نقل مکانی اور اس کے اثرات
روزنامہ جنگ پیر 10 اگست 1987ء
نقل مکانی کی روک تھام اور اس سے پیدا شدہ اثرات سےبچنے کیلئے صرف نیت، حوصلہ اور مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ہمیں اس مسئلہ کو بالعموم صوبہ سندھ اور بالخصوص کراچی کے پس منظر ہی میں دیکھنا ہوگا اس لئے کہ دوسرے صوبوں سے سندھ اور کراچی کی طرف جس تسلسل اور جس رفتار سے نقل مکانی کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد ہی سے جاری ہے اگر جلد از جلد اسے روکنے کیلئے مناسب تدابیر اختیار نہیں کی گئیں تو سندھ میں پرورش پانے والی بے چینی کوئی خطرناک رخ اختیار کرسکتی ہے اس کے کچھہ افسوسناک مظاہر پچھلے دنوں سامنے آبھی چکے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ میں ہونے والے چھوٹے بڑے واقعات کے اثرات پورے ملک میں محسوس کئے جاتے ہیں۔
اصل مسئلہ ہے کراچی میں گنجائش سے زیادہ آبادی کا۔ کراچی کو مملکت خدا داد پاکستا نکے پہلے دارالحکومت ، پہلے بین الاقوامی اور ملک کے سب سے بڑے ہوائی اڈے اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بھارت کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے بھی مہاجرین کی بڑی تعداد نے اسی شہر قائد کو اپنا مسکن بنانا پسند کیا ان آنے والوں میں ہنرمند اور محنتی افراد کثرت سے موجود تھے۔ پھر کراچی میں درآمد و برآمد کی بھی تمام تر سہولتیں موجود تھیں۔ خام مال کا حصول بھی آسان رہا۔ دنیا بھر کے تجارتی مرکزوں کے ساتھہ یہاں سے بحری، فضائی اور مواصلاتی رابطے قائم کرنے میں بھی سہولتیں مہایا ہوئیں۔ آب و ہوا میں شدت نہ ہونے کی بناء پر کراچی میں کارکنوں کی صلاحیت کار پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ ان تمام حقائق کے پیش نظر صنعتی اور تجارتی اداروں کے قیام کا پورا زور اسی شہر کی طرف رہا اس لئے کہ کراچی میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جو شرح منافع میں اضافہ کی ضمانت ہوتی ہیں۔
کراچی کی آبادی میں اضافہ کی رفتار میں تو کمی ہونے کے بجائے چند برس ادھر سے اضافہ ہی ہورہا ہے لیکن دوسری طرف سے کے وسائل میں تیزی کے ساتھہ کمی واقع ہورہی ہے۔ اب کراچی 1948ء کو کراچی بنتا جارہا ہے۔ جب پانی اور بجلی کی سہولتیں حاصل نہیں تھیں۔ آج بھی بلند بانگ دعوؤں کے باوجود کراچی کے بیشتر علاقے ہفتوں پانی کے لئے ترستے رہتے ہیں اور بغیر کسی اطلاع اور اعلان کے گھنٹوں بجلی غائب رہتی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ صورت حال رمضان کے ہر مہینے ہی میں زیادہ تواتر کے ساتھہ پیش آتی ہے۔ اور اس کی تمام تر ذمہ داری ہمارے منصوبہ سازوں کی ہے جو مستقبل کے بارے میں سوچنے اور حالات کو سمجھنے کی صلاحیت سے قطعی محروم ہیں یا پھر سب کچھہ کسی منصوبہ بندی کے تحت کیا جارہا ہے کہ کراچی کبھی مسائل سے نہ نجات پاسکے۔
کراچی کو شروع دن سے جن مسائل کا سامنا رہا ہے ان میں پانی، بجلی اور ٹراسپورٹ ہمیشہ سرفہرست رہے ہیں لیکن اب روزگار کا حصول بھی عنقا ہوچکا ہے اور اس کی ذمہ داری کلیتاً ہماری نوکر شاہی پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ بنیادی شہری سہولتوں کے بجائے ذاتی معاملات میں ہی الجھی رہتی ہے پانی کی کمی کا سبب ناقص منصوبہ بندی اور متعلقہ محکمہ کی غفلت کے علاوہ وسائل کی کمی ، وسیع پیمانہ پر صنعتوں کا قیام، بڑے بڑے بنگلوں اور کوٹھیوں کے سبزہ زار کے لئے پانی کی چوری اور ذخیرہ اندوزی اور بڑے بڑے فلیٹوں کی تعمیر بھی ہے۔ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم بھی پانی کی کمی کا ایک اہم سبب ہے اور س تقسیم کے پیچھے اکثر سیاسی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ایئرکنڈیشنروں کی بھرمار، گھر گھر فریج، بجلی کی استریوں، دن رات وی سی آر اور ڈیک کے آزادانہ استعمال، شادی بیاہ اور خوشی کے دوسرے موقعوں پر میدانوں اور شادی ہالوں میں روشنی کا بے انتہا استعمال اور چراغاں بجلی کی کمی کا سبب ہیں پھر بجلی کی چوری اور اس کی سرپرستی کا تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے۔ محلوں اور گلیوں میں منعقد کی جانے والی تقریبات میں تو عام طور پر بجلی براہ راست کھمبوں ہی سے حاصل کی جاتی ہے۔ پھر بیرون سندھ سے آنے والے بہت سے افراد اور خود کراچی میں موجود ایک گروہ نے جگہ جگی جھونپڑیاں ڈالنے کا پیشہ اپنایا ہوا ہے۔ جابجا تجاوزات اور ناجائز قبضہ کراچی میں معمول بن چکا ہے اس کے سبب کراچی میں صحت و صفائی کے مسائل کے علاوہ دیگر اخلاقی اور سماجی مسائل بھی جنم لیتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ان تمام دھندوں کے پیچھے بااثر افراد اور بددیانت سرکاری اہل کار ہیں۔ جب چوکیدار ہی چور بن جائے تو پھر تحفظ کا احساس کس طرح پیدا ہوسکتا ہے۔
ٹرانسپورٹ کی سہولت بہم پہنچانے کے نام پر کراچی میں "دڑبوں" اور گھونسلوں کو سڑکوں پر لے آیا گیا کراچی جیسی حساس باشعور اور تعلیم یافتہ آبادی ہی کے ساتھہ نہیں یہ بسیں تو توہین آدمیت کا چلتا پھرتا مرقع ہیں ان منی بسوں سے انسانوں کی باربرداری کے کام میں آسانیاں تو پیدا ہوتی ہوں گی لیکن ان سے لوگوں کی ذہنی اذیت کا بھی سامان پیدا کردیا گیا ہے۔ مخصوص طرز زندگی کے حامل کنڈیکٹروں اور ڈرائیوروں کے رویے سے شرفاء کی تذلیل، خواتین کی بے حرمتی اور لڑائی جھگڑوں کا پوا پوا اہتمام ہوگیا ہے ۔ پھر دس ہزار روپے کی بیمہ پالیسی کا اجراء کرکے بہتوں کو منی بسوں کے طفیل اس رقم کا حق دار بھی ہر روز بنادینے کا انتظام ہوگیا ہے۔
یہاں کسی خاص طبقہ کو مورود الزام ٹھہرانا کسی کی دل شکنی مقصود نہیں ہے لیکن جب کسی مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے تو ہر اچھے برے پہلو پر دیانتداری اور فراخ دلی کے ساتھہ غور کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اس امر کی نشاندہی بے محل نہٰں ہوگی کہ کراچی کے دروازوں پر پٹھان بھائیوں کی جو بستیاں آباد ہیں ان کی اکثریت شریف اور محنت مزدوری کرنے والے افراد پر مشتمل ہے لیکن یہ کہتے ہوئے دکھہ ہوتا ہے کہ ان سادہ لوح اور سیدھے سادے مسلمانوں کے درمیان جرائم پیشہ، منشیات فروش اور ناجائز اسلحہ کے مذموم کاروبار میں ملوث افراد کو بھی آسانی کے ساتھہ پناہ مل جاتی ہے اور پھر یہی لوگ پوری بستی اور اس سے بھی آگے بڑھ کر پورے طبقہ کے لئے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ سہراب گوٹھ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں کی آبادی کی اکثریت شریف اور قانون کے پابند لوگوں پر مشتمل تھی لیکن اس بستی میں چند ایسے لوگ بھی بلا روک ٹوک مقیم تھے جو سماج دشمن اور گھناؤنے کاروبار میں ملوث تھے انہی کی وجہ سے سہراب گوٹھہ ایک گالی بن گیا تھا۔ یہ کہاوت کوئی نئی اختراع نہیں ہے کہ "ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے۔"
اب ذرا نقل مکانی کے سبب پیدا ہونے والے اقتصادی، سماجی و معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں۔
اقتصادی: اس حقیقت کو تو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ک کراچی اب وسائل سے محروم مسائل کا شہر بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود دور و نزدیک سے لوگ بڑی تعداد میں اس کی طرف رواں دواں ہیں اور اس پریشان کن صورت حال کے پیش نظر سندھ میں اب "ورک پرمٹ" کی صدائیں آنے لگی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھہ اور بھی نعرے ہیں جو کبھی کبھار سننے میں آتے ہیں لیکن "ورک پرمٹ" قسم کی قانونی پابندیاں نہ صرف یہ کہ مسئلہ کا حل نہیں ہیں بلکہ یہ غلط اور خطرناک رجحان کی غماز بھی ہیں۔ لیکن اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ باتیں سندھ کی حکومت کے سربراہ سے بھی منسوب کی جارہی ہیں۔ اس قسم کی پابندیاں تو کنفڈریشن میں بھی نہیں لگائی جاتیں چہ جائیکہ پاکستان میں اس پر غور کیا جائے۔
کراچی اور سندھ پر بڑھتے ہوئے آبادی کے دباؤ کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ آزاد کشمیر، صوبہ سرحد اور پنجاب کی حکومتیں اپنے یہاں روزگار کے مزید وسائل پیدا کرنے کی خاطر صنعتیں قائم کرنے کے لئے لوگوں کی دعوت دیں لیکن صنعتیں وہیں قائم کی جاتی ہیں جہاں اس بات کی ضمانت بھی ہو کہ ان کے کام میں رخنے نہیں ڈالے جائیں گے ۔ صنعتوں کے قیام اور ان کی کامیابی کے لئے امن و امان کی بہتر صورت ضروری ہے۔ مذکورہ بالا صوبائی حکومتوں کو اس کا اہتمام کرنا چاہئے۔ آزاد کشمیر، صوبہ سرحد اور پنجاب سے بڑی تعداد میں لوگ بسلسلہ روزگار بیرون ملک گئے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومتیں ان لوگوں کو رضامند کرے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں امداد باہمی کی بنیاد ہی پر سہی کم از کم چھوٹی صنعتیں ہی قائم کریں پھر گھریلو صنعت کو بھی ترقی دی جاسکتی ہے اگر لوگوں کو اپنے دروازے ہی پر روزگار ملے گا تو پھر کون ہوگا جو اہل خانہ کو چھوڑ کر کراچی کا رخ کرے گا۔
بہت سے ممالک ہتھیار بناکر دوسرے ملکوں کے ہاتھوں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صوبہ سرحد کے کچھہ علاقوں میں ہتھیار سازی عام گھریلو دستکاری کے طور پر مروج ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ اس کام میں نظم پیدا کرے اور سرکاری نگرانی میں یا کسی معقول ادارے کے تحت ہتھیار بنانے کے چھوٹے یا بڑے کارخانے قائم کرے ان کارخانوں میں ماہرین حکومت فراہم کرے تاکہ روایتی ہتھیاروں کے بجائے جدید ترین ہتھیار بھی بنائے جاسکیں ان ہتھیاروں کے لئے مارکیٹ ہمیں عرب اور افریقی ملکوں میں مل سکتی ہے۔
پھر ملکی صنعت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں اسمگلنگ کے ذریعہ لائے جانے والے سامان پر قطعی پابندی لگائی جائے آج کراچی میں حبیب اسکوائر کے قریب اور موتن داس مارکیٹ وغیرہ میں سرعام دنیا کی ہر شے بغیر کسی خوف کے فروخت کی جارہی ہے پھر صدر کے علاقے میں الیکٹرونکس کے سامان کی بھرمارہے، جدید ترین اور بڑی بڑی گاڑیاں آپ کراچی میں خرید سکتے ہیں، ایئرکنڈیشنر، فریج اور واشنگ مشین فٹ پاتھہ پر آپ کو مل جائیں گی، جاپان اور تائیوان کی مہریں لگا ہوا "غیرملکی" کپڑا آپ جتنا چاہیں خرید لیں۔ جب صورت حال یہ ہوتو ملک کی صنعتیں "بیمار" نہ ہوں تو کیا صحت مند ہوں گی۔ لیکن ہمارے منصوبہ ساز اور قانون کی بالادستی کا حوالہ دینے والے اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتے بہرحال یہ آزاد اور خود دار قوموں کے لچھن نہیں ہوتے۔
نقل مکانی کو حوصلہ شکنی کی غرض سے فی الفور یہ پابندی لگا دینی چاہئے کہ اب کراچی ہی میں نہیں بلکہ سندھ میں کسی بھی جگہ جھونپڑی نہیں ڈالی جائے گی۔ پھر DETTERMENT TAX قسم کا کوئی ٹیکس بھی نئے آنے والوں پر عائد کیا جائے یا چھوٹے بڑے تمام کاروباری اداروں اور دفتروں پر یہ پابندی لگادی جائے کہ وہ صرف "دفتر روزگار" EMPLOYMENT EXCHANGE کے ذریعہ ہی کسی کو ملازم رکھیں گے اور دفتر روزگار غیر سندھیوں پر ایک ایک ٹیکس عائد کردے۔ لیکن ان تمام باتوں پر عمل درآمد کیلئے دیانتدار اور فرض شناس انتظامیہ کی ضرورت ہے جو بدقسمتی سے ہمارے یہاں اب عنقا ہے۔
سماجی و معاشرتی: شہر کے مختلف علاقوں میں کھیل کود کے میدانوں، پارکوں، رفاہ عامہ کے لئے مخصوص پلاٹوں اور دیگر مقامات پر ناجائز قبضوں کو فوری طور پر ختم کرایا جانا چاہئے۔ دیکھا گیا ہے کہ سڑکوں، میدانوں اور مکانوں کے درمیان جہاں بھی جگہ ملی کچھہ لوگ ہوٹل، تندور یا ٹال قائم کرلیتے ہیں یا وہاں ٹرکوں، بسوں اور سوزوکیوں کے اسٹینڈ اور گیراج بنالیتے ہیں۔ ان تمام سے سماجی اور معاشرتی مسائل جنم لیتے اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا فوری سدباب ہونا ضروری ہے۔ پھر منی بسوں کی وجہ سے بھی شہر میں سماجی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ امن و امان کے مسئلے بھی کھڑے ہوتے رہتے ہیں اس لئے منی بسوں کو بھی فوری طور پر کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ بدر کردیا جانا چاہئے۔
سیاسی: سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی انتقال آبادی سے سنگین مسائیل پیدا ہورہے ہیں اور سندھ کے لوگوں کو بجا طور پر خطرہ لاحق ہے کہ اسی رفتار سے اگر بیرون سندھ سے لوگ آکر یہاں آباد ہوتے رہے تو پھر سندھ کے اصلی باشندے قطعی اقلیت میں بدل جائیں گے پھر لوگ مطالبہ کریں گے صوبہ سندھ کا نام اب "پنسر" (پنجاب، سرحد) رکھا جائے اور یہ خطرہ اس لئے بھی محسوس کیا جانے لگا ہے کہ مرکزی کابینہ تک میں صوبہ سندھ سے غیر صوبہ والوں کو نمائندگی ملنے لگی ہے۔ اس خطرہ کو ختم کرنے کے سلسلہ میں پچھلے دنوں حیدرآباد سے رکن قومی اسمبلی مولانا سیّد وصی مظہر ندوی کی طرف سے ایک معقول تجویز سامنے آئی ہے جس کے مطابق کسی بھی صوبہ میں غیر صوبہ کے لوگوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہ ہوا اس طرح کم از کم سندھ کے لوگوں کو یہ تو اطمینان ہوجائے گا کہ وہ مستقبل قریب میں سیاسی لحاظ سے اقلیت میں تبدیل نہیں ہورہے ہیں اور یہ کہ سندھ "پنسر" نہیں بن رہا ہے۔
وزارتِ امور کراچی۔
کراچی کے معاملات اس قدر پیچیدہ اور گھمبیر ہیں کہ ان کی طرف توجہ ینے اور ان کو حل کرنے کے لئے ایک کل وقتی اور بااختیار وزیر کی ضرورت ہے۔ جس طرح 1958ء میں "وزارت امور کراچی" قائم کی گئی تھی اسی طرح صوبائی کابینہ میں جہاں بہت سی وزارتیں ہیں اسی نوع کو ایک قلمدان وزارت تشکیل دیا جانا چاہئے۔ سندھ کی وزیر اعلٰی سے بجا طور پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس پہلو پر توجہ دیں گے اس طرح بہت سے مسائل کو زور کم کیا جاسکے گا۔
No comments:
Post a Comment