پاکستانیوں کے دروازے صرف پاکستانیوں ہی کے لئے بند ہیں

روزنامہ جنگ پیر 12 مئی 1986ء

لیجئے محمد پور میں پھر برق گری اور بیسیوں افراد لقمہءاجل بن گئے اور ہزاروں خاندانوں کے آشیانے اجڑ کر رہ گئے۔ عیسائی مشنریوں کی امداد اور مقامی آبادی کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے والے ڈھائی لاکھہ پاکستانیوں کو خود کو پاکستانی قرار دینے کی ایک اور سزا ملی ہے لیکن بقول مولانا عبدالستار ایدھی یہ اس قدر سخت جان واقع ہوئے ہیں کہ اب بھی وہ اپنے آپ کو پاکستانی قرار دینے پر مُصر ہیں لیکن ایک ہم ہیں کہ نہ تو ان کی مصیبت پر ہی ہمارا دل پسیجا نہ ان کے پُر خلوص جذبۂ وطنیت سے ہماری غیرت و حمیت بیدار ہوئی۔ ہم جو افریقہ میں قحط کی خبر سن کے تڑپ اٹھتے ہیں جو بنگلہ دیش میں سیلاب اور طوفان پر بے چین ہوجاتے ہیں افغانستان سے آنے والے مہاجرین کیلئے فرش راہ بن جاتے ہیں ہمیں اگر کسی کی تباہی اور بربادی کا احساس نہیں ہوتا تو وہ ڈھائی لاکھہ حقیقی پاکستانی باشندے ہی ہیں جو پندرہ سولہ سال سے مسلسل کرب و آلام کا شکار ہیں۔ ہم نے اپنے ہی ملک کے ڈھائی لاکھہ باشندوں کو سسک سسک کر مرنے کیلئے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ یہ سب کچھہ ہم اسلام کے نام پر کرکے اپنے ایمان کی "پختگی" اور اپنی بے نیازی کا کھلا ثبوت پیش کررہے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً پینتیس لاکھہ افغان مہاجرین آباد ہیں جن کی دیکھہ بھال پر حکومت کی طرف سے ہر روز کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مجاہدین افغانستان میں دراصل پاکستان ہی کی جنگ لڑرہے ہیں اس لئے وہاں سے آنے والے مہاجرین کی ہر ممکن مدد ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے اور یہ مہمان نوازی ہمارے لئے بڑے فخر کی بات ہے یہ ہمارے ظرف کا ثبوت ہے کہ افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہنے سے پہلے ہم نے بیرونی ملکوں یا بین الاقوامی اداروں سے امداد کی کوئی بھی شرط عائد نہیں کی لیکن صرف ڈھائی لاکھہ ان لوگوں کو جو ہر لحاظ سے پاکستانی شہری ہیں وطن میں آکر مستقل طور پر آباد ہونے کیلئے ہم نے صرف بیرونی امداد کی شرط لگا کر اسلام کے اصولوں پر عمل کے دوہرے معیار کو کھلا اور شرمناک ثبوت ہی نہیں دیا بلکہ ہم نے خود کو سچا اور پکا پاکستانی کہنے والوں کیلئے اذیت ناک سزا کا اہتمام بھی کردیا ہے۔ اخلاقی اور قانونی طور پر کوئی بھی حکومت ان لوگوں کو اپنے وطن آکر آباد ہونے کے حق سے محروم نہیں رکھہ سکتی لیکن ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جس نے اپنے ہی ہم وطنوں کیلئے اپنے وطن کے دروازے بند کردیئے ہیں اور اس طرح ہم نے اپنے لئے توہین آمیز راستہ اپنالیا ہے۔

اسلام میں زکٰوۃ، خیرات اور صدقات کا اصول بھی یہ مقرر کیا گیا ہے کہ والدین کے بعد ان عزیز و اقارب کی مدد کی جائے جو اس کے مستحق ہوں انگریزی میں بھی ایک کہاوت ہے کہ خیرات گھر سے ہی شروع ہوتی ہے وطنیت اور قومیت کے جدید تصور کے مطابق بھی ایک ملک کے تمام باشندے وسیع معنوں میں ایک ہی خاندان کے فرد اور عزیر و اقارب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی افغان مہاجرین سے پہلے بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کو حق بنتا ہے کہ ان کی ہر طرح کی امداد کی جائے اور ان کو یہاں آکر آباد ہونے کے سلسلہ میں ہر طرح کی سہولت بہم پہنچائی جائے۔ اگر تعصب اور تنگ نظری کا چشمہ اتار کر دیکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ بے سہارا اور مفلوک الحال ڈھائی لاکھہ پاکستانی جنہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "بہاری" کا نام دیا جاتا ہے۔ پندرہ ، سولہ سال سے پاکستان کی جنگ لڑرہے ہیں اور وہ اس جنگ میں کامیاب رہے جبکہ ہمیں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس طرح کامیاب رہے کہ موت و زیست کی کشمکش میں بھی انہوں نے اپنی پاکستنی وطنیت سے دستبرداری اب تک گوارا نہیں کی ہے جبکہ ہم نے چند ماہ بعد ہی بنگلہ دیش کو منظور کرکے اقتدار کو بلا شرکت غیرے تو بنا ہی لیا لیکن ساتھہ ہی وطن فروشی کا تمغہ بھی ہم نے اپنے سینے پر آویزاں کرلیا۔ ہماری طرح یہ "بہاری" بھی بنگلہ دیش کی تحریک کا ساتھہ دیتے یا خود کو بنگلہ دیشی قرار دے دیتے تو وہ اس بدترین صورتحال سے بچ جاتے جس سے وہ آج تک دوچار ہیں اور ہماری بے حسی کے پیش نظر ان کی اس پریشانی اور غیر یقینی کیفیت سے فوری نجات کی کوئی صورت بھی مستقبل قریب میں نظر نہیں آرہی۔

ڈھائی لاکھہ محب وطن پاکستانیوں کو خالی پیٹ، ننگے جسم اور تلملاتی گرمی، کڑاکے کی سردی اور طوفانی بارشوں میں آسمان تلے زندگی گزارنے کیلئے بے یارو مددگار چھوڑ کر ہم کس منہ سے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ پاکستان میں ایک بھی شخص بھوکا نہیں سوتا۔ اپنے عزیز و اقارب اپنے ہی ہم وطنوں اور اپنے ہی ملک کیلئے لڑنے والے مجاہدین کی مدد کیلئے تو ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی نہ اس سلسلہ میں ہماری غیرت دینی ہی بیدار ہوتی ہے نہ جذبۂ حب الوطنی ہی جوش میں آتا ہے ایسی صورت میں ہم افغان مہاجرین کی امداد پر کس طرح فخر کرسکتے ہیں۔ اسلام اسلام کی رٹ لگانے والے اگر صحیح معنوں میں قرآن کے احکامات اور رسول کی طرف رجوع کرلیں تو یہ مسئلہ چٹکی بجاتے ہی حل ہوسکتا ہے لیکن افسوس ہم بقول شاعر مشرق اس کیفیت کو پہنچ چکے ہیں کہ

خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق

دینی نقطۂ نگاہ سےتو بڑی بات ہے قانونی لحاظ سے بھی کسی بھی شخص کو اپنے وطن میں آکر آباد ہونے سے نہیں روکا جاسکتا لیکن اس قسم کی رسم چل نکلی تو کل کو خلیجی یا دوسرے ملکوں سے بےروزگار ہوکر مستقل طور پر آنے والے پاکستانیوں کو بھی ان کیلئے روزگار کے متبادل انتظامات تک ملک میں آنے سے روک دیا جائے گا اور انہیں غیر ملکی جیلوں میں سڑنے یا پھر کھلے سمندر میں موت کا انتظار کرنے کیلئے چھوڑ دیا جائے گا۔

بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے اپنے وطن آنے پر پابندیوں کے سلسلہ میں تو ہم نے بڑی ڈھٹائی کا ثبوت دیا ہے لیکن ایک پہلو ایسا ہے جو انتہائی تشویش کا باعث ہے اور وہ یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی باشندے پاکستان میں غیر قانونی طور پر آکر آباد ہوچکے ہیں اور انہوں نے یہاں پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ تک حاصل کرلئے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ برما اور سری لنکا کے باشندے بھی آپ کو پاکستان میں آکر آباد ہوتے اور کام کرتے مل جائیں گے۔ افغان مہاجرین کیمپوں کے بجائے ملک کے ہر مقام پر اسلحہ کی اسمگلنگ اور "فروغ منشیات" کے کاروبار میں مصروف نظر آئیں گے وہ پاکستان میں بڑے بڑے کام کررہے ہیں اور جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ شناختی کارڈ اور پاکستانی پاسپورٹ تو آپ پرچون کی طرح کہیں سے بھی جتنی تعداد میں چاہیں بآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا کہ بنگلہ دیش، برما، سری لنکا، ایران اور افغانستان سے غیر قانونی طور پر اتنی بڑی تعداد میں لوگ پاکستان میں کس طرح داخل ہوجاتے ہیں۔ ملک کی سرحدوں کی دیکھہ بھال کا کوئی انتظام بھی ہے یا یہ سرحدیں کھلی چھوڑدیں گئی ہیں اگر ایسا ہی ہے تو پھر دفاع کے نام پر خطیر رقم کے خرچ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیا ہم اس قدر غیر محفوظ ملک کے باشندے ہیں کہ جو شخص جب چاہے جس راستے سے پاکستان میں داخل ہوکر یہاں کے تمام شہری حقوق حاصل کرسکتا ہے؟ یہ دنیا میں پنپنے کی نہیں تباہی و بربادی کی باتیں ہیں۔ کسی اور ملک میں ایسی صورت پیدا ہوجائے تو وزارت ہی مستعفیٰ ہونے پر مجبور کردی جائے لیکن ہم تو رواداری کے باوا آدم ہیں یہاں تو ملک کے توڑنے والے کو بھی کندھوں پر اٹھایا جاتا ہے۔

ہم وطنوں کی قدر ومنزلت ہمیں دوسرے ملکوں سے سکیھنے کی کوشش کرنی چاہئے آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی ملک میں کوئی غیر ملکی شہری کسی بھی الزام میں پکڑا جاتا ہے تو متعلقہ ملک کا سفارتخانہ فوری طورپ پر اس شخص کی مدد کیلئے حرکت میں آجاتا ہے اسی طرح کوئی شخص اگر غیر ملک میں کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے تو متعلقہ سفارتخانہ اس کی مدد کیلئے تیار رہتا ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ لاکھوں پاکستانی کیئے مکوڑوں کی طرح کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں غیر ممالک میں ان کی پاکستان منتقلی کیلئے تحریکیں چلتی ہیں ملک کے اندر برسا برس سے ان کو لانے کیلئے مطالبے اور مظاہرے ہورہے ہیں لیکن نہ تو عوامی آمریت کے دور میں نہ فوجی جمہوریت کے دور میں اور نہ اب پارلیمانی جمہوریت میں کسی بھی حکومت نے ان پاکستانیوں کو ملک میں آباد کرنے کی بابت مثبت رویہ کا اظہار کیا بلکہ ہمارے یہاں تو ان لوگوں کیلئے ہمدردی کے دو بول بھی عنقا ہیں۔ کاش ہم حب وطن کی حقیقی روح کو سمجھہ سکیں اور پاکستانی باشندوں کو چاہئے وہ کسی جگہ ہوں باعزت زندگی گزارنے کے مواقع مہیا کریں ورنہ ہم بھی دنیا کی باعزت اور باوقار قوم کی صفوں میں کبھی جگہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔

No comments:

Post a Comment