سندھ کے وسائل پر استحقاق

روزنامہ جنگ جمعۃ المبارک یکم مئی 1987ء

اوائل فروری 87ء میں "جنگ" میں شائع شدہ مضمون بعنوان " سندھ کا مسئلہ' اصلی رخ" میں ' میں نے سندھ کے پابشندوں میں پائی جانے والی بے چینی اور ان کے احساس محرومی کے اسباب پر چند حقائق بیان کئے تھے " آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے" کے مصداق ہمارے مضمون کے جواب میں جناب شریف احمد صاحب، جناب کمال قدوسی صاحب اور جناب س۔م۔یوسف صاحب کے مضامین جنگ اخبار کی مختلف اشاعتوں میں شائع ہوئے ہیں۔ اگرچہ میرے مضمون میں شائستگی اور جذبہ رواداری کے تحت لفظ "مہاجر" حذف کردیا گیا تھا مگر ان حضرات کے مضامین میں کھلم کھلا "پنجابی ' بولنے والے طبقہ پر سارا الزام دھردیا گیا ہے۔ مقتدر مہاجر رہنما بھی پنجابیوں کو مورودالزام ٹھہرا رہے ہیں اور ان کو واپس جانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ گویا "پنجابی" کو ہر مصیبت کا ذمہ دار ٹھہرانا اب ایک فیشن سا ہوگیا ہے، اس لئے لازم ہے کہ ذرا کھل کر بات کی جائے اور یہ طے کرلیا جائے کہ سندھ پر کس کا استحقاق ہے اور کس نے سندھ کے وسائل کو غصب کیا ہے۔ ایک بات تو خیر اب طے ہے کہ اور تمام مضامین اور بیانات سے مترشح ہے کہ سندھ کے باشندوں میں احساس محرومی ہے۔ سندھی بولنے والے افراد کا اپنے ہی صوبہ میں اقلیت میں ہوجانے کا واضح امکان ہے۔ سندھی بولنے والے افراد اور سندھی زبان اب کم از کم صوبہ کے کے شہری علاقوں میں تو اجنبی ہوگئی ہے۔ سندھ کے وسائل پر سندھی زبان نہ بولنے والوں کو تصرف ہے۔ اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ یہ صورتحال 1947ء یعنی قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے اردو بولنے والوں علاقوں یعنی یو پی ، سی پیی اور کچھہ حد تک " بہار" سے لوگ بڑی کثیر تعداد سندھ میں آنا شروع ہوگئے ۔ یہ سب لوگ اپنے آپ کو مہاجر کہتے ہیں حالانکہ صحیح معنوں میں تو وہ لوگ مہاجر تھے جو خون کی ندیاں عبور کرکے اور گھربار، کاروبار، جائیداد اور ملازمت وغیرہ چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور کردیئے گئے یعنی مشرقی پنجاب اور دہلی و اطراف سے آنے والے مسلمان یا بہاری مسلمان جن کی کثیر تعداد مشرقی پاکستان ہجرت کرگئی۔ یہ ہجرت کرنے والے لٹے پٹے مسلمان تو چپ چاپ آکر جہاں سر چھپانے کی جگہ ملی وہاں پر بیٹھہ کر جدوجہد زندگانی میں مصروف ہوگئے۔ زیادہ تر یہ لوگ یہاں آکر کار حیات میں چپ چاپ مصروف ہوگئے۔ اصل مسئلہ تو ان لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوا کو اپنی مرضی سے یو پی اور سی پی سے آکر سندھ میں آبادہ ہوئے یہ حضرات بقول ایک ممتاز اردو بولنے والے دانشور حکمرانی کا نہ صرف اپنے آپ کو سب سے زیادہ اہل سمجھتے تھے بلکہ ، حکمرانی کو اپنا حق تصور کرتے تھے۔

ہمارے ان "مہاجر" بھائیوں نے احساس برتری اور بزعم خود زیادہ تہذیب یافتہ ہونے کا دعویٰ رکھنے کے باعث اپنی زبان اور تہذیب سندھ پر مسلط کرنا شروع کردی۔ سندھی زبان کمتر ٹھہرائی گئی۔ سندھی تہذیب کو پس پشت ڈال کر اردو تہذیب اور رواج کا احیاء کیا گیا اور اپنے ہی صوبہ میں تعلیم اورعدالت اور سرکار سے سندھی زبان خارج کردی گئی۔ ملکی صنعت اور کاروبار کا کراچی میں ارتکاز کیا گیا۔ دیہی سندھی علاقوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ دانستہ دیگر علاقوں کو پس ماندہ رکھہ کر تمام ملکی وسائل شہر کراچی کی ترقی کے لئے خرچ کئے گئے۔ کراچی میں کاروبار ، صنعت و حرفت کے اس ارتکاز کی وجہ سے دیگر صوبوں سے بھی مواقع روزگار کی تلاش میں لوگ کراچی آنا شروع ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی 80-70 لاکھہ کا شہر روشنیوں کا شہر بلند و بالا عمارات، بہترین سڑکوں، بہترین علاج معالجہ کی سہولتوں سے لیس اور بہترین تعلیمی اداروں والا شہر بن گیا کراچی پاکستان کا واحد بین الاقوامی معیار کا شہر ہے اور ملک کے صنعتی کاروباری اور Financial مرکز کی حیثیت اختیار کرگیا۔ سندھ کے دیگر علاقوں ، ان کے باشندوں اور کراچی کے قدیم باشندوں اور ان کی بستیوں کو دانستہ طور پر نظر انداز کردیا گیا اور پاکستان کا ثمر ان کو نہیں ملا، جس کی وجہ سے سندھ میں احساس محرومی شدت اختیار کرگیا۔ سندھیوں نے جب آواز احتجاج بلند کی تو سختی سے دبانے کی کوشش کی گئی کبھی مہاجر، پٹھان، پنجابی محاذ کا سہارا لیا گیا اور کبھی اسلام اور پاکستان کے نام پر ان کا جائز حقوق کو غصب کیا گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے تمام شہروں اور ان شہروں کی سیاست اور اقتدار پر مہاجر حضرات کا قبضہ ہے اس سارے قضیہ میں سندھ اور کراچی میں مقیم پنجابی اور پٹھانوں کا یہ قصور ہے کہ وہ چپ چاپ بغیر کسی سیاست میں پڑے کار معاش اور جدوجہد زندگی میں سرگرم عمل ہیں اور محنت و مشقت کرکے بال بچوں کا پیٹ پالتے ہیں نہ تو ان لوگوں نے سندھ پر اپنی تہذیب مسلط کی ہے اور نہ ہی سندھ پر اپنی زبان نافذ کی ہے۔

اب جبکہ سندھی رہنماؤں نے جائز طور پر اس غلبہ کے خلاف اور اپنے وسائل کے استحصال کے خلاف آواز بلند کی ہے تو ان مہاجر رہنماؤں نے اپنا وطیرہ بدل لیا ہے اور اس قسم کے بیان دینا شروع کردیئے ہیں کہ سندھ کے وسائل پر "مہاجروں" اور سندھیوں کا حق ہے۔ گویا اپنے آپ کو سندھ کے اصل باشندوں کے برابر حقدار ٹھہرا رہے ہیں۔ ہمیشہ کے لئے اب یہ بات واضح ہوجانی چاہئے کہ سندھ کے اصل باشندے سندھ کے اقتدار اور وسائل پر کلی استحقاق رکھتے ہیں اور یہ حق بحال ہونا چاہئے۔ دیگر تمام لسانی اقلیتوں بشمول اردو بولنے والے لوگوں کا سندھ کے وسائل پر حق ثانوی ہے اور سندھ کے اصل باشندوں کی مرضی اور منشاء کے تابع ہے۔ یہ حق نقل مکانی کرنے والے ان گروہوں کو یقیناً نہیں دیا جاسکتا جنہوں نے تاریخی اصولوں کے مطابق اپنے آپ کو سندھ کے کلچر میں Assimilate نہیں کیا بلکہ بزعم خود تہذیب یافتہ ہونے کا دعویٰ رکھنے کی وجہ سے اپنی زبان اور تہذیب سندھ پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔ سندھ کے وسائل سے استفادہ کرنے والوں کو سندھ کی تہذیب اور اقتدار سے اپنے آپ کو Identify کرنا ہوگا۔ دیگر صوبوں سے آنے والے باشندوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو سندھ میں Assimilate کیا ہے۔ شروع صدی سے سندھ میں آباد بلوچی، پنجابی اور پختون اس کی درخشندہ مثال ہیں۔ ان کی وجہ سے کبھی بھی کوئی مسئلہ اور احساس محرومی پیدا نہیں ہوا ہے۔ آج کے سندھ میں پیدا شدہ احساس محرومی کی سب سے بڑی وجہ مہاجروں کے طرف سے سندھ پر تہذیبی غلبہ پانے کی کوشش اور سندھ کے شہروں اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔

سندھ میں احساس محرومی ختم کرنے کے لئے سندھ کے اصل باشندوں کے استحقاق کو تسلیم کرنا ہوگا ، اردو بولنے والوں کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ دیگر لسانی اقلیتوں کی طرح اپنے آپ کو سندھ سے Assimilate کرنا ہوگا۔ مہاجر حضرات کا اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار کسی دوسرے لسانی گروہ کو ٹھہرانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مسئلہ کا صحیح حل یہ ہے کہ سندھ میں آباد سب اقلیتی لسانی گروہ سندھ کے اصل باشندوں کی قیادت میں اور ان سے مل جل کر سندھ کی معیشت کو مضبوط کریں۔ سندھی زبان، سندھی تہذیب اور سندھی کلچر کو اپنائیں، یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خوشحال اور مضبوط اور مطمئن سندھ ہی ایک خوشحال اور مضبوط پاکستان کا ضامن ہے۔

No comments:

Post a Comment