معاشرہ کا محترم طبقہ اور ایک سنگین واقعہ
روزنامہ جسارت پیر8 جنوری 1990 ء
جس طرح زبان سے ادا ہونے والے یا ضبط تحریر میں آنے والے ایک یا چند الفاظ میں طویل مضامین بلکہ ضخیم کتابیں چھپی ہوئی ہیں بالکل اسی طرح اخبارات میں شائع ہونے والی چھوٹی سی خبر میں بھی بعض اوقات قوم کا کردار اور اس کے زمانہ حال کی داستان پوشیدہ ہوتی ہے۔ اسی طرح کی ایک خبر حال ہی میں اخبارات کے اندرونی صفحات میں شائع ہوئی ہے۔ اس خبر کا جو چند سطروں پر مشتمل ہے صرف ایک جملہ ہماری اخلاقی گراوٹ کی سنگینی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ خبر یہ ہے کہ کراچی بار ایسوسی ایشن کے سالانہ امتحانات کا نتیجہ مرتب کرنے کے دوران " ایک امیدوار کے حامیوں نے ہنگامہ آرائی کی اور بیلٹ پیپر پھاڑ دیئے۔"
وکیلوں کی برادری کو معاشرہ میں بجا طور پر ایک منفرد اور محترم مقام حاصل ہے اس لئے کہ وہ قانون کی اعلٰی تعلیم کے حامل افراد پر مشتمل ایک گروہ ہیں نچلی سطح سے لے کر اعلٰی ترین سطح کے منصف صاحبان کا انتخاب اور تقریر بھی انہی میں سے کیا جاتا ہے اور ملک میں نظام عدل کا کار فرمائی کا تماتر انحصار عدلیہ اور مضبوط کردار کے ملک قانون داں حضرات ہی پر ہے پیشہ ورانہ مشاورت اور معاونت کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی امور میں بھی رہنمائی کے لئے عوام انہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ ملک میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کے حقیقی تقاضوں کی تکمیل کا زیادہ دارومدار وکلاء برادری ہی پر ہے عدالت کے اندر اور عدالت کے باہر یہی لوگ نا انصافیوں کے خلاف مؤثر آواز اٹھاسکتے ہیں لیکن اگر اس برادری میں بھی بددیانت، بدعنوان اور غیر ذمہ دار افراد شامل ہوکر غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا ارتکاب کرنے لگیں اور برادری ان کے خلاف مناسب اور عبرتناک کاروائی کا اہتمام کرنے سے گریز کرے تو پھر قوم اپنے بہتر مستقبل کی خاطر ان سے کسی طرح اچھی امیدیں وابستہ رکھہ سکتے ہیں اور تشویش کا یہی پہلو مذکورہ بالا مختصر خبر کو اہم بنادیتا ہے کہ اس سے ہمارے وکیلوں کے کردار کی نشاندہی ہوتی ہے۔ گو خبر میں ذکر صرف ایک ہی وکیل کا ہے جس نے ہنگامہ آرائی کی اور بیلٹ پیپر پھاڑدیئے لیکن یہ ہمارے تشویشناک مستقبل کی گھنٹی ہے جسے اگر ہم نے فوری طور پر محسوس نہ کیا اور اس کے سدباب کی کوئی راہ نہ نکالی تو پھر ہمیں اخلاق کی گراوٹ اور کردار کی کمزوری کے اس نقطہ تک گرنے سے نہیں روکا جاسکے گا جہاں پہنچ کر قدموں کی بقا کے تمام راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔
وکلاء برادری کے لئے یہ واقعہ فوری توجہ کا مستحق ہے اگر آج اسے نظر انداز کیا گیا تو کل بار کی سطح پر اس سے بھی بڑا اور قومی سطح پر سنگین قسم کے واقعات پیش آئیں گے اور ہوسکتا ہے کہ اس وقت اس قسم کی غلطیوں کی تصحیح کا موقع ہی نہ ملے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے لئے آج تو یہ واقعہ لمحہ فکریہ ہے لیکن اگر اس کی روک تھام میں کسی مصلحت سے کام لیا گیا تو کل یہی " سبب فکر" ثابت ہوگا۔
کراچی کی وکلاء برادری کی تویہ بات زیادہ اچھی طرح یاد ہوگی کہ 12 مارچ 1986ء کو بھی کرچی بار میں اس سے مختلف ایک واقعہ پیش آیا تھا کہا ایک معزز مہمان کے ساتھہ محض اختلاف رائے کی بنیاد پر انتہائی توہین آمیز سلوک کیا گیا تھا گو اس میں بھی چند حضرات ملوث تھے لیکن اس وقت بھی کسی قسم کاروائی سے اجتناب برتا گیا تھا لیکن ہر عقلمند آدمی یہ جانتا ہے کہ ہر برائی ایک معمولی برائی ہی سے شروع ہوتی ہے اور پھر وہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور آہستہ آہستہ برائیاں اچھائیوں پر اس طرح چھا جاتی ہیں کہ ان میں تمیز بھی مشکل ہوجاتی ہے، انتخابات چاہے ملک یا صوبہ کی مقنّنہ کے لئے ہوں یا کسی ادارہ یا تنظیم میں نمائندگی یا عہدہ کے لئے بڑی اہمیت رکھتے ہیں اس سلسلہ میں دھونس یا دھاندلی کے ذریعہ مرضی کا نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش انتہائی معیوب ہے اور ایسا کرنا جمہوری اصولوں کی نفی کرنا ہے اگر وکیل حضرات بھی ایسا کرنے لگیں تو پھر عام لوگوں کو ان برائی میں ملوث ہونے سے کس طرح روکا جاسکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment