پاکستانی پرچم کے ڈیزائن کی تیاری کے بارے میں حقائق

روزنامہ نوائے وقت جمعۃ المبارک 14 اگست 1987ء

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ تحریک پاکستان میں سرگرمی کے ساتھہ حصہ لینے والوں میں سے چند ہستیاں اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں سردار شوکت حیات خان صاحب بھی انہی ممتاز ہستیوں میں شامل ہیں جو الحمدللہ کہ پوری طرح صحت مند بھی ہیں۔ موصوف نے کچھہ عرصہ پہلے یہ بیان دے کر ایک زور دار دھماکہ کردیا تھا کہ پاکستان کے قومی پرچم کا نمونہ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تیار کیا تھا اس بیان سے یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ پاکستان کے قیام میں انگریزوں کی دلچسپی کو اس قدر دخل تھا کہ پرچم انہوں نے ہی تیار کرکے دیا تھا اور مسلم لیگ کی قیادت نے اسے جوں کا توں قبول کرکے اپنی سعادت مندی کا ثبوت دیا تھا۔ بات گو کافی پرانی ہوچکی ہے لیکن راقم الحروف نے یہ ضروری سمجھا کہ یادداشت کی درستگی کی خاطر تاریخ پاکستان کے طالب علموں کے سامنے اختصار کے ساتھہ ان دستاویزات کو پیش کردیا جائے جن تک رسائی عام پاکستانی کو حاصل ہونا کافی مشکل ہے۔

پاکستانی پرچم کے لئے نمونہ کی تیاری کی حد تک تو یہ بات صحیح ہے کہ ماؤنٹ بیٹن نے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کے لئے بھی قومی پرچموں کے نمونے بھی تیار کئے تھے لیکن یہ کہنا کہ پاکستان کا پرچم جو اسی نمونے کے مطابق ہے قطعی غلط ہے اس سلسلہ میں ہم خود ماؤنٹ بیٹن کے اپنے الفاظ میں پرچم کی کہانی سنانے پر اکتفا کرینگے۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 27 جون 1947ء کو جو ذاتی رپورٹ حکومت برطانیہ کو بھیجی ۔ اس میں اس نے لکھا۔

" میں نے دونوں ملکوں کے لئے پرچموں کے خاکے تیار کئے ہیں جو کانگریس اور لیگ کےجھنڈوں پر مشتمل ہیں اور ان میں اوپر کے کونے میں چھوٹا سا یونین جیک ہے میں نے ان کی نقول نہرو اور جناح کو دیدی ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔"

12 جولائی 1947ء کو قائد اعظم کے ساتھہ اپنی ملاقات کے دوران ماؤنٹ بیٹن نے دریافت کیا کہ آیا پاکستان کے پرچم کے سلسلہ میں انہوں نے کچھہ فیصلہ کرلیا ہے اس کے جواب میں قائد اعظم نے جو کچھہ فرمایا وہ ماؤنٹ بیٹن کے اپنے الفاظ ہی میں ملاخطہ فرمائیے۔

" انہوں (قائد اعظم) نے بتایا کہ انہیں ذاتی طور پر افسوس ہے کہ وہ ایک بھی ایسا شخص نہیں پاسکے جو مسلم لیگ کے جھنڈے کے اوپر کونے میں یونین جیک کے خیال کا حامی ہو انہوں نے وضاحت کی یہ بات مسلمانوں کے مذہبی جذبات کے قطعی منافی ہوگی کہ وہ ایسا پرچم قبول کریں جس میں ہلال کے ساتھہ عیسائی کی صلیب بھی ہو۔"

پاکستانی پرچم بنانے کا سہرا جس شخص کے سر باندھنے کی کوشش کی گئی خود اسی شخص کے بیانات اس حقیقت کو جھٹلارہے ہیں ۔ لیکن سردار شوکت حیات خان بھی فرماتے ہیں کہ چوہدری محمد علی مرحوم نے اپنی کتاب " ظہور پاکستان" میں بھی یہی بات لکھی ہے ۔ سردار صاحب کہتے ہیں کہ چوہدری صاحب تو جھوٹ نہیں لکھیں گے لیکن " ظہور پاکستان" میں تو صرف یہ لکھا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن اچھا ڈیزائنر تھا۔ اس نے پاکستان کے پرچم میں ہلال کے رخ کو بدلنے کا مشورہ دیا تھا۔

اب آئیے ذرا قائد ملت خان لیاقت علی خان کی زبانی بھی سن لیں کہ وہ پاکستانی پرچم کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

11 اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے جب پاکستان کے لئے مجوزہ پرچم پیش کیا ۔ تاکہ اس کی منظوری لی جاسکے تو اسمبلی کے رکن بھیم سین سحر نے تجویز پیش کی کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں اقلیتی نمائندے بھی شامل ہوں اور وہ پرچم کا فیصلہ کرے کانگریسی اراکین اسمبلی نے یہ اعتراض بھی کیا کہ یہ پرچم ایک پارٹی کا پرچم ہے جو مسلمانوں کا مذہبی پرچم ہے تو خان لیاقت علی خان نے وضاحت کی کہ یہ نہ تو پارٹی کا جھنڈا ہے اور نہ کوئی مذہبی پرچم ہے بہرحال کمیٹی کی تشکیل کی مخالفت کرتے ہوئے بتایا کہ دستور ساز اسمبلی کے مسلم اراکین ےک کو اس پرچم کے بارے میں کچھہ معلوم نہیں تھا اور اس کا سبب وقت کی کمی رہا ہے۔ اس پرچم کا نمونہ ہم چند دوستوں نے دہلی میں تیار کیا تھا اور میں اپنے دوستوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے مسلمان ساتھی بھی اس پرچم کو ان (اقلیتی نمائندوں) ہی کے ساتھہ ساتھہ دیکھہ رہے ہیں۔"

ماؤنٹ بیٹن کے اپنے بیانات خان لیاقت علی خان کے اسمبلی میں اعلان اور چوہدری محمد علی کی وضاحت کے بعد یہ کہنے کی قطعی گنجائش نہیں رہتی کہ پاکستان کا پرچم ہمارے اپنے قائدین کرام کے علاوہ کسی اور کا تیار کردہ ہے۔

No comments:

Post a Comment