تاریخ کشمیر کا واحد حل استصواب رائے

روزنامہ جنگ پیر 9 جولائی 2001ء

کشمیر کے حوالے سے دونوں ملکوں کی قیادت کو اچھی طرح سمجھہ لینا چاہئے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو آزادانہ اور غیر جانبدرانہ استصواب رائے کا حق دیئے بغیر مسئلہ کا کوئی اور منصفانہ ، پائیدار، باعزت اور قابل قبول حل ممکن نہیں جہاں تک خود مختار یا منقسم کشمیر کا تعلق ہے تو ایسا تصور 3 جون 1947ء کے اس منصوبہ آزادی کی روح اور منشاء کے بھی صریحاً خلاف ہے جس کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں تھیں۔ اس منصوبہ کے تحت آزادی سے قبل بھارت میں موجود تقریباً پانچ سو سے زیادہ چھوٹی بڑی ریاستوں کے لئے لازمی تھا کہ وہ پاکستان میں شمولیت اختیار کریں یا بھارت میں، ان میں سے کسی بھی ریاست کو آزادی کے اعلان کا اختیار تھا نہ انہیں آبادی کی بناء پر تقسیم کیا جاسکتا تھا ، اس سلسلہ میں پس پردہ یہ غیر تحریری اصول بھی کارفرما تھا کہ پاکستان یا بھارت کے ساتھہ الحاق کا فیصلہ کرتے وقت والئی ریاست کے باشندوں کی خواہش اور جغرافیائی محل وقوع کا خیال بھی رکھے گا۔ وائسرائے ہند ماؤنٹ بیٹن نے جسے 15 اگست 1947ء سے گورنر جنرل کی حیثیت سے بھارت کی ملازمت کرنی تھی اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان دشمنی کا بھرپور مظاہرہ کیا اس نے والیان ریاست سے ملاقاتیں کرکے چند کے سوا تمام ریاستوں کو آزادی سے پہلے ہی بھارت میں شمولیت اختیار کرنے پر رضامند کرلیا۔ بیکانیر اور جیسلمیر کی سرحدیں پاکستان سے ملتی تھیں اور ان کے والیان بوجوہ پاکستان کے ساتھہ الحاق کے خواہاں تھے لیکن ماؤنٹ بیٹن کے لئے ایسا ہونے دینا اذیت کا باعث تھا اس نے اپنی ذاتی دوستی کا واسطہ اور ہندو دھرم کی ایکتا کی دہائی دے کر ان والیان ریاست کو بھی پاکستان میں شمولیت اختیار کرنے سے روک دیا۔

حیدرآباد دکن جیسی بڑی اور رامپور جیسی چھوٹی ریاستوں کو طاقت کے زور پر بھارت میں شامل کرلیا گیا البتہ کشمیر کو وہ شروع میں نہ چھیڑ سکا اس لئے کہ آبادی اور محل وقوع ہر دو لحاظ سے ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا فطری حصہ تھا لیکن ماؤنٹ بیٹن زیادہ دنوں تک خبث باطن پر قابو نہ رکھہ سکا اور الحاق کی جعلی دستاویز کی بنیاد پر وہاں بھارتی فوج اتاردی جس کے نتیجہ میں وہاں ظلم و بربریت اور خونریزی کا دور شروع ہوگیا جو آج تک جاری ہے۔

سربراہان حکومت سے زیادہ اور کس کو ادراک ہوگا کہ قوموں کے تنازعات کو حل کرنے کیلئے بنیادی شرط یہ ہے کہ اناپسندی ، ہٹ دھرمی اور متعصبانہ ذہنی تحفظات کے بجائے انسان دوستی، حقیقت پسندی، عدل و انصاف اور برابری کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی دیانتدارانہ اور مخلصانہ کوشش کی جائے اگر اٹل بہاری واجپائی اور جنرل پرویز مشرف انہیں اصولوں کے مطابق گفتگو کا آغاز کریں اور انہیں آگے بڑھائیں تو یہ نہ صرف تاریخ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے بلکہ خطہ کی تیز رفتار اور یقینی ترقی و خوشحالی اور امن و سلامتی کی ٹھوس بنیاد بھی فراہم ہو جائے گی لیکن مخدوم مصلحتوں ، ناجائز بیرونی دباؤ یا کسی طاقت کے مفادات یا ارادوں کی تکمیل کی خاطر کوئی وقتی یا غلط فیصلہ کرلیا گیا تو ایسا فیصلہ نقش برآب ثابت ہوگا، خودمختار یا منقسم کشمیر کو اور تو اور خود کشمیری عوام بھی تسلیم نہیں کریں گے اور نتیجتاً وہاں خانہ جنگی کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور چند بیرونی طاقتیں یہی چاہتی ہیں تاکہ برصغیر پاک و ہند ہمیشہ بدامنی، بداعتمادی اور غربت کا شکار رہ کر ان کا دست نگر بنا رہے، بیرونی طاقتیں اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت اگر دوست بن گئے تو دنیا سے بڑے بڑوں کی چوہدراہٹ کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوجائے گا۔

خودمختار کشمیر کی صورت میں بھارت کا اپنی عادت کے مطابق اسے اپنے زیر اثر لانے کی سازش میں ملوث ہونا بھی لازمی امر ہے جس کے توڑ کے لئے کشمیری عوام کے ساتھہ پاکستان کو بھی مجبوراً میدان میں آنا پڑے گا جہاں وہ آج کھڑے ہیں ، اگر استصواب رائے کہ علاوہ مسئلہ کے کسی اور حل کی تلاش شروع کردی گئی تو پر نصف صدی اس کی تگ و دو میں اور مزید نصف صدی کو عملی شکل دینے میں صرف ہو جائے گی۔

بھارت کے وزیر خارجہ نے جو اپنے ملک کے وزیر دفاع بھی ہیں ، کشمیر کے بارے میں اپنے ملک کے آئین کا حوالہ بھی دیا ہے لیکن وہ شاید بھول گئے کہ بھارتی آئین تو خود ثابت کرتا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ تنازع علاقہ ہے اور اس کیلئے آئین کی ابتدائی شق 370 کو پیش کیا جاسکتا ہے پھر اسی آئین کے جدول اوّل میں جو بھارت کی مختلف ریاستوں کی حد بندی سے متعلق ہے جموں و کشمیر کو صرف وہ علاقہ بھارت کی ریاست کے طور پر مذکورہ ہے جس علاقہ پر نفاذ آئین یعنی 26 جنوری 1950ء سے فوری قبل بھارت کا قبضہ تھا اور دنیا جانتی ہے کہ اس وقت صورتحال کیا تھی، اسلئے بھارتی آئین کے مطابق آزاد کشمیر کو تو کسی بھی لحاظ سے موضوع گفتگو بنایا ہی نہیں جاسکتا لیکن ہم پاکستانی چونکہ حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں اس لئے تنازع کشمیر کے حل کی خاطر مقبوضہ اور آزاد کشمیر کو ایک اکائی سمجھتے ہوئے اس کے مستقبل کا فیصلہ اسی حیثیت سے کرنا چاہتے ہیں۔

بھارت نے جنرل پرویز مشرف جو جس انداز میں دعوت مذاکرات دی ہے وہ بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے۔ اقوام عالم کی تاریخ میں شاید اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پہلے سے جاری نام نہاد جنگ بندی کے خاتمہ کا اعلان کیا جائے یعنی جنگ شروع کی جائے اور اس کے بعد دوسری ہی سانس میں تنازعات کے حل کیلئے بات چیت کی دعوت دیدی جائے، اب تک تو یہ ہوتا رہا ہے کہ اگر گھمسان کی جنگ بھی ہورہی ہو تو مذاکرات کی غرض سے جنگ بندی کردی جاتی ہے اس صورتحال کا تکلیف دہ بلکہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بھارت کے کشمیر دشمن اس اقدام کے خلاف پاکستان کی طرف سے ہلکی سی صدائے احتجاج تک بلند کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ منافقت پر مبنی بھارت کے ظالمانہ اعلان جنگ بندی کے جواب میں پاکستان نے اظہار خیر سگالی کے طور پر لائن آف کنٹرول سے اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کا جو فیصلہ کیا تھا، اس اعلان جنگ کے ساتھہ ہی وہ فیصلہ بھی واپس لے لیا جاتا پاکستان کا اقدام کو علامتی ہی ہوتا لیکن بھارت کو یہ پیغام ضرور مل جاتا کہ پاکستان کشمیری عوام کی جان و مال اور عزت و آبرہ کے تحفظ کے سلسلے میں لاتعلق نہیں رہ سکتا لیکن افسوس کہ اس سلسلے میں ہم اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کرپائے، جہاں تک دعوت مذاکرات کا تعلق ہے تو یہ دراصل جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اس پیشکش کا مثبت اور خوش آئند جواب ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھہ کسی بھی شرط کے بغیر کسی بھی جگہ جانے کیلئے تیار ہیں اور یہ بات وہ پہلے دن سے کہتے آرہے تھے۔

بھارت کے حکمراں کل تک جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو تسلیم اور تنازعات کے حل کی غرض سےپاکستان کے ساتھہ مذاکرات کے سوال پر بدک جایا کرتے تھے۔ آج وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جنرل پرویز مشرف کے ساتھہ جلد از جلد مذاکرات اور بات چیت کے لئے بیتاب نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھارتی قیادت سے یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ "اٹوٹ انگ" جیسے نعروں کو ترک کرکے زمینی حقائق کو سمجھنے کی مخلصانہ اور دیانتدارانہ کوشش کرے گی بھارتی عوام کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو مجبور کردیں کہ عدل و انصاف اور برابری کی بنیاد پر باہمی تنازعات کو حل کرنے میں کھلے دل سے تعاون کریں تاکہ ہمارے سروں پر منڈلانے والے ایٹمی جنگ کے مہیب سائے چھٹ جائیں اور ہم اچھے پڑوسیوں کی طرح امن و سلامتی کی فضا میں ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کرنے کے قابل ہوسکیں۔

No comments:

Post a Comment