اس کا کیا جواب ہے؟
روزنامہ جنگ جمعۃ المبارک 2 جنوری 1987
14 اور 15 دسمبر کو کراچی میں جو کچھہ ہوا اس نے 1947ء کے دوران مشرقی پنجاب ، الور، بھرتپور، کلکتہ، بہار، بمبئی، احمد آباد اور بھارت کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف توڑے گئے ظلم و بربریت اور اندوہناک واقعات کی یاد تازہ کردی ہے ہر حساس شہری کی قوت سوچ جواب دے چکی ہے دل بیٹھہ گیا ہے اور سر ندامت سے جھک گیا ہے لیکن دوسری طرف "منتخب" حکمرانوں کا طبقہ ہے جو مژدہ سنارہا ہے کہ متاثرین کو معاوضہ دیا جارہا ہے۔ اس تمام تکلیف دہ صورت حال پر کچھہ لکھنے کے بجائے یہاں ان سوالات کو یک جا کرنے ہی پر اکتفا کیا جارہا ہے۔ جو ہر ذمہ دار شہری کے ذہن میں پیدا ہورہے ہیں۔ ارباب اقتدار کو اگر اپنے معمولات زندگی میں سے چند لمحے فرصت کے مل سکیں تو ان پر غور کریں۔ ان سے جواب دینے کا مطالبہ تو اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ یہ "منتخب" نمائندے ہیں کس کو مجال کہ ان کے ہاتھہ سے کوئی تلوار چھیننے کی کوشش کرے۔ سوالات میں بے ترتیبی ان قیامت خیر حادثات و واقعات سے پیدا ہونے والے ذہنی انتشار کا نتیجہ ہے ملاحظہ فرمائیے۔
(1) 12 دسمبر کو سہراب گوٹھہ میں "آپریشن کلین اپ" صوبائی گورنر کی غیر موجودگی میں کیوں شروع کیا گیا؟
(2) جس اعلٰی ترین سطح پر آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اس میں کون کون سی ہستیاں شامل تھیں؟
(3) آپریشن کے دن ہی دنیا کے سب سے بااثر اور باخبر نشریاتی اداروں نے خفیہ منصوبہ کے افشاء ہونے کی خبر دیدی تھی اور اب یہ بات ناقابل تردید حد تک ثابت ہوچکی ہے تو کیا ان تمام " رازداروں' کو گرفتار کرکے اصلی مجرم یا مجرموں کا پتہ چلانا ضروری نہیں ہے؟
(4) افشائے راز کے نتیجہ کے طور پر منشیات اور ہتھیار سہراب گوٹھہ سے منتقل کرکے انہی ہتھیاروں کو قتل عام کیلئے استعمال کیا گیا ہے کیا " رازداروں" میں سے کوئی بھی قتل عام کا براہ راست ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا؟
(5) جمعہ کو سہراب گوٹھہ میں تہہ خانے اور سرنگیں جب خالی ملیں اور بیشتر خاندانوں کے مرد فرار پائے گئے تو دوسرے علاقوں میں چھاپے مارنے اور حفاظتی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے گئے؟
(6) آپریشن کے دوسرے دن شہر کے کئی علاقوں میں توڑ پھوڑ ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنے اور جگہ جگہ اشتعال انگیزی کے علاوہ ایک نوجوان کو سنگسار کرکے ہلاک تک کردیا گیا تھا تو امن قائم کرنے کے ذمہ داروں نے قطعی بے تعلقی کس کے حکم پر اختیار کئے رکھی۔
(7) پختون مجلس عمل کی طرف سے بھی ہفتہ ہی کے روز پریس کانفرنس میں آپریشن کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے ہوئے اتوار کی شام تک آپریشن بند کرنے کا الٹی میٹم دیدیا گیا تھا تو حکومت کی مشینری حرکت میں کیوں نہیں آئی؟
(8) اتوار کو صبح ہی سے اورنگی کے علاقہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور اشتعال انگیز حرکتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور ساڑھے دس بجے نہتے اور بے گناہ افراد کی غریب بستی علی گڑھ کالونی اور دوسرے علاقوں میں منشیات اور اسلحہ کا ناجائز کاروبار کرنے والوں کی زبان بولنے والوں نے " فوجی کاروائی" شروع کردی جسے بلا روک ٹوک سہ پہر چار بجے تک جاری رکھنے کا منصوبہ کہاں بنایا گیا تھا؟
(9) 15 دسمبر کو کرفیو کے دوران فوج اور پولیس کی موجودگی میں جس بڑے پیمانے پر اور آزادی کے ساتھہ آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی اس وقت امن کا نفاذ کرنے والوں نے اپنی بندوقوں کی نالیوں پر امن کی فاختاؤں کو کس کے حکم سے بٹھائے رکھا اور اپنی نگرانی میں قتل عام کروایا جبکہ نومبر کے پہلے ہفتہ کے دوران تو امن نافذ کرنے والے بہادر جوانوں نے "کرفیو کی خلاف ورزی" پر معصوم بچوں اور خواتین تک کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنادیا تھا۔"
(10) 12 دسمبر کے آپریشن کے نتیجہ میں شہر سے منشیات اور ہتھیاروں کی منتقلی اور 14 دسمبر کو ہلاکو اور چنگیز کے پروکاروں کے کراچی سے فرار کو ناممکن بنانے کیلئے شہر کی ناکہ بندی کیوں نہیں کی گئی؟
(11) سہراب گوٹھہ سے کوئی بھی قابل ذکر شخص گرفتار نہیں کیا گیا کیا اس آپریشن کا مقصد صرف بااثر بڑے مجرموں کو "کیلئرنس" دینا نہیں ہے؟
(12) سہراب گوٹھہ کا آپریشن صرف منشیات ہی کے خلاف نہیں تھا۔ ہتھیاروں کے ناجائز ذخیروں پر قبضہ کرنا بھی اس میں شامل تھا اب حکومت اسے صرف "ڈرگ مافیا" کا نام دے کرہتھیاروں کا ذکر کیاں نہیں کرتی؟
(13) سابق وفاقی وزیر مملکت نواز مروت بقول خود 36 روز کی محنت شاقہ کے بعد کراچی میں امن و امان قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرکے اسلام آباد گئے اور دوسرے ہی روز کراچی میں خون کی ندیاں بہادی گئی۔ آخر وہ کس قسم کا امن قائم کرکے گئے تھے؟
(14) 31 اکتوبر کو جس طبقہ کو ظلم و تشدد کا نشنانا بنایا گیا تھا جناب مروت نے اسی طبقہ پر اشتعال انگیزی کا الزام لگانا کیوں ضروری سمجھا؟
(15) صدر مملکت اور وزیر اعظم نے اپنی آنکھوں سے شہر کی تباہی اور انسانی خون کی ارزانی کا مشاہدہ کیا اور اپنے کانوں سے صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کی شکایات سنیں۔ لیکن برباد ہونے والوں کی امداد کیلئے ایک نئے پیسے کی امداد اور نااہل انتظامیہ کے خلاف ایک لفظ تک کہنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جبکہ افریقہ کے قحط زدگان اور بنگہ دیش کے سیلاب زدگان کیلئے ان کی راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے جو اپنی جگہ ایک مستحسن عمل ہے۔
(16) صوبہ سندھ ہی پر غیر سیاسی وزیر اعلٰی اور غیر مقامی گورنر کو مسلط کرنے کیا کا جوز ہے جبکہ سندھ میں عرصہ سے اس صورت حال کی تبدیلی کیلئے آواز اٹھائی جارہی ہے۔ کسی بھی سندھی کو آج تک پنجاب ، سرحد یا بلوچستان کا گورنر مقرر نہیں کیا گیا یہ اس سازش کا حصہ ہے کہ سندھ کو ایک کالونی ہونے کا پوری طرح احساس دلادیا جائے۔
(17) وزیر اعظم سے ملاقات کیلئے کراچی کے میئر جناب عبدالستار افغانی اور حیدرآباد سے رکن قومی اسمبلی مولانا سیّد وصی مظہر ندوی کو کس " خوف" کے تحت دعوت نہیں دی گئی؟
(18) صوبہ سندھ میں ہر طبقہ فکر کی طرف سے صوبائی حکومت پر رشوت اور دیگر بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کے علاوہ منشیات فروشوں اور ہتھیاروں کا ناجائز کاروبار کرنے والوں کی سرپرستی کا الزام تسلسل کے ساتھہ لگایا جاتا رہا ہے۔ کیا وزیراعلٰی جو عدالت عالیہ کے مستعفی جج ہیں یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ وہ فی الفور مستعفی ہوکر اپنے اور اپنی کابینہ پر لگائے جانے عالے الزامات سے خود کو بری الذمہ قرار دیئے جانے کیلئے عدالت سے رجوع کرکے انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں۔
(19) برسابرس سے سندھ کا بچہ بچہ یہ کہتا آرہا ہے کہ کراچی اور صوبہ کے بڑے شہروں میں منشیات فروشوں کی طرف سے ہر ہفتہ لاکھوں روپے بھتہ کے طور پر ادا کئے جاتے ہیں آج تک اس کی حقیقت کا پتہ چلانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ اس حقیقت کے بغیر ان اڈوں کی سرپرستی کس طرح ممکن ہے؟
(20) کراچی، حیدرآباد، کوئٹہ، پشاور اور پنجاب کئی ماہ سے امن و امان کے مسائل سے دوچار ہیں اور لوگوں میں تحفظ کا احساس ختم ہوکر رہ گیا ہے اس کے باوجود وزیر داخلہ کو دوبارہ کابینہ میں شامل کرکے اور وہی قلم دان وزارت دے کر کیا موصوف کو "کامیابی" اور امن وامان کی ذمہ داریوں سے "ماورا" وزیر قرار دینے کا ثبوت نہیں دیا گیا ہے۔
(21) آپریشن کلین اپ جاری کرنے کے بعد شہر سے جتنے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے کیا حکومت ان کے نام ، پتے اور الزامات کی فہرست اخبارات کے ذریعہ شائع کرسکتی ہے؟
(22) 31 اکتوبر کو سہراب گوٹھہ پر چھہ سات نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا لیکن نہ تو وہاں کرفیو نافذ کیا گیا نہ قاتلوں کو گرفتار کیا گیا بلکہ مظلوموں کے طبقہ ہی کی بڑے پیمانہ پر گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور پھر وزیر اعلٰی بھی اردو بولنے والوں کے اسی طبقہ کے خلاف بیانات میں شعلے اگلتے رہے۔ اس وقت گرفتار کئے گئے افراد کو نہ تا حال رہا کیا گیا ہے کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ صوبائی حکومت اردو بولنے والے سندھیوں کی نسل کشی میں پوری طرح شریک ہے۔
(23) نومبر کے پہلے ہفتہ کے دوران میں پہاڑی سے اورنگی پر منظم اور آزادانہ حملوں اور 14 اور 15 دسمبر کو قتل عام کی مہلت حکومت اور انتظامیہ کی اس جھنجھلاہٹ کا نتیجہ تو نہیں ہے جو انہیں اپنا دانہ پانی بند ہونے کی وجہ سے ہورہی ہے۔
No comments:
Post a Comment