نقل مکانی اور اس کے اسباب

روزنامہ جنگ ہفتہ 6 جون 1987ء

نقل مکانی کا عمل ابتدائے آخریش سے جاری ہے۔ انسان ہی نہیں پرند چرند اور جنگلی جانور تک نقل مکانی کرتے رہے ہیں۔ لیکن کوئی بھی ذی حیات بخوشی اپنی اصلی جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ نہیں جاتا یہ سب کچھہ کسی نہ کسی مجبوری کے تحت کیا جاتا ہے۔ موسم سرما سائبیریا اور روس کے دوسرے علاقوں سے سندھ میں آنے والے پرندوں کی مجبوری شدید سردی سے بچاؤ۔ تاریخ انسانی میں سب سے بڑے پیمانے میں نقل مکانی کی شہادت وسط ایشیا ور روسی ترکستان سے نکل کر مشرق و مغرب میں دنیا کے مختلف ملکوں میں جاکر آباد ہونے والے آریاؤں کی ملتی ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ یورپ اور ایشیا کی بیشتر اقوام آج اپنی نسبت آریہ قوم ہی سے بتاتی ہیں اسی طرح بہت بعد کی مثال امریکہ اور آسٹریلیا میں آباد قوموں کی ہے جو انگلستان سے نکل کر یہاں آباد ہوگئے اور یہ آج بھی انگیزی زبان ہی بولتے ہیں۔ لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک ہی کو نہیں جاتے خود اندرون ملک بھی انتقال آبادی کا عمل کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتا ہے۔ البتہ کچھہ حالات اس طرح ظہور پذیر ہوتے ہیں کہ کبھی نقل مکانی کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور کبھی یہ رک جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چند دہائیوں سے خود پاکستان میں دیہی آبادی بڑی تعداد میں شہروں کو منتقل ہورہی ہے۔

چار اسباب

مختلف ادوار میں نقل مکانی کے اسباب کے مختلف رہے ہیں لیکن زمین کی زرخیزی ، موافق موسمی حالات اور روزگار کے وافر مسائل کو ہمیشہ اس کے لئے بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے لوگ اپنے آبائی علاقوں کو بحالت مجبوری ہی چھوڑ کر دوسری جگہ جاتے ہیں۔ آج کے دور میں نقل مکانی کے چار بنیادی اسباب قرار دیئے جاسکتے ہیں ان میں پہلا اقتصادی، دوسرا سیاسی و مذہبی ، تیسرا سماجی و معاشرتی اور چوتھا آبادی میں اضافہ۔ آئیے اب ہر ایک پر اختصار کے ساتھہ غور کرتے ہیں۔

1۔ اقتصادی سبب

بالخصوص کم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں رائج استحصالی اور غیر عادلانہ معاشی اور اقتصادی نظام کی بناء پر معاشرہ دو واضح طبقوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا ہے ان طبقوں میں ایک امیر ہے اوردوسرا غریب۔ ایک ظالم ہے اور دوسرا مظلوم۔ خود ہمارے ملک کے مختلف حصوں کی اقتصادی حالت میں واضح عدم توازن موجود ہے اور اس کا سبب وہی استحصالی منصوبہ بندی ہے جو ملک کی نوکر شاہی، امیروں اور ظالموں کے مفادات اور ان کے مقاصد کو پورا کرنے کی خاطر ترتیب دیتی ہے۔ چند علاقوں کو یکسر نظر انداز کرکے وہاں کی آبادی کو غربت اور بیروزگاری کا مستقل شکار بنائے رکھنا اور دوسرے چند علاقوں کو ترقی کے بام عروج پر پہنچانے کی منصوبہ بندی کسی بھی لحاظ سے قابل ستائش قرار نہیں دی جاسکتی۔ آج کراچی کو صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز بنا کر رکھہ دیا گیا۔ تھوڑی بہت توجہ حیدرآباد، فیصل آباد، گجرات، سیالکوٹ اور دوسرے چند دوسرے شہروں کی طرف بھی دی گئی ہے لیکن اس میں اعتدال اور توازن کا بہت بڑا فقدان پایا جاتا ہے۔

ملک کے بیشتر علاقوں میں کسی قسم کی صنعتی یا تجارتی سرگرمی نہیں پائی جاتی۔ گو پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن دیہی آبادی کو کاشتکاری کی طرف راغب کرنے کا کوئی منصوبہ ہمارے یہاں نہیں۔ بہت بڑی تعداد میں ہاری یا تو بے زمین ہیں یا ان کے پاس اتنی کم زمین ہے کہ تمام افراد خاندان اس میں نہیں کھپ سکتے اس طرح فاضل اور بے روزگار افراد لازمی طور پر ان مقامات کو رخ کریں گے جہاں انہیں روزگار ملنے کے مواقع مہیا ہوں گے۔ چھوٹے چھوٹے دیہات سے لوگ قصبوں کو اور قصبوں سے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ نقل مکانی کے سلسلے میں روزنامہ جنگ کے ادارتی نوٹ میں ایک عالمگیر حقیقت کراچی کے حوالہ سے بیان کردی گئی ہے جو یہ ہے کہ "بنظر انصاف دیکھا جائے تو اس (انتقال آبادی) کی ایک ہی وجہ سمجھہ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ملک کی صنعتی تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کا غالب حصہ کراچی میں مرتکز کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ خواہ کچھہ بھی کیوں نہ رہی ہو لیکن اس سے ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگوں کے کراچی کی طرف آنے کی وجہ سمجھہ میں آجاتی ہے۔"

پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے ملکوں کی آبادی کا رخ خلیجی ملکوں کی طرف بھی ہے اس لئے کہ وہاں روزگار کے وافر وسائل موجود ہیں۔ چند سال قبل لوگ یورپ اور امریکہ کی طرف راغب تھے لیکن جب سے وہاں بے روزگاری کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے لوگوں نے وہاں جانا چھوڑدیا۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے باشندے آج کل پاکستان کی طرف متوجہ ہیں اور اس کی وجہ بھی علاقہ میں بحیثیت مجموعی ہماری اچھی اقتصادی حالت ہے۔

جب سندھ میں سکھر بیراج تعمیر ہوا اور یہاں زمین زیر کاشت لائی گئی تب بھی باہر سے بڑی تعداد میں کاشتکار آئے اور پچاس اور ساٹھہ کی دہائیوں میں پنجاب سے بڑی تعداد میں کاشتکاروں کو سندھ میں لاکر آباد کیا گیا۔ لیکن بلوچستان کو جہاں لاکھوں ایکڑ زمین بے کار پڑی ہے کوئی رخ نہی کرتا اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آج کی سکڑتی ہوئی دنیا میں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر نقل مکانی کا سب سے بڑا جذبۂ محرکہ روزگار کے وسائل کی تلاش ہے۔

سماجی و معاشرتی سبب

چند صدیوں قبل تک انسانی زندگی قبیلے کے بندھنوں میں بندھی ہوتی تھی ۔ قبیلے سے باہر کوئی شخص بھی نہیں تھا۔ آج کے جدید دور میں صوبہ سرحد کے شمال میں آباد قبائل کے انداز زندگی سے ہم کچھہ حد تک اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ قبیلے کے سردار کی اپنی صوابدید پر سب کچھہ منحصر تھا۔ جنگ وجدال صورت میں سردار کے حکم سے قبیلہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا تھا۔ قبیلے میں اندرونی خلفشار اور سرداری کے لئے رسہ کشی کی صورت میں بھی عموماً کمزار حصہ نقل مکانی کرجایا کرتا تھا۔ وسیع و عریض خالی پڑے ہوتے تھے۔ کہتے ہیں بلوچ اور کرد دو بھائی تھے وہ عراق سے نکلے اور بلوچ مکران اور سندھ کے علاقہ میں آکر آباد ہوگیا اور کرد ایران کے مغرب میں ، آبادی میں اضافے کے ساتھہ یہ مزید پھیلتے گئے۔ ابوظہبی کا حکمران خاندان کا قبیلہ پانی کی تلاش میں سینکڑوں میل سے چل کرالعین میں آباد ہوگیا۔ نقل مکانی میں ہم زبانی بھی ایک موئثر سبب ہے۔

مذہبی و سیاسی سبب

مذہب کی بنیاد پر نقل مکانی کا رواج ازمنئہ قدیم سے رہا ہے اور اسے ہر مذہب میں ہجرت ہی کہا جاتا ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی قوم کا مصر سے نکلنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کو ہجرت تاریخی ہی نہیں الہامی حقیقتیں بھی ہیں۔ پھر انگلستان سے عیسائیوں کے ایک فرقہ کی امریکہ ہجرت بھی مذہب ہی کی بناء پر عمل میں آئی تھی۔ مذہب کے نام پر دوسروں کو ظلم وستم کا نشانہ بنانا پرانی روایت رہی ہے لیکن اس کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کا خود مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ لوگ دراصل مذہب کو سمجھتے نہیں ہیں۔

بھارت سے لاکھوں مسلمانوں کی پاکستان کو ہجرت بھی اسی بناء پر ہوئی کہ وہاں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ اس تشدد کے پیچھے سیاسی عوامل بھی کارفرما تھے۔ یعنی یہ کہ مسلمانوں نے ایک آزاد اور خودمختار ملک پاکستان کے لئے مطالبے کا پورا پورا ساتھہ دیا تھا۔ ہندوؤں کا وہی انتقامی جذبہ ہے کہ آج بھی بھارت میں آئے دن مسلم کش فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ عربوں کے قلب فلسطین کی حیثیت ختم کرکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مملکت کے قیام سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو بڑی تعداد میں وہاں سے نکلنا پڑا ہے اور دنیا بھر سے آنے والے یہودیوں کو بسانے کے لئے اسرائیل کو جب بھی جگہ اور زمین کی ضرورت پڑتی ہے وہاں کے اصلی باشندوں کو بیدخل کردیا جاتا ہے۔

سمرقند، بخارا اور تاشقند کے علاقوں پر اشتراکی قبضہ کے بعد بھی وہاں سے لاکھوں مسلمان ہجرت پر مجبور ہوئے اور جنہوں نے مزاحمت کی ان میں سے بڑی تعداد کو ہلاک کردیا گیا۔ افغانستان پر روسی یلغار اور وہاں اشتراکی حکومت کے قیام کے بعد چالیس پینتالیس لاکھہ افغان ہجرت کرکے پاکستان اور ایران آنے پر مجبور کردیئے گئے ہیں ۔ حبشہ، یوگنڈا اور افریقہ کے کئے ملکوں میں مذہب اور سیاست کی بناء پر نقل مکانی کا عمل اختیار کیا جاتا ہے اور لوگ خطرہ کے علاقوں سے محفوظ علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔ انتقال آبادی کا یہ عمل ویسے تو عارضی مدت کے لئے اختیار کیا جاتا ہے لیکن بعض حالات میں لوگ بوجوہ اپنے وطن یا اپنے علاقوں کو واپس جانے سے کتراتے ہیں۔ بہرحال مذہبی اور سیاسی وجوہ کی بناء پر ہجرت اور نقل مکانی کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ جس کے ختم ہونے کے آثار بھی نہیں پائے جاتے۔

آبادی میں اضافہ

آبادی میں اضافے کا تعلق بھی اقتصادی صورتحال ہی سے ہے جب کسی جگہ آبادی میں اضافہ ہوجاتا ہے تو وہاں کے وسائل ناکافی ہوجاتے ہیں یا آبادی میں اضافے سے علقہ تنگ ہوجاتا ہے یعنی زیر کاشت زمین ضروریات سے کم پڑجاتی ہے تو پھر لوگوں کا اس جگہ مزید رہنا محال ہوجاتا ہے اس لئے پوری آبادی یا اس کا ایک حصہ دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے۔ آریاؤں کے انتقال آبادی کی وجوہات میں آبادی میں اضافہ اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔ اب بھی یہی صورت حال پیش آتی ہے تو لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوجاتے ہیں اور آج دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی آبادی اس کی نشاندہی کرتی ہے کہ جوں جوں نسل آنسانی میں اضافہ ہوتا رہا ہے، نئے ملک اور نئے خطے دریافت اور آباد کئے جاتے رہے ۔ اب چاند پر آبادی کے امکانات کا جو جائزہ لیا جارہا ہے وہ بھی مستقبل میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے پیش نظر ہی ہے۔

No comments:

Post a Comment