پاکستان کا ایٹمی پروگرام

روزنامہ جسارت جمعۃ المبارک 25 جولائی 1986 ء

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان مرحوم نے 4 مئی 1950ء کو اپنے دورۂ امریکہ کے دوران وہاں نیشنل پریس کلب میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ " ہمیں سب سے زیادہ جس بات میں دلچسپی ہے وہ ہمارے ملک کی علاقائی یکجہتی ہے۔" اس موقع پر آپ نے اور باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ " ہماری دلی خواہش اور کوشش کے باوجود بھارت کے ساتھہ پاکستان کے تعلقات کو بہتر قرار نہیں دیا جاسکتا۔" یہ ہماری اور اس علاقہ کی بدقسمتی ہے کہ 39سال بعد پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بھی اس قسم کی باتیں کرنی پڑرہی ہیں اور امریکہ ہمیں ہماری آزادی، سلامتی اور علاقائی یکجہتی کی حمایت کا یقین دلارہاہے پاکستان کی سلامتی اور جغرافیائی حدود کی یکجہتی کی یہ ضمانت اس مشترکہ اعلان میں دی گئی ہے جو وزیر اعظم جونیجو اور صدر ریگن کے درمیان بات چیت کے بعد 18 جولائی 1984ء کو جاری کیا گیا ہے۔ امریکہ کی اس غیر مبہم اور واضح یقین دہانی کو تاریخ کی آنکھہ سے دیکھتے ہیں تو مایوسی ہی ہوتی ہے اس لئے کہ 1959ء میں ہونے والے سلامتی کے پاک امریکی معاہدہ کے باوجود دو مرتبہ پاکستان کو کھلی جارحیت کا نشانہ بنایا گیا لیکن مقام حیرت ہے کہ اس کی سزا بھی پاکستان ہی کو دی گئی۔ 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیاتو نتیجتاً ہمیں امریکہ نے ہتھیار اور پہلے سے خریدے گئے امریکی اسلحہ کے فاضل پرزے دینے سے انکار کردیا اور 1971ء میں بھارت نے پھر روس کی کھلی حمایت اور مدد کے ساتھ پاکستان پر حملہ کیا تو بھی 1959ء کا یہ معاہدہ کاغذ کے ایک پرزہ سے زیادہ اہمیت اختیار نہ کرسکا بلکہ اس بار تو پاکستان کے دو ٹکڑے کردیئے گئے لیکن امریکہ نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں ان حقائق کی روشنی میں ہمیں اپنے ملک کی آزادی، سلامتی اور علاقائی یکجہتی کے لئے کسی کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے خود اپنے زور بازو پر ہی بھروسہ کرنا ہوگا۔

ان تلخ حقائق کے باوجود ہمارے پیش نظریہ حقیقت بھی رہنی چاہئے کہ آج کی دنیا سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے سکڑتی جارہی ہے کو ئی بھی ملک دنیا کے بڑے اور قابل ذکر ملکوں سے کٹ کر نہیں رہ سکتا اور اسی تناظر میں ہمیں وزیر اعظم جونیجو کے دورۂ امریکہ اور پاک امریکی مشترکہ اعلان کا تجزیہ کرنا چاہئے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ امریکہ ہر لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے اور آزاد دنیا کے خلاف اس کے بڑھتی ہوئی یلغار کو صرف امریکہ ہی کی مدد سے دور کیا جاسکتا ہے اور یہ بات دنیا کی تمام آزادی اور امن پسند اقوام کے لئے اطمینان کا باعث ہے کہ افغانستان میں دنیا کی سب سے بڑی طاغوتی طاقت روس کے خلاف لڑنے والے نہتے لیکن جانباز مجاہدین کو امریکہ کی اخلاقی اور مادی امداد اور تعان حاصل ہے اور اس بات کا اعادہ پاک امریکی مشترکہ اعلان میں بھی کیا گیا ہے یہی نہیں بلکہ صدر ریگن نے افغانستان میں مزاحمتی گروپ کے رہنماؤں سے اپنی حالیہ ملاقات کا ذکر بھی اس اعلان میں کرنا ضروری سمجھا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان ایک آزاد اور غیر جانبدار مسلم ملک کی حیثیت دوبارہ حاصل کرلے۔ امریکہ افغان مہاجرین کے لئے بھی دل کھول کر پاکستان کی امداد کر رہا ہے اور ہمیں جو جدید ترین ہتھیار اور ٹیکنالوجی منتقل کی جارہی ہے اس کا سبب بھی یہی ہےکہ پاکستان کو شمالی مغرب میں اب روس سے سامنا ہے یہ دوسری بات ہے کہ ہمیں حقیقی خطرہ جنوب مشرق کی جانب سے درپیش ہے۔

پاکستان کی ایٹمی توانائی اور اسلامی بم کے سلسلہ میں یہودی اور بھارتی لابی نے شور مچا مچا کر دنیا کو کا فی حد تک یقین دلایا تھا کہ پاکستان ایٹمی بلکہ امریکی اعلان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وزیر اعظم جونیجو امریکہ کو قطعی طور پر یقین دہانی کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف پر امن مقاصد کے لئے ہے ورنہ تو حالت یہ تھی کہ امریکہ کسی بھی معاملہ پر بات کرنے سے پہلے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ہدف تنقید بناتا تھا اور کسی بھی قسم کی امداد کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے والے معاہدہ پر دستخط کی شرط عائد کردیتا تھا۔

پاکستان میں انگریزی تعلیم کو بہتر بنانے کے سلسلہ میں امریکہ کی طرف سے تعاون اور ماہرین کے دورہ والی بات البتہ سمجھہ میں نہیں آتی ، جب کہ ہمارے ملک میں انگریزی تعلیم کے بہترین انتظامات موجود ہیں اسکے بجائے اگر ساءنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں عملی تعاون کی بات ہوتی تو زیادہ بہتر تھا۔ ویسے بھی بین الاقوامی تعلقات کی زبان میں " امداد" اور " تعاون" " قرضہ" ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس لئے انگریزی تعلیم کے ضمن میں ملک کو زیر بار کرنا بھی کسی بھی لحاظ سے دانشمندی نہیں اس لئے اب بھی اگر اس سلسلہ میں تبدیلی ممکن ہو تو حکومت پاکستان کو ضرور کوشش کرکے سائنس، ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے ماہرین کو پاکستان آنے کی دعوت دینی چاہئے تاکہ اس شعبہ کو مزید بہتر بنایا جاسکے۔

وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دورۂ امریکہ سے کافی پہلے ہی سے پاکستان اور پاکستان سے باہر " سورتارزیوں" نے شور مچا رکھا تھا کہ موجودہ اسمبلیاں اور جونیجو حکومت غیر نمائندہ ہیں اور وہ " خزاں میں انتخابات کی بہار" کا مزہ لوٹنا چاہتے تھے۔ لیکن مشترکہ اعلان میں مارشل لاء کے خاتمہ اور جمہوریت کی بحالی کے سلسلہ میں صدر محمد ضیاء الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے اقدامات کی تعریف کرکے صدر ریگن نے اس طبقہ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا جو اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ وزیر اعظم کی کھنچائی کرکے انہیں مڈٹرم انتخابات کروانے پر رضامند کرلیا جائے گا۔ صدر ریگن نے وزیر اعظم جونیجو کو خان لیاقت علی خان مرحوم کی جمہوریت کے خواب کی تعبیر قرار دیکر پاکستان کے " محروم تمنا" طبقہ کو مایوسی کے گہرے غار میں دھکیل دیا۔ آزاد اور خودمختار ملک کے باشندے کی حیثیت سے کسی بھی شخص کو اس بات کو سرٹیفیکیٹ نہیں سمجھنا چاہئے۔ جو امریکہ نے پاکستان میں جمہوریت کے سلسلہ میں دیا ہے لیکن اس بات کا یہاں اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ 1985ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی غلطی کرنے والے خود یہ کوشش کرچکے ہیں کہ امریکی حکومت یا کانگریس کے ممبروں ہی سے ازسرنو انتخابات کے مطالبہ کی حمایت میں سرٹیفکیٹ حاصل کرلیں اور سولارز جیسے بھارتی اور یہودی مفادات کے لئے کام کرنے والے شخص کے بیانات کو اپنے مطالبہ کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے خوب اچھالتے رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ لوگ امریکہ کے سامنے گڑگڑا کر یہ درخواستیں کرتے رہے ہیں کہ ملک میں مکمل جمہوریت کی بحالی اور مڈٹرم انتخابات کو پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد کے لئے بنیادی شرط قرار دیا جائے دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ روس اور بھارت دونوں کو اتنا موقع دیا جائے کہ وہ کمزور پاکستان کو اپنا دست نگر بنا لیں۔ کیا حب الوطنی اسی کا نام ہے؟

اعلان میں نجی سرمایہ کاری کا تو ذکر موجود ہے۔ لیکن

؟؟؟؟؟ ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں وزیر اعظم کے دورہ کی خبروں سے برآمدات میں اضافہ کے سلسلہ میں کوششوں کا پتہ چلتا ہے پاکستان برآمدی تجارت میں اکثر خسارہ کا شکار ہے اس کی زیادہ ذمہ داری توخود پاکستانی قوم ہی پر ہے اس لئے سرکاری سطح پر ہم ملکی مصنوعات کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور عوامی سطح پرپین اور پینسل بھی ہمیں وہ پسند ہے جن پر کسی غیر ملک کا نام درج ہو۔ لیکن ہر عوامی اور جمہوری حکومت کا یہ فرض ہے کہ بیرونی تجارت کے فروغ پر خصوصی توجہ دے۔ اس کے بغیر ہم نہ صرف یہ کہ بیرونی قرضے ہی ادا نہیں کرسکیں گے بلکہ زرمبادلہ کے بغیر ملکی صنعت و زراعت تک کو ترقی نہیں دے سکیں گے۔

روس کو " پاکستان سے دور رہو" کے امریکی انتباہ اور واشگاف الفاظ میں ہماری علاقائی سلامتی و یکجہتی کے باوجود ایک آزاد اور غیرتمند قوم اور اس کی فرض شناس حکومت کا فرض ہے کہ وہ امریکہ " تیرا شکریہ" تو ضرور کہے لیکن یہ بات خوب سوچ سمجھہ لینی چاہئے کہ اگر خدانخواستہ براوقت پڑا تو ہماری مدد کو کوئی نہیں آئے گا" خودہی آگے بڑھنا ہوگا لیکن دشمن کے بڑھتے ہوئے ہاتھہ کو مروڑنے کے لئے پہلے سے تیاری کرنی ہوتی ہے۔ لیکن یقین کیجئے ہم تمام خطروں سے بے پرواہ ہاتھہ دھرے بیٹھے ہیں اوریہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ ذاتی مفادات کی اجتماعی اور ملی مفادات پر اور عیش کوشی کو محنت و مشقت پر قربان کردیجئے کہ دنیا میں پنپنے کا صرف یہی راستہ ہے۔

No comments:

Post a Comment