اگر ہم کسی بنا پر ان دستاویزی شہادتوں کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو کیا عمار کی رہائی کے سلسلے کے وقت یا اس سے پہلے ہم نے بھی لیبیا سے اپنے خصوصی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے دبے الفاظ میں بھی یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کی سرپرستی کرکے پاکستان میں قتل و غارتگری کو فروغ دینے سے باز رہے یا یہ کہ وہ کسی سیاسی جماعت کو مالی یا دوسرے طریقوں کی امداد نہ دے۔ ظاہر ہے کہ ہم نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔

لیبیا کی طرح شام بھی پوری طرح پاکستان میں دہشت گردی اور طیارے کے اغوا کے معاملے میں ملوث ہے جس کا ثبوت بھٹو صاحب کو ملک کی سب سے بڑی عدالت سے دی گئی سزا پر عملدرآمد کے فوراً بعد صدر مملکت کے دورے کی شام کی طرف سے یکطرفہ منسوخی ہے۔ اس طرح پاکستانی قوم ہی کی نہیں بلکہ خود عربوں کی روایتی مہمان نوازی کی بھی توہین کی گئی۔ پی۔ آئی۔ اے کے طیارے کے اغواء کے موقع پر بھی شام کی حکومت نے اغواء کنندگان کو ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچائیں اور حکومت پاکستان کی کوئی تجویز منظور نہ کرکے اغواشدگان کو ایک ہفتے تک اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ گزشتہ برس جواں سال شاہنواز بھٹو کی پراسرار حالات میں موت کے بعد یہ بات بھی پایٔہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ مرتضٰی بھٹو اور شاہنواز بھٹو کو شام کی حکومت نے پاسپورٹ دیئے ہوئے تھے جبکہ مرتضٰی بھٹو، دہشت گرد تنظیم الذوالفقار کا مسلمہ سرغنہ ہے اور یہی تنظیم پاکستانی طیارے کے اغوا کی ذمہ دار تھی۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت بھی طیاروں کے اغواء کرنے والوں کو کوئی ملک پناہ نہیں دے سکتا لیکن انہیں تو پاسپورٹ تک جاری کئے گئے ہیں اور انہی پاسپورٹوں پر یہ سفر کرتے رہے ہیں۔ فرانس میں ان دونوں بھائیوں کی موجودگی بھی حیرتناک ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو فرانس میں داخلے کی اجازت کس طرح دی گئی؟

ان تمام واقعات کے پیش نظر یہ تشویشناک صورتحال سامنے آتی ہے کہ غالباً ہماری خارجہ حکمت عملی اصولوں پر مبنی نہیں ہے اور اگر کوئی اصول ہے بھی تو وہ آزاد اور خود مختار ملک کے شایان شان نہیں ہے۔ ہم لیبیا سے مطالبہ تو درکنار درخواست بھی نہیں کرسکتے کہ وہ خدا کے واسطے پاکستان میں دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی نہ کرے، ہم نہ شام سے پوچھہ سکتے ہیں کہ اس نے طیارے کے اغواء کنندگان کو اپنے ملک کے پاسپورٹ کیوں جاری کئے ہوئے ہیں اور کیوں وہ انکی امداد کررہا ہے؟ بلکہ ہماری 'اپاہج' خارجہ حکمت عملی کا کمال تو یہ ہے کہ انجہانی اندرا گاندھی صدر پاکستان سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ پاکستان میں نظر بند ایک سیاسی جماعت کی رہنما کو رہا کردیں اور چند دن بعد اس رہنما کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے اس موقع پر صدر پاکستان اگر بھارت میں آئے دن ہونے والے مسلم کش فسادات پر بھارتی رہنما کی توجہ مبذول نہیں کراسکتے تھے تو کم از کم اپنی روایتی انکساری کے ساتھہ یہ تجویز مبذول نہیں کراسکتے تھے تو کم از کم اپنی روایتی انکساری کے ساتھہ یہ تجویز تو پیش کرسکتے تھے کہ سنجے کی بیوہ اور ایک سیاسی جماعت کی لیڈر مانیکا گاندھی کے ساتھہ کی جانے والی زیادتیوں ہی کا سدباب کیا جائے لیکن افسوس ہم پر ہر موقع پر یہ ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھہ سے نہیں جانے دیتے کہ ہماری خارجہ حکمت کا قومی ۔ ۔ ۔ ۔ وقار سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی بالکل آزاد ہے کسی بھی پابندی کے ہم قائل نہیں اسی طرح ہماری سرحدیں بھی آزاد ہیں کوئی ملک جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تربیت یافتی افراد کو حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے بھیج دے یا دہشت گردوں کی ہر لحاظ سے امداد کرتا رہے ہم کچھہ نہیں کہیں گے بلکہ بھارت ایک تسلسل کے ساتھہ بھارتی پنجاب میں پاکستان کی طرف سے مداخلت کا الزام دہراتا جارہا ہے لیکن ہم اس کی تردید میں ہمیشہ تساہلی اور بے دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ہمیں گالیاں دینے والا اپنی گالیوں کی گونج سنتا ہے تو الٹا ہم ہی کو الزام دیتا ہے اور بزدل کی حد تک شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم جواب میں کہہ دیتے ہیں کہ " غلطی ہوگئی بابا معاف کرو۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔"

ہماری خارجہ حکمت عملی کس قدر منفی درجہ گر چکی ہے۔ اس کا افسوس ناک ثبوت گزشتہ ہفتہ کی اس خبر سے ملتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے وزیر خارجہ نے صدر مملکت کو پیغام بھیجا ہے۔ بھارت تو نفسیاتی حربے کے طور پر یہ سب کچھہ کررہا ہے لیکن پاکستان کی وزارت خارجہ کیا پروٹوکول سے اب اس قدر مبرا ہوگئی ہے کہ بھارت کا وزیر خارجہ ، صدر پاکستان کو پیغام بھیجے اور وہ پیغام خود صدر مملکت وصول بھی کریں دنیا بھر میں یہ مسلمہ اصول ہے کہ غیر معمولی حالات نہ ہوں تو ایک ملک سے دوسرے ملک میں اپنے ہم منصب ہی کو پیغام بھیجا جاسکتا ہے یا تو ہماری وزارت خارجہ میں ان اصولوں سے ناواقف حضرات بیٹھے ہیں یا تو پھر یہ سب کچھہ کسی ڈرامے کے ریہرسل کے طور پر کیا جارہا ہے لیکن یاد رکھئے جو لوگ قوم اور ملک کے وقار کو اہمیت نہیں دیتے اور اپنے ملک کی توہین کے ذمہ دار ہوتے ہیں ذلت و رسوائی انہی لوگوں کے مقدر میں ہوتی ہے۔

No comments:

Post a Comment