دہشت گردی میں بھارت کا حصہ

روزنامہ نوائے وقت بدھ 5 ستمبر 1990ء

گزشتہ دو پونے دو سال کی مختصر مدت کے دوران سندھ کے دوسرے اور پاکستان کے پانچویں سب سے بڑے شہر حیدرآباد کو منظم دہشت گردی کا اتنی بار شکار بنایا گیا ہے کہ اب تو یہاں کے شہریوں کو جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے زیر تسلط کالی آبادی اور ہزاروں سال قبل تباہ و برباد ہوجانے والے " موہنجودڑو" (مردوں کے ٹیلے) پر بھی رشک آنے لگا ہے کہ جنوبی افریقہ کی پولیس کے ہاتھوں وہاں کی عورتوں اور بچوں کی جان اور عزت محفوظ رہتی ہے اور " موہنجودڑو" کو انسانی تہذیب و تمدن کا نمونہ قرار دے کر اس کی حفاظت کی خاطر صرف قومی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطر پر بھی کوششیں جاری ہیں جبکہ لاکھوں زندہ انسانوں کے شہر حیدرآباد کے بارے یں کبھی یہ مشورہ ہوتا ہے کہ اس کا محاصرہ کرکے تیس چالیس ہزار لوگوں کو قتل کردیا جائے کبھی اس شہر کو فتح کرنے کی خاطر " غیرت مند سندھیوں" کو پکارا جاتا ہے کبھی اسے بموں سے اڑادینے کے عزائم کا اظہار ہوتا ہے اور پھر ان عزائم کو عملی شکل دینے کی خاطر کبھی پورے شہر میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے کبھی پولیس ایکشن کے ذریعہ علیحدگی پسندوں کو للکارنے کی سزا دی جاتی ہے اور کبھی فی الواقع بموں سے اڑا کر اس شہر کو " بیسویں صدی کی جمہوری تہذیب" کی آخری نشانی کے طور پر کھنڈر بنا کر محفوظ کرنے کے لئے کاروائی کی جاتی ہے۔ کبھی اس شہر کے لوگوں سے نفرت کے اظہار سہاگنیں اپنے ہاتھوں میں پہنی ہوئی چوڑیاں توڑ کر بیوگی کو نمونہ اس لئے پیش کرتی ہیں کہ یہ چوڑیاں حیدرآباد میں بنتی ہیں۔ ہاں اب یہ دیکھیں کراچی، حیدرآباد اور پنجاب میں بنے ہوئے ہوئے کپڑوں سے کب نجات پائی جاتی ہے۔

30 ستمبر1988ء اور 15 جولائی1990ء کو پیش آنے والے اندوہناک واقعات کو اندازہ یہ بتاتا ہے کہ ان کے پیچھے ماہر اور تربیت یافتی منصوبہ ساز تھے۔ پچھلے دنوں ہونے والے بموں کے دھماکوں کی نوعیت تو اس لئے زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ شہر کے اندر بھی مختلف مقامات پر پولیس، رینجرز، فرنٹئر کانسٹبلری اور فوج کے جوانوں کی سخت نگرانی وار جانچ پڑتال جاری تھی۔ اس طرح منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردی یا تخریب کاری کا کوئی واقعہ پیش آتان ہے تو ہمارا خیال معاشرتی اور مغربی پڑوسیوں کی طرف جاتا ہے۔ بھارت تو ہمارا ازلی دشمن ہے ہی وہ ہمارے خلاف کسی بھی قسم کی گھناؤنی سازش کرسکتا ہے لیکن افغانستان میں قائم کٹھہ پتلی حکومت بھی کوئی کم دشمن نہیں ہے، پاکستان میں تخریبی کاروائیوں میں ان دونوں پڑوسی ملکوں کا ملوث ہونا قرین قیاس ہے اور اس خدشہ کا اظہار پیپلز پارٹی کی سابق وزیر اعظم سابق کابینہ کے کچھہ ارکان اور چند سیاسی لیڈروں نے بھی کیا تھا کہ سندھ کے واقعات میں غیر ملکی عناصر ملوث ہیں۔ بظاہر تو اس سے انکار ممکن بھی نہیں ہے لیکن ان ہولناک واقعات کی نوعیت اور ماضی قریب میں ہمارے اپنے ہی ملک کے ایک خاص طبقہ کے رویہ پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرتے ہیں تو ثابت کرنا بہت آسان ہے کہ دہشت گردی اورتخرب کاری کے ان واقعات میں بھارت اور افغانستان کے افراد براہ راست ملوث نہیں ہیں۔ آئیے معاملہ کی اصلیت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے لئے چند سال قبل چلنا ہوگا۔

یہ حقیقت پاکستانی عوام کے ذہنوں میں محفوظ ہوگی کہ ملک کی اعلٰی ترین عدالت کے فیصلہ کے مطابق ملک کے سابق غیر فوجی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سابق صدر اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے جرم میں جس دن پھانسی دی گئی اسی دن لندن میں مرحوم کے صاحبزادوں نے " ہم انتقام لیں گے" کا نعرہ بلند کرنے کے بعد " الذوالفقار" نام کی ایک تنظیم قائم کی تھی جس کا مقصد پاکستان اور پاکستان عوام کے خلاف دہشت گرد کاروائیاں کرنا تھا۔ بھارت کی اندراگاندھی اور افغانستان نے اس تنظیم کا سرپرست اور مربی ہونا فوراً قبول کرلیا تھا۔ چند اور مسلم ممالک اور ایک بڑی تنظیم نے بھی اس تنظیم کو مالی اور اخلاقی امداد و تعاون کے لئے ہاتھہ بڑھایا تھا۔ بھارت نے بوجہ اس تنظیم کا مرکز اپنے یہاں قائم کرنے کی اجازت تو نہیں دی تھی لیکن دہشت گردوں کی تربیت کے لئے کیمپ قائم کرکے پاکستان کو اندرونی خلفشار کا شکار بنانے کے لئے راہ ضرور ہموار کرلی تھی۔ اندراگاندھی نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے کابل میں الذوالفقار کو اپنا صدر دفتر قائم کرنے اجازت البتہ دلوادی تھی۔

الذوالفقار نے پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز پی آئی اے کے طیاروں کو اغواء کرکے کیا اس کے بعد قتل، اغواء، لوٹ مار، آتشزنی، مواصلاتی نظام میں رخنہ اندازی، بموں کے دھماکوں اور بسوں کو اڑانے جیسے اندوہناک واقعات کے جو سلسلہ شروع ہوا ہے تو تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ انتقام کی اس آگ نے عظیم محب وطن لوگوں کو بھی ہم سے جدا کردیا۔ جن میں چوہدری ظہور الٰہی اور ظہور الحسن بھوپالی جیسے مسلمان بھی شامل ہیں۔ اس وقت کے صدر مملکت جنرل ضیاء الحق تک کو نشانہ بنانے کی کوششیں کی گئیں حتٰی کہ قرآن پاک میں خلا بنا کر اس میں بم نصب کیا گیا تاکہ صدر موصوف کو تحفہ پیش کرکے انہیں شہید کردیا جائے۔ بھارت اور افغانستان سے ساز باز کرکے پاکستان میں وسیع پیمانے پر خونریزی اور تباہی کے منصوبوں پر عمل درآمد کی خاطر دونوں ملکوں سے بھاری ہتھیار تک حاصل کئے گئے لیکن اس سلسلہ میں وہ تربیت زیادہ مفید اور کارآمد ثابت ہوئی جو الذوالفقار کے کارکنوں نے بھارتی کیمپوں میں حاصل کی تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ تربیت دینے والے بھارتیوں کو پاکستان کے ہر علاقہ اور وہاں کی آبادی کے بارے میں جو معلومات حاصل ہیں وہ کسی اور ملک کے تربیت دہندگان کو حاصل نہیں۔

بھارے میں " سندھودیش" کے لئے بھی دو عشروں سے زیادہ عرصہ سے کام ہورہا ہے ۔ اس مقصد کے لئے بھارت میں ذہنی اور جسمانی تربیت کا اہتمام کیا ہوا ہے۔ لیکن الذوالفقار افرادی قوت اور تربیت کے لحاظ سے زیادہ وسیع اور مؤثر دہشت گرد تنظیم ثابت ہوئی بلکہ یہود اور ہنود کے زیر اثر ذرائع ابلاغ کا پوا تعاون بھی اسے حاصل تھا اور اندرون ملک اس تنظیم کا سیاسی محاذ پر تحفظ دینے والے عناصر بھی پوری طرح سرگرم عمل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھو دیش کے لئے کام کرنے والی نام نہاد تحریک بھی عملاً الذوالفقار کا ایک حصہ بن کر کام کرنے لگی۔

No comments:

Post a Comment