نقطہ نظر سندھ کے وسائل پر استحقاق
روزنامہ جنگ بدھ 27 مئی 1987ء
پچھلے دنوں روزنامہ جنگ میں جناب محمد نسیم نے "سندھ کے وسائل پر استحقاق" کے زیر عنوان ایک مضمون میں بیشتر ایسی باتیں تحریر کیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں اس لئے مذکورہ مضون میں اٹھائے گئے نکات کا جواب دینا ضروری ہے تاکہ ریکارڈ درست ہوجائے اور کسی قسم کی غلط فہمی ہو تو وہ دور ہوجائے۔
"سندھ کے وسائل پر استحقاق" کے سلسلے میں جو کچھہ لکھا گیا ہے اس کا لب لباب کچھہ اس طرح سامنے آتا ہے (الف) احساس محرومی کا اصل سبب (ب) مہاجرین کا بھارت سے بخوشی نقل مکانی (ج) مہاجرین کا احساس برتری (د) سرکاری حیثیت سے سندھی زبان کا خاتمہ (ھ) کراچی کی ترقی (و) سندھیوں کی آواز کو دبانے کے لئے متحدہ محاذ کا قیام (ز) وسائل پر استحقاق۔ تو آئیے اب ہر نکتہ پر الگ الگ غور کرنے سے پہلے یہ بات واضح ہوجانی چاہئے کہ راقم الحروف مہاجرین کو سندھیوں سے جدا نہیں سمجھتا اور اس کی نظر میں اب اردو اور سندھی بولنے والے تمام لوگ سندھ ے اصلی باشندے ہیں لیکن چونکہ زیر نظر مضمون میں خاص مقصد کے تحت ان کو سندھی اور مہاجر میں تقسیم کیا گیا ہے اسلئے راقم الحروف بھی یہ دونوں اصطلاحات استعمال کرنے پر مجبور ہے۔
احساس محرومی کا اصل سبب
سندھی بولنے والے افراد میں احساس محرومی کا سبب محض یہ امکان ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے ہی صوبہ میں اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے بلکہ سندھ کے نوجوانوں میں خطرناک حد تک "مصنوعی" بے روزگاری بھی اس کا ایک اہم سبب ہے۔ "مصنوعی" ان معنوں میں کہ سندھ میں روزگار کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے اور دوسرے صوبوں کے مراعات یافتہ لوگ بآسانی سندھ میں اپنی مرضی کی ملازمت حاصل کرلیتے ہیں۔ کراچی کہنے کو تو صنعت اور تجارت کا سب سے بڑا مرکز ہے لیکن کیا یہ بدقسمتی کی بات نہیں کہ یہاں سندھ کے نواجوان کے لئے بیروزگار کے مواقع مفقود ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ شروع دن سے سندھ کے باشندوں کو ہر شعبہ میں نظر انداز کرنے کی پالیسی پر عمل کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کا سندھی نوجوان خطرناک حد تک مشتعل ہے۔ احساس محرومی کا تیسرا سبب اقتدار میں عدم شرکت کا احساس بھی ہے۔ اس کی وجہ ملک میں طویل مدت کے لئے تین مرتبہ مارشل لا حکومتوں کا قیام ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص دیگر وجوہات سے آنکھیں بند کرکے صرف اقلیت میں تبدیل ہونے کے امکان ہی کا احساس محرومی کی اصل بنیاد قرار دینے پر مصر ہو تب بھی یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ اس کے ذمہ دار 1947ء اور اس کے بعد بھارت سے "نقل مکانی" کرکے آنے والے نہیں بلکہ اقلیت میں تبدیل ہونے کا خطرہ سندھ کو 19555 میں اس وقت محسوس ہوا جب مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ون یونٹ میں مدغم کرنے کی تجویز سامنے آئی۔ پہلی مرتبہ اسی سال کھلم کھلا اس بات کا اظہار کیا جائے گا کہ مک کا ایک بڑا حصہ جو سندھ پر روزگار اور آبادی ک لحاظ سے پوری طرح غلبہ حاصل کرلے گا اور اسی خوف کی بناء پر سندھ میں ون یونٹ کے خلاف مہم شروع کی گئی جو اس کے خاتمہ تک جاری رہی۔ تھوڑی دیر کے لئے اگر اس مفروضہ کو مان بھی لیا جائے کہ سندھیوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے کے امکان کا سبب مہاجر ہیں تو پھر کوئی ہمیں سمجھائے کہ بھارت سے آنے والی ٹرینوں کا استقبال کون لوگ کررہے تھے۔ لٹے پٹے خاندانوں کے لئے کھانا کون پکا پکا کر پہنچارہا تھا اور 1955ء تک سندھ کے گلی کوچوں میں "سندھی مہاجر بھائی بھائی" کے نعرے کون لگارہے تھے؟
سندھیوں کے مسلسل جائز مطالبے کے باوجود یہاں کے بے زمین ہاری کو زمین سے محروم رکھا گیا اور سندھ کی زیر کاشت لائی جانے والی زرخیز زمین دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے کسانوں کو نیلام اور فوجیوں کو انعام کے طور پر دیدی گئی اسی کا نتیجہ ہے ک آج سندھ کے کئی علاقوں میں "گوٹھہ" نہیں "چک" آباد ہوچکے ہیں۔ لیکن اس میں کاشتکار قطعی قصوروار نہیں یہ تو سب کچھہ نوکر شاہی کا کمال تھا۔
سندھی بولنے والی اور اردو بولنے والی آبادی تو آج جتنی ہے اس میں کوئی خاص فرق پڑنے کا کوئی اندیشہ نہیں اس لئے کہ اضافہ آبادی کی رفتار تو دونوں طبقوں میں تقریباً یکساں ہے اس کے باوجود سندھیوں کو مہاجر کی وجہ سے اقلیت میں تبدیل ہونے کا جو خطرہ لاحق ہے تو کیا مہاجر درختوں پر بھی پیدا ہوتے ہیں کہ ایک دو فصل کے بعد پتہ چلے گا کہ سندھ میں سندھی اقلیت میں تبدیل ہوگئے اور مہاجر اکثریت میں یہ خوف اور امکان دراصل سندھ کے باہر سے آنے والے ان سیکڑوں ہزاروں افراد کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو ہر روز سندھ کی آبادی میں اضافہ کے ذمہ دار ہیں۔
پھر آج بھی سندھ می دیواروں پر "واپس جاؤ" جیسے ناپسندیدہ نعرے لکھے ہوئے ملیں گے لیکن کسی سندھی لیڈر یا تنظیم نے مہاجروں سے یہ نہیں کہا کہ تم کیوں واپس چلے جاؤ یا یہاں سے نکل جاؤ۔ اب دو تین ماہ سے البتہ یہ نعرے سننے کو ملنے لگے ہیں کہ "ہم مہاجروں کو بھارت میں دھکیل دیں گے" لیکن یہ نعرہ سندھیوں نے نہیں بلکہ ہمارے ان بھائیوں نے لگایا ہے جن کا سندھ پر خود قطعی کوئی حق نہیں لیکن وہ بزور اپنا حق منوانے کی خاطر ایک خاص نام سے میدان میں آئے ہیں لیکن تقریباً تمام ہی سندھی لیڈروں نے مہاجر لیڈروں سے بھی آگے بڑھ کر ان لوگوں کو ناپسند کیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ "کوئی کسی کو بھارت نہیں دھکیل سکتا"
مہاجرین کی بخوشی نقل مکانی
ڈاکٹر اسرار صاحب نے گزشتہ سال کے آخر میں "سندھ کا مسئلہ" کے زیر عنوان روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے طویل سلسہ مضامین میں پہلی مرتبہ اپنی اس تحقیق کا انکشاف فرمایا کہ جنوبی وزیرستان کے علاوہ یوپی، سی پی اور راجپوتانہ سے مسلمانوں کی ہجرت زیادہ تر اختیاری تھی جسے نقل مکانی بھی قرار دیا گیا ہے۔ یہی بات "سندھ کے وسائل پر استحقاق" میں دہرائی گئی ہے۔ 1947ء اور 1948ء میں بھارت کے طول و عرض میں ہونے والے مسلم کش فسادات اگر کسی کی یاد داشت سے محو بھی ہوچکے ہوں تب بھی کیا آئے دن بھارت میں ہونے والے فسادات کی خبروں سے بھی کوئی چشم پوشی کرسکتا ہے اور اگر اس کے باوجود بھی کوئی کہتا ہے کہ ہجرت اختیاری تھی تو پھر ایسے حضرات کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ بھارت میں فرقہ ورانہ فسادات کے سلسلے میں برطانوی جریدے "اکنامسٹ" کی یہ حالیہ رپورٹ آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 25 سال کے دوران وہاں مسلم کش فسادات میں 8 گنا اضافہ ہوا ہے اور مزید یہ کہ وزیر اعظم راجیوگاندھی کے دور میں بھارت میں 5 سو مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں۔
یہ بات تو تاریخ کے ایک اہم باب کے طور پر ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کہ برصغیر کی آزادی کے اعلان کے ساتھہ ہی مسلمانوں کے خلاف بھارت میں ملک گیر پیمانہ پر اور منظم طریقہ پر فسادات کرائے گئے۔ تاکہ پاکستان وسیع پیمانہ پر لٹے پٹے مہاجرین کر بوجھہ تلے دب جائے۔ بقول قائد اعظم بھارت کا منصوبہ یہ تھا کہ "پاکستان قائم ہوتے ہی فنا ہوجائے" لیکن چند ماہ میں پاکستان کے خاتمہ کی پیشن گوئی دوسال تک پوری نہیں ہوئی تو 1949ء کے آخر میں بھارتی حکومت نے ایک قانون بنایا جس کے تحت حکام کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ جس مسلمان خاندان کو چاہیں اس پر "ترک وطن کا ارادہ رکھنے یعنی (INTENDING EVACUEE) کا الزام لگا کر اس کی زمین، جائیداد ، کھڑی اور تیار فصلوں حتٰی کہ گھریلو سامان تک پر قبضہ کرلیں۔ یہ قانون مغربی بنگال اور آسام کے سوا پورے ہندوستان پر نافذ کردیا گیا تاکہ جہاں فسادات نہیں ہوئے یا فسادات کی شدت میں کمی رہی اور وہاں سے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے ہجرت نہیں کی وہاں سے بھی انہیں بے دخل کردیا جائے۔ اس یک طرفہ کاروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1950ء میں بھارت سے پاکستان آنے والے مہاجرین کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوگیا۔ اس قانون کا ذکر یہ بتانے کی غرض سے کیا گیا ہے کہ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے قیام پاکستان کی حمایت تو خوب سوچ سمجھہ کر اور اپنے عقیدہ کے طور پر قطعی آزادانہ فیصلہ کےبعد کی تھی لیکن وہ پاکستان بخوشی نہیں آئے ان کو بحالت مجبوری وہاں سے آنا پڑا تھا یا پھر قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہہ کر وہ پاکستان آئے تھے تاکہ ہندوؤں کے یہاں سے چلے جانے سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کیا جاسکے۔
مہاجرین کا احساس برتری
مہاجرین کا احساس برتری کا ذکر تو سننے میں آتا رہا ہے لیکن اس کی "ٹھوس" مثال ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے مضمون "مسئلہ سندھ" میں یہ دی ہے کہ مہاجر پنجابیوں کے لئے "ڈھگے" کا لفظ استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے لیکن غالباً ڈاکٹر صاحب نے "پنجاب کا مقدمہ" نامی حنیف رامے کی کتاب نہیں پڑھی جس میں لکھا ہے کہ "بیل کا ایک تعلق صدیوں سے اہل پنجاب سے رہا ہے ۔ شاید اسی لئے آج تک دوسرے صوبوں کے لوگ پنجابیوں کو "ڈھگے" یعنی بیل کہہ کر پکارتے آئے ہیں۔ یوں بھی قدیم زمانوں میں قبیلوں اور قوموں کو جانوروں یا پرندوں کے ناموں سے پکارا جاتا تھا" اب کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ ۔ ۔ ۔
جہاں تک سندھی زبان کو کمتر سمجھہ کر شعبہ تعلیم عدالت اور دیگر سرکاری دفتروں سے اسے خارج کئے جانے کا تعلق ہے تو اس میں مہاجرین کو کوئی کس طرح ذمہ دار قرار دے سکتا ہے۔ مرکز میں مہاجرین کی آواز نہ ہونے کے برابر رہی ہے سندھ کی صوبائی حکومت میں یا تو سندھی حضرات کی وزارت رہی یا پھر غیر سندھی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے۔ نوکر شاہی چاہے وہ مرکز کی ہو یا ون یونٹ کے زمانہ میں صوبہ کی تمام اہم نشستوں پر بڑے بھائی تسلط رہا ۔ صوبہ سندھ کے اعلٰی عہدوں پر بھی باہر سے آئے ہوئے افسروں کی کثرت رہی اور اسی ضرورت کے تحت اردو کے نام پر سندھی کی سرکاری حیثیت ختم کردی گئی لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ اردو کو بھی سندھ کے شعبہ تعلیم عدالت اور دفتری زبان کی حیثیت سے رائج نہیں کیا گیا بلکہ چپ چاپ انگریزی کو نافذ کردیا گیا۔ اور اب بعض دانشور فرماتے ہیں کہ صوبہ سندھ کے دفتروں سے سندھی کا اخراج مہاجرین کی بدولت عمل میں آیا حالانکہ آزادی کے بعد سے سندھ کے اسکولوں میں سندھی طلبہ اردو اور غیر سندھی طلبہ سندھی پڑھتے تھے اور اس طرح ان میں ہم آہنگی یگانگت اور قربت پید ہورہی تھی کہ ایوب خانی مارشل لا کے دور میں ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر صاحب نے جو آج کل اتفاق سے ایک سیاسی جماعت کے سیکریٹری جنرل ہیں ایک حکم کے ذریعہ سندھیوں کے لئے اردو کی تعلیم اور غیر سندھیوں کے لئے سندھی کی تعلیم کی پابندی ختم کرکے سندھ کے لوگوں کو قریب ہونے کے عمل سے روک دیا۔
وہ قتل کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اردو بولنے والوں نے سندھی تہذیب کو پس پشت ڈالا اور اردو تہذیب اور رسم و رواج کو سندھ پر مسلط کرنے کی کوشش کی وہ شاید تہذیب کے معنی بھی نہیں جانتے اور اگر جانتے ہیں تو محض شرارتاً اس قسم ک غلط باتیں کہتے اور لکھتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی اردو تہذیب اور رواج کا وجود نہیں ہے۔ یوپی اور سی پی میں بھی اردو بولی جاتی ہے اور بمبئی اور بہار میں بھی ۔ لیکن کیا دہلی اور لکھنئو کی تہذیب میں فرق نہیں؟ کیا راجپوتانہ اور حیدرآباد دکن کی تہذیب جدا جدا نہیں ؟ اور کیا دہلی اور حیدرآباد دکن کی تہذیب ایک ہی ہے؟ اور آگے آئیے، سندھ میں کیا تھر اور دادو ، لاڑکانہ کی تہذیب یکساں ہے؟ کیا جنوبی اور شمالی سندھ کی تہذیب میں فرق نہیں؟ کیا حیدرآباد اور خیرپور کی تہذیب جدا جدا نہیں؟ اگر ایک صوبہ کے مختلف علاقوں کی تہذیب میں فرق موجود ہے تو آپ اردو تہذیب کسے قرار دے سکتے ہیں جبکہ اردو کا غلبہ ایک وسیع علاقہ پر موجود رہا ہے۔ پھر ان اہل فکر و دانش کو چاہئے کہ وہ اردو تہذیب کی ذرا وضاحت فرمادیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تہذیب کسی ساکت اور جامد شے کا نام نہیں یہ تو ایک ایسا طرز حیات ہے جو غیر محسوس طریقے پر اور مستقل طور پر تغیر پذیر رہتا ہے۔ نہ تو کوئی تہذیب کسی طبقہ پر مسلط کی جاسکتی ہے اور نہ کوئی طبقہ اسے اختیاری طورپر قبول کرتا ہے یہ تو آہستہ آہستہ معاشرے میں سرایت کرتی اور پھر ظہور پذیر ہوتی ہے۔ جس تہذیب میں کشش یا اچھائی ہوتی ہے لوگ خودبخود اس کی طرف راغب ہوتے جاتے ہیں اور اس کے رنگ میں خود کو رنگتے جاتے ہیں یہ کسی کے کہنے یا منع کرنے سے نہ تو اختیار کی جاسکتی ہے اور نہ اس سے بچایا جاسکتا ہے۔ ان حالات کی روشنی میں جو لوگ اردو تہذیب کو سندھی تہذیب پر مسلط کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے ہیں وہ بے سوچے سمجھے یہ سب کچھہ کہہ رہے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو خود اردو اور سندھی زبانوں میں بھی تبدیلی آتی جارہی ہے آزادی سے قبل جو الفاظ ان زبانوں میں مروج نہیں تھے آج وہ ان کا حصہ بن چکے ہیں پھر اردو کسی خاص طبقہ کی زبان نہیں ہے یہ تو رابطے کی زبان ہے جسے پٹھان بھائی اپنے انداز اور اپنے لب و لہجہ میں بولتا ہے بلوچ بھائی اپنے طریقے پر اردو استعمال کرتا ہے پنجابی بھائی کا اردو بولنے کا اپنا انداز ہے اور سندھی بھائیوں کا اپنا، بنگالی اپنے طور پر اردو بولتا ہے اور مدراسی اپنے طریقہ پر، اسلئے اردو کو اب اگر اردو کے بجائے "پاکستانی" کہا جائے تو بیجانہ ہوگا۔
صنعت و تجارت کا کراچی میں ارتکاز
کہا جاتا ہے کہ مہاجرین نے سندھ کے دیگر علاقوں کو نظر انداز کرکے ان کو پسماندہ رکھا اور کراچی میں صنعت و کاروبار کا ارتکاز کیا۔ "تمام ملکی وسائل شہر کراچی کی ترقی کیلئے خرچ کئے گئے" کراچی کی ترقی کے لئے نہیں بلکہ کراچی نے ملکی وسائل کے لئے بہت قربانی دی ہے۔ لیکن "سندھ کے وسائل پر استحقاق" کے مصنف یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں گویا یہاں سب کچھہ مہاجرین ہی نے کیا ہے پاکستان میں بھی مہاجرکی آمریت قائم رہی ہے اور سندھ پر بھی انہی کا تسلط رہا ہے اس لئے انہوں نے جس علاقہ کو جدید ترین شہر بنانا چاہا اسے بنادیا اور اگر لیاری کو پسماندہ رکھنا چاہا تو اسے پسماندہ رکھہ دیا۔ موصوف کراچی کی ترقی کو سندھ ہی کا حصہ سمجھتے ہیں کراچی کی ترقی سندھ کی ترقی ہے اور اگر کراچی کو صنعت ، حرفت اور تجارت کا مرکز بنا کر اسے جدید ترین شہر بنانے کا الزام مہاجر پر ڈالا جارہا ہے تو تو پھر مہاجر تو فیصل آباد، گجرات، سیالکوٹ اور مردان میں صنعتوں کے قیام کا الزام بھی اپنے سر لینے کے تیار ہیں۔
یہ کس قدر نادانی کی بات ہے کہ لوگ کراچی کی دولت اور اس کے وسائل سے شہر مادر سمجھہ کر فائدہ اٹھارہے ہیں لیکن اس کی ترقی اور تعمیر پر تنقید کرتے ہیں اور اپنا حق جتانے کے لئے فرماتے ہیں کہ کراچی کی تعمیر و ترقی پر ملکی سرمایہ خرچ کیا گیا ہے ایسے لوگوں کو سینٹرل بورڈ آف ریوینیو کے چیئرمین جناب
No comments:
Post a Comment