۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کا متبادل
روزنامہ جنگ منگل 25 جون 2001ء
انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے ساتھہ ہونے والے ظلم و جبر، ناانصافی اور حق تلفی پر خاموش رہتا ہے نہ اپنی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے باز آتا ہے چاہے سب کچھہ اس کے والدین ، عزیز و اقارب ، دوست احباب، معاشرے یا حکومت کسی کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔ ہر آزاد اور جمہوری معاشرہ میں لوگوں کو احتجاج کا حق حاصل ہوتا ہے اب یہ احتجاج کرنے والے گروہ، تنظیم یاجماعت پر منحصر ہے کہ وہ اس کے لئے پر امن طریقہ اختیار کرتے ہیں یا پر تشدد، لیکن یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ غریب اور تیسری دنیا کے ممالک میں جہاں لوگوں کو پینے کیلئے صاف پانی اور آمدورفت کیلئے پختہ سڑکیں تک نہیں ہیں وہاں نہ صرف ہڑتالیں بڑے شوق کے ساتھہ کی جاتی ہیں بلکہ وہ ماردھاڑ، گھیراؤ جلاؤ اورتوڑ پھوڑ سے بھرپور ہوتی ہیں لوگ شہری سہولتوں کو جو اتفاق سے انہیں حاصل ہیں توڑتے پھوڑتے ہیں، بسوں کو آگ لگاتے ، ٹریفک سگنلز ، بجلی اور ٹیلیفون کی تنصیبات کو دل کھول کر نقصان پہنچاتے، نجی اور سرکاری املاک کو جلاتے، صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا کرتے حتٰی کہ لوگوں کو ہلاک و زخمی بھی کردیتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یا تو ہڑتالیں ہوتی نہیں اور اگر کبھی ایسی نوبت آ بھی جائے تو نہ کسی کی نکسیر پھوٹتی ہے نہ کسی کار کا شیشہ ٹوٹتا ہے نہ زبردستی کاروبار بند کرایا جاتا ہے نہ ٹریفک میں خلل ڈالا جاتا ہے اور اگر کسی صنعتی ادارے کے کارکنان کو شکایت ہوتی ہے تو کھانے یا آرام کے وقفہ کے دوران وہ اپنے ادارہ کے احاطہ میں یا باہر کھلی جگہ جمع ہوکر تقریریں کرتے، اپنے مطالبات کا ذکر کرتے اور وقفہ کے خاتمہ کے ساتھہ ہی اپنے کام پر واپس چلے جاتے ہیں وہ نہ سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں نہ پیداوار میں کمی کرتے ہیں اسلئے کہ وہ جانتے ہیں ادارہ کی پیداوار کم ہوگی اور اگر اسے نقصان ہوگیا تو ادارہ ہی بند ہوجائے گا وہ ملکی سرمایہ کو اپنا ہی سرمایہ سمجھتے ہیں اسلئے کہ انہیں معلوم ہے تمام قومی ملکیت میں ہر شہری کا برابر کا حصہ ہوتا ہے بجلی کے ایک بلب کو بھی توڑا جائے گا تو یہ قومی نقصان ہوگا جبکہ ہم مشتعل ہوجائیں تو ملک کی ہر چیز کو آگ لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔
جیسے ہی ہڑتال کا اعلان ہوتا ہے حکومت کی طرف سے بلا تاخیر یہ اعلان آجاتا ہے کہ "ہڑتال بلا جواز ہے۔ شہری اسے نظر انداز کردیں ان کے تحفظ کو یقنیی بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات کرلئے گئے ہیں" اور ایسا کیوں نہ ہو شہریوں کی جان ومال اور عزت و آبرو کا تحفظ حکومت وقت کی بنادی آئینی ذمہ داری ہے لیکن عوام بالخصوص کراچی کے شہری ہڑتال اور "حفاظتی اقدامات" کی روح اور ان کے حقیقی معانی و مفہوم کو خوب سمجھتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے دنوں ایک ہڑتال کے موقع پر میں نے اپنے نواسے سے جو پہلے جماعت کا طالب علم ہے کہا کہ آج ہڑتال کی وجہ سے سڑکیں سنسان ہیں بسیں ، کاریں اور ٹرک وغیرہ کچھہ بھی نہیں چل رہے ہیں تم اپنی سائیکل لیجاؤ اور سڑک پر خوب چلاؤ، اس نے برجستہ کہا "تاکہ میری سائیکل جلادی جائے"۔ ہڑتالیں کسی اعلٰٰی مقصد کے حصول کیلئے کی جاتی ہیں جبکہ ہمارے یہاں بیشتر ہڑتالوں کا تعلق کسی کی رہائی یا کسی کی گرفتاری سے ہوتا ہے یا کسی کے خلاف شکایات سے لیکن اس کی تمام تر زد صرف ان عوام پر پڑتی ہے جن میں سے اکثر روزانہ مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں لیکن ہڑتال کے دن گھروں میں بیٹھے سوچتے رہتے ہیں کہ شام بچوں کو کیا کھلائیں گے ، مریض دوا سے یا اسپتال جانے سے محروم، ملک کا آئین تو روزگار اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے کا حق دیتا ہے لیکن ہم انہیں نہ صرف اس حق سے محروم کر دیتے ہیں بلکہ ہڑتال کے سبب وہ حبس بیجا میں رہنے پر بھی مجبور کردیئے جاتے ہیں اور عوامی خدمت کے تمام ادارے مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے احتجاج انسانی فطرت کا تقاضا ہے ہر آزاد معاشرہ میں افراد کو احتجاج کا حق حاصل ہے۔ لیکن انسان کو حاصل تمام حقوق قانون، تہذیب ، رواداری اور انصاف سے مشروط ہیں۔
ہڑتال احتجاج کی ایک صورت ہے اس لئے ہم اور بھی طریقے اختیار کرسکتے ہیں کہ ہمیں کسی گاڑی کو، کسی عمارت کو ، کسی ادارے کو جلانے کی ضرورت پڑے نہ کسی کو دھمکی دینے یا کسی کو ہلاک کرنے کی نوبت آئے۔ ہمارے معاشرہ میں جہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ایذا پہنچانے، رقم بٹورنے اور دھوکہ دینے کے نت نئے طریقے اختیار کرنے میں مہارت رکھتے ہوں تو کیا وہاں ایسے حضرات نہیں ہوں گے جو اپنے حتجاج کیلئے ایسے مہذبانہ راستے اختیار نہیں کرسکتے ہوں کہ ہمارا مقصد بھی پورا ہوجائے اور کسی کو تکلیف پہنچے نہ نقصان، اس کا بہترین حل تو یہ ہے جب تک پاکستان قرضروں کی لعنت سے چھٹکارا پا کر اپنے پیروں پر کھڑا اور ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن نہیں ہوجاتا کسی بھی قسم کی ہڑتال، احتجاج، مظاہروں اور دھرنوں سے مکمل پرہیز کیا جائے اور اگر کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو تو متاثرہ تنظیم ، گروہ یا جماعت کے ایک دودرجن رہنما بینر لیکر پریس کلبوں، گورنر ہاؤسز، کمشنر یا ڈپٹی کمشنر دفاتر کے سامنے ایک آدھ گھنٹے کھڑے ہوکر اپنا احتجاج نوٹ کروادیں اس سے مثبت تشہیر ہوگی لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ صرف ہڑتال ہی کام دے سکتی ہے تو پھر
· ہڑتال میں شرکت قطعی رضاکارانہ ہو اس کے لئے نہ گاڑیاں جلائی جائیں ، نہ فائرنگ کی جائے، نہ شہریوں کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دی جائیں۔
· ہڑتال کی نوعیت کچھہ کیوں نہ ہو تعلیمی اور صنعتی پیداوار کے ادارے اور ٹریفک ہر گز بند نہ ہوں۔
· ہڑتال کیلئے چند گھنٹوں کا وقت مقرر کیا جائے مثلاً صبح دس سے ایک دو بجے تک تاکہ روزانہ کما کر کھانے والے مزدور اور کاریگر روزگار سے محروم نہ رہیں نہ رکشا، ٹیکسی اور ریڑھی والوں کے کام پر برا اثر پڑے۔
· دھرنا دے کر یا رکاوٹیں کھڑی کرکے آمدورفت کے ذرائع اور شاہراہوں کو بند کرنا، انسان کے بنیادی حقوق ، آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے اس سے بچنیا چاہئے۔
ہڑتالوں کی ایک قسم قومی نوعیت کی بھی ہوتی ہے جیسے 5فروری کو یوم کشمیر، اس دن پورے ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ مختلف تنظیموں اور جماعتوں کے علیحدہ علیحدہ جلوس نکلتے اور جلسے منعقد کئے جاتے ہیں ، کسی اعلٰی مقصد کے سلسلہ میں اظہار تشویش اور اظہار یکجہتی کا یہ منافقانہ نہ سہی عیاشانہ انداز ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اس دن یکجہتی کے بجائے کثیر الجہتی کا عملی ثبوت دیتے ہیں اور دشمن کو بتادیتے ہیں کہ ہم ایک نہیں، دوسرا فائدہ دشمن کا یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا اربوں کھربوں کا نقصان خود کرلیتے ہیں یہ سب کچھہ دشمن کے مفاد میں جاتا ہے۔ اسلئے ایک آزاد اور خود دار شہری کی حیثیت سے ہمارا فرض یہ ہے کہ ایسے مواقع پر ہم معمول سے زیادہ کام کریں، صنعتی پیداوار بڑھائیں، برآمدات میں اضافہ کی حقیقی کوشش کریں اور اگر ہمیں کسی کے مقاصد سے واقعی ہمدردی ہے تو اس دن کی آمدنی ان کے لئے وقف کردیں اگر کشمیر رقم نہیں بھیجی جاسکتی تو پاکستان میں کشمیری مہاجرین کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کی مدد کریں ، ان کے بچوں کی تعلیم اور صحت کے منصوبے بنائیں، افغان بھائی بھی ہیں، یورپ میں بوسنیا، کوسوو، البانیہ اور مقدونیہ کے ستم رسیدہ مہاجر ہیں ان کی مدد کی جاسکتی ہے۔ گھر بیٹھہ کر تفریح گاہوں پر جاکر کسی اعلٰٰی مقصد سے اظہار یکجہتی خود فریبی سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے، ہمیں اس سے نکلنا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment