قائد اعظم کی ہدایت پر مسلمانوں نے یوم نجات منایا

روزنامہ جنگ جمعۃ المبارک 29 دسمبر 1989ء

برصغیر میں مطالبہ آزادی کے جواب میں برطانوی حکومت کے قانون ہند 1935ء جاری کیا جس کا مقصد صوبوں میں صوبائی حکومتیں اور مرکز میں وفاقی طرز کی حکومت کا قیام تھا۔ مسلمانوں کیلئے جداگانہ طریقۂ انتخاب کا اصول پہلے طے ہوچکا تھا۔ قانون ہند 1935ء پر نہ تو مسلم لیگ متفق تھی نہ کانگریس لیکن مسلم لیگ نے اس کی صوبائی اسکیم کو اس خیال سے منظور کرلیا تھا کہ بعد میں اس کو بہتر بنایا جاسکے گا۔ اس قانون کے تقاضوں کی تکمیل کی خاطر 37-1936ء کے موسم سرما میں انتخابات ہوئے جس میں کانگریس نے 11 میں سے 5 صوبوں میں مکمل اکثریت حاصل کرلی اور جوڑ توڑ کے بعد صوبۂ سرحد اور بمبئی میں بھی اپنی اکثریت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ مسلم لیگ اس وقت تک عوامی سطح پر منظم نہیں کی جاسکی تھی لیکن یہ عجب اتفاق ہے کہ یو پی میں اسے 27 نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں کل 41 امیدوار کامیاب ہوئے۔ بنگال سے 40 اور پنجاب سے ایک سندھ اور سرحد میں مسلم لیگ کو ایک بھی نشست نہیں مل سکی۔ یو پی میں کانگریس نے مسلم لیگ کو کابینہ میں شامل کرنے کیلئے یہ شرط رکھی کہ مسلم لیگ کو ختم کردیا جائے ، اس لئے یہ شرط تسلیم نہیں کی گئی اور مسلم لیگ کہیں بھی حکومت بنانے یا اس میں شامل ہونے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

جولائی 1937ء میں سات صوبوں میں کانگریس کی حکومتوں کا قیام ہوا، جو کہ مسلمانوں کے خلاف انتقام اور ظلم و زیادتی کا آغاز ثابت ہوا۔ صوبائی حکومتیں قائم ہوتے ہی ہندو اور کانگریس کے لیڈر یہ سمجھنے لگے کہ اب برصغیر میں رام راج قائم کرنے کا اپنا دیرینہ خواب پورا کرنے کا وقت آگیا ہے، لیکن انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ رام راج کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ برصغیر کے مسلمان ہیں ، اس لئے انہوں نے مسلمانوں کو اپنا ہدف بناکر ہر طریقہ سے انہیں دبانے اور مرعوب کرنے کی کوشش شروع کردی۔ مرکزی قیادت نے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی خاطر مسلم عوام سے رابطہ کی مہم شروع کردی اور اس مہم میں انہوں نے چند عالموں کو بھی اپنے ساتھہ ملالیا اور ادھر صوبوں میں ان کے تشخص کو ہر سطح پر ختم کرنے کا کام شروع کردیا۔ رابطہ مہم تو بری طرح سے ناکام ہوگئی ، اس لئے کہ بعد میں جتنے ضمنی انتخاب ہوئے ان میں مسلم لیگ نے انتظامی مشینری کو بھی معطل کرکے رکھہ دیا اور انہیں بھی مسملمانوں کے خلاف کام کرنے پر لگادیا کانگریسی کارکنوں نے قصبوں اور دیہات میں متوازی حکومتیں قائم کرکے مسلمانوں کو ظل و ستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ انتقامی کاروائی کی انتہائی حد یہ ہے کہ مسلم لیگ کو ووٹ دینے والے مزدور تک کو مزدوری سے علیحدہ کرنے سے دریغ نہیں کیا گیا۔

ہندو مہاسبھا اور کانگریسوں کی اشتعال انگیز تقریروں سے یوپی، سی پی اور بہار وغیرہ میں مسلمانوں کے خلاف فسادات پھوٹ پڑے۔ کانگریسی حکومتوں نے ان کا الزام بھی مسلمانوں ہی پر دھرنا شروع کردیا کہ کانگریس کی حکومت کو ناکام بنانے کیلئے یہ سب کچھہ کروایا جارہا ہے۔ پولیس مسلمانوں کی شنوائی نہیں کرتی تھی اور انتظامیہ کانگریس کے حلیف کی حیثیت اختیار کرچکی تھی۔ مسلمانوں کے تہواروں پر دفعہ 144 نافذ کرکے مختلف پابندیاں لگادی جاتی تھیں۔ گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں پر جھوٹے الزام لگا کر ان پر حملے کئے جاتے تھے۔ جہاں گائے کے ذبحہ کے لائسنس تھے وہ منسوخ کردیئے گئے ، اس طرح مسلمانوں کو طرح طرح سے پابند کیا جانے لگا۔ ہندوؤں کا ایک نغمہ "بندے ماترم" پر حکومت ہند نے پابندی لگا رکھی تھی لیکن صوبائی حکومتوں نے نہ صرف اس پر سے پابندی اٹھا لی بلکہ اسے قومی ترانہ کی حیثیت دے کر اسکولوں اور دیگر تقریبات میں اس کا گانا لازمی قرار دے دیا، اس میں کئی کافرانہ اور مسلم دشمن بند تھے لیکن مسلمان بچوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ یہ "قومی ترانہ" گائیں حالانہ یہ خالصتاً ہندو نغمہ تھا۔ کانگریس پارٹی نے بھارتی "ترنگے" کو قومی پرچم قرار دے کر اسے مدرسوں وار دیگر بلدیاتی اداروں پر لہرانا شروع کردیا۔ مسلم لیگ نے بندے ماترم کو قومی ترانہ اور ترنگے کو قومی پرچم قرار دیئے جانے پر سخت اعتراض کیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ بندے ماترم گانے میں اور ترنگا لہرانے میں ہر گز شریک نہ ہوں۔

صوبائی حکومتیں تیزی کے ساتھہ ہندو راج کی منزل پر پہنچنے کے شوق میں گھٹیا حرکتوں پر اترتی چلی جارہی تھی ، کئی مقامات پر یہ کہہ کر اذان پر پابندی لگادی گئی کہ اس سے اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ سی پی اور برار میں تو اسکول کے مسلم طلبہ کو "السلام علیکم" کے بجائے "نسمتے" اور "رام جی کی جے" کہنے کے علاوہ سرسوتی دیوی کے سامنے ہاتھہ جوڑ کر پوجا کرنے پر بھی مجبور کیا گیا۔ مسٹر گاندھی کے یوم پیدائش پر ایک گتتی مراسلہ کے ذریعہ صدر مدرسین کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس دن گاندھی جی کی تصویر کی پوجا کریں اور مسلمان اس سے مستشنٰی نہیں تھے۔

اردو کو محض مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کے خلاف بھی اس طرح کاروائی کا آغاز کردیا کہ ذریعۂ تعلیم اردو کی جگہ "ہندوستانی" کو قرار دیا گیا اور اردو مدارس کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ اسمبلیوں میں بھی اردو تقاریر سے نفرت کے اظہار کے طور پر اس کا ترجمہ کرنے کا اہتمام کیا گیا ، اردو میں دی جانے والی درخواستیں قبول نہیں کی جاتی تھیں۔ یہی حال عدالتوں کا بھی بنادیا گیا۔ اردو اخبارات کو متعصب قرار دے کر ان پر اشتعال انگیز خبروں کے نام پر ضمانتیں طلب کی جانے لگیں۔

مسلمانون کو تعلیمی شعبہ میں مزید پسماندہ رکھنے کی غرض سے "ودیا مندر" یعنی "مندر مدرسہ" اسکیم جاری کی گئی عام مدرسوں کی جگہ مندروں میں مدرسوں کے قیام کا مقصد یہ بھی تھا کہ ہندو دھرم کو فروغ اور فوقیت حاصل ہو۔ اس طرح مسلمانوں کو تعلیم سے بے بہرہ رکھنا بھی تھا اور اگر کوئی اپنے بچہ کو پڑھانا چاہے تو وہ اسے مندر میں بھیجے ، اس لئے مسلمان اپنے بچوں کو مندر میں بھیجنے کے بجائے ان پڑھ رکھنے پر ترجیح دیتے تھے۔

عدل و انصاف کا دعویٰ کرنے والے کانگریسی لیڈروں نے عدالت کے کام میں بھی مداخلت شروع کردی ، وہ مختلف مقدمات کے سلسلہ میں عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ ان میں اتنی جرأت پیدا ہوگئی کہ وہ عدالتوں کو اس ضمن میں خط لکھنے لگے اور اس کا ثبوت الہ آباد ہائیکورٹ کا وہ فیصل ہے جو صوبائی اسمبلی کے ایک رکن کے خلاف توہین عدالت کے مقدمہ میں دیا تھا۔ کورٹ نے صاف الفاظ میں لکھا تھا کہ کانگریس کے کارکن اور لیڈر مخلتف عدالتوں کو مقدمات کے بارے میں خطوط لکھتے رہتے ہیں۔

مسلم لیگ کی مرکزی قیادت ملک میں پیش آنے والے ان حالات سے پوری طرح باخبر تھی اور وہ اس صورتحال کو بہت تشویشناک سمجھتی تھی لیکن وہ ثبوت کے بغیر کوئی بات نہیں کہنا چاہتی تھی ، اس لئے مسلم لیگ نے 20 مارچ 1938ء کو اس سلسلہ میں ایک خاص کمیٹی مقرر کرنے کا فیصلہ کیا جو نو افراد پر مشتمل تھی۔ کمیٹی کے چیئرمین پر پور کے راجہ سیّد محمد مہدی تھے ، اسی نسبت سے کمیٹی کی پیش کردہ رپورٹ "پیر پور رپورٹ" کے نام سے مشہور ہے۔ کمیٹی نے چھہ صوبوں یعنی یوپی، بہار، اڑیسہ، سی پی، مدارس اور بمبئی کا دورہ کرکے کانگریس حکومتوں کی طرف سے مسلمانوں پر توڑے گئے ظلم ع ستم کا جائزہ لیا اور ٹھوس ثبوت جمع کرکے اکتوبر 1938ء کے آخری ہفتہ میں اپنا کام مکمل کرلیا۔ اس رپورٹ کی روشنی میں مسلم لیگ نے گورنر جنرل سے مطالبہ کیا کہ جن صوبوں میں کانگریسی حکومتیں قائم ہیں ، ان کے معاملات کی تحقیقات کرائی جائے۔

ہندوستان میں کانگریس کی حرکتوں سے مسلمانوں میں اشتعال بڑھتا جارہا تھا کہ دوسری عالمگیر جنگ چھڑ گئی جس میں برطانیہ بھی پوری طرح ملوث تھا۔ ان بدلے ہوئے حالات کے پیش نظر کانگریس نے برطانیہ کو بلیک میل کرکے مختار کل بننے کی کوشش شروع کردیں لیکن برطانوی حکومت کیلئے ایسے موقع پر کانگریس کے سامنے گھٹنے ٹیکنا مشکل ہوگیا اور اس کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ 14 نومبر 1939ء تک کانگریس کی تمام صوبائی حکومتیں مستعفٰی ہوگئیں برصغیر کے مسلمانوں اور خاص طور پر ان صوبوں کے مسلمانوں کیلئے جہاں کانگریس کی حکومت قائم تھی یہ بہت بڑی خوشخبری تھی اور اظہار مسرت اور اظہار اطمینان کی خاطر 2 دسمبر کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اعلان کیا کہ بروز جمعہ 22 دسمبر 1939ء کو پورے ہندوستان کے مسلمان یوم نجات اور یوم تشکر منائیں اور مسلمانوں نے بہت ہی پرجوش انداز میں کانگریسی حکومت سے نجات کا دن منایا۔ ہر جگہ شکرانہ کے دو گانے ادا کئے گئے۔ جلسے اور جلوس کا اہتمام کیا گیا لیکن یہ سب کچھہ بالکل پرُامن طور پر ہوا۔ جلسوں میں اور نماز جمعہ کے اجتماعات میں قراردادیں منظور کی گئیں ، جن میں کانگریسی حکومتوں کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھہ ناروا سلوک اور زیادتیوں کے حوالہ سے گورنر جنرل سے مطالبہ کیا گیا کہ مستعفٰی وزارتوں کے خلاف تحقیقات کروائی جائے ۔ یہ دن دراصل کانگریس کے خلاف مسلمانوں کے اتحاد ار ان کے نئے عزم کے اظہار کا دن ثابت ہوا، جس کا ثبوت جلد ہی سامنے آگیا۔

1937ء کے انتخابات اور اس کے نتیجہ میں قائم ہونے والی کانگریس کی صوبائی حکومتوں سے مسلمانوں کو زیادتیوں کا شکار تو ہونا پڑا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس زحمت میں رحمت چھپی تھی۔ س سے مسلمانوں کو دو زبردست فائدے حاصل ہوئے ، ایک یہ کہ عوامی سطح پر مسلم لیگ کی تنظیم کا کام اس تیزی سے شروع ہوا کہ وہ حقیقتاً مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی اور دوسرا یہ کہ کانگریس کے اس دعوے سے مسلمانوں کا یہ یقین اٹھہ گیا کہ وہ خالصتاً ہندو جماعت نہیں ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی تھا کہ ہندوؤں کی انتہا پسند جماعت "ہندو مہا سبھا" کے ممبر کو تو کانگریس کے ممبر بننے کا حق تھا لیکن مسلم لیگی کو کانگریس کی رکنیت نہیں دی جاسکتی تھی۔ اب مسلمان یہ سمجھہ چکے تھے کہ کانگریس کے نعرۂ آزادی کا مقصد مسلمانوں کی غلامی ہے، جسے مسلمان ہر گز برداشت کرنے کیلئے رضامند نہیں ہوسکتے تھے اور جلد ہی انہوں نے اپنے لئے منزل کا تعین کرکے اس کے حصول کی جدوجہد شروع کردی اور بالآخر 22 دسمبر 1939ء کو مسلمانوں نے قائد اعظم کی ہدایت پر "یوم نجات" منایا۔

No comments:

Post a Comment