قومی سیاستدانوں کے لئے لمحہ فکریہ

روزنامہ نوائے وقت جمعرات 31 اکتوبر 1985ء

آج کل ملک میں سیاسی جماعتوں کی بحالی کا بڑا چرچہ ہے اور خیال یہ ہے کہ چند ماہ پارٹیاں کسی نہ کسی صورت میں بحال کردی جائیں گی لیکن کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یہ بحالی ہمارے جسد سیاسی کے لئے کہیں مہلک بیماری تو ثابت نہیں ہوگی۔ یہ حقیقت تو سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ مستحکم حکومتوں کے لئے مستحکم سیاسی جماعتوں کا ہونا ایک لازمی شرط ہے۔ سیاسی جماعتوں کی بحالی سے پہلے سیاسی لیڈروں اور مفکرین کو اس مسئلہ پر بھی غور کرنا چاہئے بصورت دیگر اگر سیاسی جماعتیں کئی اور کمزار ہوں گی تو آئے دن حکومتوں کی تبدیلی کا تماشہ پھر سے شروع ہوجائے گا اور ایسی صورت میں بار بار مارشل لاء کے نفاذ کو روکنا بھی بہت مشکل ہوگا۔ جماعتوں کی بحالی کے کوشاں سیاستداں حضرات کا یہ کہنا بعید از حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں کی تعداد بھی بڑھ گئی اور کوئی جماعت ملک گیر حیثیت بھی حاصل نہیں کرسکی۔ حالانکہ قیام پاکستان کے بعد 6 اکتوبر 1958ء تک تو کسی نہ کسی صورت میں کاروبار مملکت سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کا موقع ملا پھر 70ء کے انتخابات ہوئے اس میں بھی سیاسی جماعتوں کا کردار کسی سے چھپا نہیں ہے ۔ یہی نہیں اگر موجودہ مارشل لاء کے دور کے اخبارات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ اس دور میں گوکہ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد رہی ہیں لیکن سیاستدانوں کو سابقہ عوامی جمہوریت کے دور سے بھی زیادہ آزادی حاصل رہی ہے موجودہ حکومت ہی کے خلاف نہیں بلکہ خود اس وطن عزیز پاکستان اور اس کے بنیادی نظریہ کے خلاف جس قدر زہر الودہ بیانات اس دور میں جاری اور شائع کئے گئے اس کا عشر عشیربھی پہلے کبھی پڑھنے اور سننے میں نہیں آیا پھر خود سیاستدانوں کی سالگرہ اور ان میں کاٹے جانے والے کیک کی جو تفصیلات اور ان کے گھوڑوں اور دوسرے جانوروں کی سوانح عمر تک اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ چند الیکشنوں کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے اور سیاسی جماعتیں خود بخود کم ہوتی چلی جائیں گی لیکن یہ مفروضہ اس لئے غلط قرار دیا جاسکتا ہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں جہاں سیاسی عمل میں معمولی تعطیل کے سوا کبھی رکاوٹ نہیں آتی اب تک بیسوں سیاسی جماعتیں قائم ہیں اور کانگریس کے علاوہ اور کوئی بھی جماعت یا جماعتوں کا اتحاد مرکز میں حکومت نہیں بنا سکا اور پھر ہمارے یہاں بنیادی خرابی سیاسی جماعتوں کی تعداد نہیں ہے سیاستدانوں کا اپنا رویہ ہے۔ ون یونٹ کے قیام سے پہلے کے سندھ کی سیاست پر ایک نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ آزادی کے بعد سے اس پوری مدت کے دوران حکومت تو مسلم لیگ ہی کے ہاتھہ میں رہی لیکن وزارتوں کی تبدیللی کا تمغہ روز روز ہوتا رہا ۔ ابتدائی آٹھہ سال کے دوران تقریباً اتنی ہی مرتبہ وزارتیں بلدیں حکمراں پارٹی مسلم لیگ ہی رہی۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد مغربی پاکستان میں حکمرانی مسلم لیگ کے بجائے مسلم لیگیوں کے ہاتھہ میں چلی گئی ہاں سابق مسلم لیگی کہہ لیجئے اس لئے اسکندر مرزا کے ایما پر جب ری پبلکن پارٹی قائم کی گئی تو تقریباً تمام ہی مسلم لیگی ممبران اسمبلی اس نئی پارٹی میں شامل ہوگئے اس لئے صوبہ کا اقتدار اسی پارٹی کو ملنے والا تھا۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے بعد جب ملک میں پارلیمنٹ قائم ہوئی اور سیاسی جماعتوں کو بحال کیا گیا تو دنیائے سیاست کا سب سے بڑا لطیفہ وجود میں آیا اور وہ یہ کہ حکمراں پارٹی بھی مسلم لیگ اور حزب اختلاف بھی مسلم لیگ اور مزید لطف کی بات یہ کہ ایک بھائی صدر مملکت اور دوسرا بھائی قائد حزب اختلاف اس قسم کے لطیفے صرف ہمارے ملک کے سیاستدانوں ہی کے دم سے ممکن ہیں 1977ء کی تحریک کے دوران قائم قومی اتحاد کی رکن جماعتیں مارشل لاء نافذ ہوتے ہی کتنی جلد منتشر ہوگئیں اور آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئے ان جماعتوں نے قوم سے کئے گئے بلند بانگ وعدوں کو اتنا جلد فراموش کردیا کہ ملک کے گوشہ گوشہ کے نوجوانوں کو دی گئی جانی قربانیوں کا بھی کوئی پاس نہیں رہا اور شہیدوں کے خون کے دھبے خشک ہونے سے پہلے ہی ان جماعتوں میں باہمی چپقلش شروع ہوگئی بلکہ جس انداز سے ان لیڈروں نے ایک دوسرے کے خلاف گندگی اچھالنی شروع کی وہ بس انہی کا حصہ ہوسکتی تھی۔ سیاستداں کسی بھی ملک کا ہو اسے روادردی کا مجسمہ ہونا چاہئے لیکن ہمارے یہاں کی سیاست کا تو انداز ہی نرالہ ہے۔ دنیا بھر کی سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں فرد واحد انہی مرضی اور منصوبہ کے تحت پارٹی کو چلاتا ہے اور وہ ہوتا ہے پارٹی لیڈر کارکنوں کو یا پارٹی کے ممبروں کو ہمارے یہاں بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں۔ لیڈر جب چاہے اپنے اصول اور نظریات بدل سکتا ہے وہ بلاتکلف پارٹی بھی بدل لیتا ہے لیکن کارکنوں کی کیا مجال کہ وہ اس سے پوچھیں کہ جناب اس تبدیلی کے اسباب کا ہیں ۔ اگر ہم تعصب کا چشمہ ہٹا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم مفاد پرست افراد کا ایک مجموعہ بن گئے ہیں۔ اس کا دوسرا سب سے بڑا سبب محاسبہ کے تصور کا خاتمہ ہے ۔ محاسبہ صرف صدر مملکت وزراء اراکین پارلیمانی اور سرکاری اہل کاروں ہی کا نہیں ہوتا محاسبہ سایسی جماعتوں ان کے کارکنوں اور ان کے قائدین کا بھی ضروری ہے لیکن

ہمارے یہاں بدقسمتی سے ایسی کوئی روایت قائم نہیں ہوسکتی محاسبہ تو دور کی بات ہے ہمارے ملک میں سیاسی قائدین میں سے چند تو تنقید تک برداشت نہیں کرسکتے وار ناقدین پر کفر کے فتوے تک صادر فرمانے سے دریغ نہیں کرتے حالانکہ جب کوئی پہلوان اکھاڑے میں اتر ہی گیا ہے تو اب اسے اپنے حریف سے پٹخیاں کھانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔

اگر ملک میں سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کے محاسبہ کی کوئی روایت قائم ہوتی تو ملک میں نہ تو کبھی مارشل لاء کے نفاذ کا جواز پیدا ہوتا اور نہ ہی کبھی آمریت کا کھٹکا رہتا محاسبہ کی روایت کی صورت میں ملک کی سیاسی جماعتیں خریدیں اور بیچی نہیں جاسکتی تھیں اور نہ ہی ملک میں مفاد پرست اور بے اصول سیاستدانوں کا وجود برقرار رہتا۔ لیڈروں کی بے اصولی اور سیاسی جماعتوں کی خرید و فروخت ہی دراصل ہمارے تمام ہی مسائل کے بنیادی اسباب ہیں۔ چھوٹے اور معمولی فائدوں کے لئے پارٹی بدلنے اور اپنی لیڈری چمکانے کے لئے پارٹیوں میں دھڑے بندیاں کرنے کے سبب ملک میں کوئی بھی مستحکم حکامت قائم نہیں ہوسکی ہمارے یہاں کئی لیڈر ایسے نظر آئیں گے جو ایوب خان کی حکومت کے بھی منظور نظر رہے اور آغا یحیٰی سے بھی ان کے تعلقات خوشگوار رہے ۔ جب بھٹو صاحب مسند اقتدار پر آئے تو وہ ان کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں شامل ہوگئے ور اب موجودہ مارشل لاء کی حکومت میں بھی انہوں نے اپنے کو فٹ کرلیا۔ آخر یہ سب کچھہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے انسان کے کچھہ نہ کچھہ تو نظریات اور اصول ہوتے ہیں ۔ جیب کترے اور داداگیر بھی اپنے گروپ سے تعلقات ختم نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اپنے گروہ کو اپنے مفادات پر قربان کرتے ہیں لیکن ہمارے قائدین کی جو کیفیت ہے وہ ناقابل بیان ہے ہوا کے جھونکے کے ساتھہ ہی وہ اپنا اصول بدل لیتے ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں پارٹیاں عام طورپر خدمت کی غرض سے نہیں بلکہ فقط اقتدار حاصل کرنے کی غرض سے یا اپنی لیڈری چمکا کر محدود مفادات حاصل کرنے کے لئے قائم کی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک میں پارٹیاں زیادہ اور کارکن کم ہیں اور کارکنوں کی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ہمارے یہاں یہ مجرب نسخہ اپنایا گیا ہے کہ پارٹیاں کنوینر صاحب کے نام ہی پر چلائی جائیں۔ اگر کسی نے زیادہ ہمت کی تو اپنے کو کنوینر کے بجائے پارٹی کا چیئرمین قرار دے لیا اور پھر تاحیات پارٹی کے قائد بنے رہے۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی بہتات بھی اس الزام کو جھٹلانے کے لئے کافی ہے کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا اگر ایسا ہی ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کو تو ملک سے مفقود ہوجانا چاہئے تھا نہ کہ قریہ قریہ اور گھر گھر ایک عدد سیاسی جماعت قائم کرلی جائے اور سیاسی جماعتوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہی ہے کمی کے آثار کہیں نظر نہیں آتے۔

جہاں تک ملک میں بار بار مارشل لاء کے نفاذ کا تعلق ہے تو کم از کم موجودہ صورتحال کے بارے میں تو یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ موجودہ مارشل لاء کو دعوت دینے میں کئی وہ لیڈر پیش پیش تھے جو آج شدو مد کے ساتھہ مارشل لاء کے خاتمہ اور بحالی جمہوریت کے نام سے مہم کے سربرآور وہ حضرات ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل یحیٰی کا مارشل لاء بھی چند سیاستدانوں کی ملی بھگت کا نتیجہ تھا اور موجودہ مارشل لاء کے ساتھہ بھی یہی صورت پیش آئی۔

آج کل ہمارے ملک کی سیاست کس پر چلائی جارہی ہے ۔ اس کا اندازہ ہمارے لیڈروں کے بیانات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کوئی صاحب ملک میں خانہ جنگی کا مژدہ سنارہے ہیں کوئی ملک کی موجودہ ہیت کو ختم کرکے کنفیڈریشن کے قیام کی تبلیغ فرمارہے ہیں اور کوئی چوتھے مارشل لاء کے استقبال کیلئے تیار رہنے کی ہدایت دیتے نظر آتے ہیں۔ چند سیاستداں تو اس وطن عزیز کے توڑ دینے جیسے منحوس اور شیطانی بیانات دینے سے بھی نہیں چوکتے اور ہمارے مجبور اور آزادیٔ صحافت سے محروم اخبارات جلی سرخیوں کے ساتھہ ان نظریات کی تشہیر کا فرض بہت خوبی کے ساتھہ انجام دے رہے ہیں۔ ایک باغیرت قوم تو یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ کوئی شخص کھلم کھلا ایسی باغیانہ باتیں کہے اور اخبارات میں ان کو نمایاں جگہ بھی ملے ۔ لیکن ہمارے یہاں یہ سب کچھ جاری ہے اور پھر بھی شکایت ہے کہ ملک میں آزادی اظہار لوگوں کو حاصل نہیں۔ لیکن ان نام نہاد مقتدر ہستیوں کو انقلاب فرانس کو نہیں بھولنا چاہئے۔ جب غیرب عوام اپنی غریب اور وطن کے ناموس کے تحفظ کے لئے اٹھہ کھڑے ہوتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی دور کیوں جائے اپنے پڑوس ایران ہی کو دیکھہ لیجئے وہاں کیا عظیم انقلاب آیا ہے کہ اس صدی کا سب سے زیادہ بااختیار اور طاقتور بادشاہ اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکا اور بدعنوان سیاستداں اور افسر سب ہی کو بلاتکلف پھانسی پر لٹکادیا گیا اور کل تک جن کا طوطی بولتا تھا آج وہ گمنامی کے گہرے غار میں جاچکے ہیں ۔ ہماری قوم کو اللہ نے برداشت کی عظیم قوت سے نوازا ہے لیکن جب یہ اٹھہ کھڑی ہوئی ہے تو نہ ایوب خاں کی طاقتور حکومت ان کے ریلے کے سامنے رک سکی اور نہ مضبوط کرسی والے ہی ان کا مقابلہ کرسکے اس لئے سیاستدانوں کو چاہئے وہ کسی بھی پارٹی یا گروہ سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں آپے سے باہر نہ ہوں ورنہ قوم کا غیظ و غضب ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا کر رکھہ دے گا۔

ہمارے اکثر سیاسی قائدین اور مذہبی رہنما جب بھی لب کشائی کرتے ہیں تو وہ صرف حکومت یا ملک کے خلاف ہی آواز نکالنے ہیں انہیں کبھی یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ وہ حق العباد کی بات کریں وہ بھول کر بھی یہ نہیں کہتے کہ بدعنوان اور سماج دشمن عناصر کے خلاف محاذ بنایا جائے بلکہ ہمارے یہاں تو دو چار ایسے مولانا زہرہ فونا بھی مل جائیں گے جو مذہب مخالف افراد کے چرنوں میں بیٹھنا ہی کو اپنی معراج سمجھتے ہیں وہ اسلام کے خلاف وطن کے خلاف اور قوم کے خلاف ہر طرح کے گھناؤنے خیالات کو سنتے اور خاموش رہتے ہیں۔ اس ملک کے عوام کے ساتھہ اس بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے کہ جس پارٹی حکومت کے خلاف قوم نے ملک گیر تحریک چلائی آج اسی اتحاد میں شامل چند لیڈر اسی پارٹی کی قیادت سے اپنی جمہوریت پسندی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں اور قومی کے بیشتر اراکین ہی کالعدم پی پی کی معصومیت ثابت کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لیجانے کی کوشش کررہے ہیں حالانکہ قومی اتحاد کے یہی لیڈر اس پارٹی کی دوانیوں اور آمرانہ اقدامات سے نجات دلانے کے دعوے کے ساتھہ میدان میں کودے تھے اور قوم نے بھرپور انداز میں تحریک میں حصہ لے کر یہ ثابت کردیا تھا کہ نفاذ اسلام کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو وہ پاش پاش کرسکتی ہے۔ اب دیکھئے کہ کالعدم پی پی کے لیڈر کنفیڈریشن کا نعرہ لگارہے ہیں اور کالعدم ایم آر ڈی میں شامل کئی لیڈر چپ سادھے بیٹھے ہیں حالانکہ ان لیڈروں کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا لیکن کنفیڈریشن کا نعرہ لگانے والی پارٹی کا ساتھہ دینے کا منطقی نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہی کہ کالعدم ایم آر ڈی جن چھوٹی بڑی پارٹیوں پر مشتمل ہے وہ سب ہی کنفیڈریشن کی حامی اور داعی ہیں۔

سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ ذاتی مفادات ، صوبائی عصبیت اور ذاتی انا کے خول سے باہر نکلیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر ہم اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment