26 جنوری جلسہ کے اثرات قبل از انعقاد
روزنامہ جسارت منگل 23 جنوری 1990 ء
کراچی میں 26 جنوری کو متحدہ حزب اختلاف کے جلسہ عام نے اپنے انعقاد سے ایک ہفتہ پہلے ہی اچھے اور نمایاں اثرات دکھانے شروع کردیئے ہیں ان میں ایک تو یہ ہے کہ پی پی بھی کو کراچی کے شہریوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے لیکن اس سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ پی پی نے پہلی مرتبہ اپنے پوسٹروں پر پاکستان کے قومی پرچم کو نمایاں طور پر جگہ دے کر خود کو قومی پارٹی ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس سے قبل تو اس پارٹی نے کبھی قومی پرچم کو اہمیت نہیں دی تھی۔ پی پی پوسٹروں، کتابچوں اور بینروں کا تو ذکر ہی کیا اس کے جلسے جلوسوں تک میں پاکستان کے قومی پرچم کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی صرف پی پی کا ترنگا اور الذوالفقار کے پرچم ہی نظر آتے تھے۔ جو پوسٹر کراچی میں لگایا گیا ہے اس سے پی پی نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسے پاکستان کا پرچم عزیز ہے۔ ہماری دلی تمنا ہے کہ بات ایسی ہی ہو لیکن جب ہم واقعات اور حقائق پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہماری تمنا پر پانی پھر جاتا ہے۔
ابتداء میں تو پی پی کی وزیر اعظم تک جلسوں میں صرف پارٹی کا ترنگا ہی ہوتا تھا لیکن اسلامی جمہوری اتحاد اور حزب اختلاف کی دوسری جماعتوں کے جلسوں میں پاکستان کا سبز پرچم لہراتے دیکھا تو پی پی کے جلسوں میں بھی سبز پاکستانی پرچم لہرایا جانے لگا لیکن یہ تکلف بھی صرف کراچی پنجاب اور سرحد میں کیا جاتا ہے اندرون سندھ رتو پی پی کے جلسے پاکستانی پرچم کے سائے سے محروم ہی رہتے ہیں۔ پاکستانی پرچم اپنی عزت و وقار اور دشمن پر رعب و دبدبہ کے لئے اس بات کا محتاج نہیں ہے کہ اس کی عظمت کا مظاہرہ تو مقبوضہ کشمیر میں بھی دکھایا جاسکتا ہے جہاں بھارتی فوج اپنی سنگینوں کی مدد سے بھی اس پرچم کو بلند ہونے سے نہیں روک پارہی۔ پھر اس پرچم سے عقیدت ان شہداء سے پوچھئے جنہوں نے اس لئے اپنی جانوں کو نذرانہ پیش کردیا کہ یہ پرچم ہر دم بلند رہے۔
وزیر اعظم ، وزرائے اعلٰی اور وزیروں کی سرکاری گاڑیوں پر پاکستانی پرچم کا لہرایا جانا ایک ایسی قانونی مجبوری ہے کہ اس سے بچتا ممکن نہیں۔ لیکن وزیر اعظم نے قومی پرچم کی عزت و توقیر کو کم کرنے کے لئے یہ پہلو ڈھونڈ ہی نکلا کہ پاکستانی پرچم کے مقابلے پر اپنی سرکاری گاڑی پر پی پی کا ترنگا لہرایا اور اب ہر جگہ پی پی کا ترنگا جھنڈا بمقابلہ پاکستانی پرچم موجود رہتا ہے اس سے پہلے بھی اس ملک میں جماعتی وزیر اعظم رہے ہیں لیکن پی پی کے سوا کسی اور نے قومی پرچم کے مقابلے میں پارٹی پرچم کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ مسلم لیگ کے پرچم کو آزادی سے پہلے اور آزادی کے چند سال بعد تک برصغیر کی پوری ملت اسلامیہ کے پرچم کی حیثیت حاصل رہی اور کوئی مسلم لیگی وزیر اعظم اپنی کاریا سرکاری رہائش گاہ پر پاکستان کے قومی پرچم کے ساتھہ مسلم لیگ کا پرچم بھی لہرایا تو کسی بھی پاکستانی کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا لیکن اس لئے کہ وہ سب حضرات حکمرانی کے اصولوں سے پوری طرح وقف تھے کہ قومی پرچم کس عزت و احترام کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس لئے انہوں نے کبھی جماعتی پرچم کو قومی پرچم کے مقابلے پر لہرانے کے بارے میں سوچا تک نہیں جن لوگوں کو پاکستانی پرچم کے احترام کی توقع بھی عبث ہے۔ بہرحال جمہوری ملکوں میں تو یہی روایت ہے کہ قومی پرچم ہی ہر دوسرے پرچم پر مقدم ہوتا ہے۔
پی پی کے دور میں تو یہ ہورہا ہے کہ وزیر اعظم یا ان کی کابینہ کے کسی وزیر کی زیر صدارت جب کبھی سرکاری اجلاس منعقد ہوتے ہیں تو صدر نشین کی پشت پر ایک طرف پاکستانی پرچم اور اس کے مقابلہ میں پارٹی پرچم ہوتا ہے اور یہ کریہہ اور تکلیف دہ منظر ٹی وی کے خبرناموں میں کسی وقت بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پی پی کو جمہوریت پسندی کی سند عنایت کرنے والے ملک امریکہ کے صدر کو اکثر اجلاس یا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے مگر وہاں امریکہ کے قومی پرچم کے علاوہ کوئی اور پرچم نظر نہیں آتا۔
No comments:
Post a Comment