جمہوری نظام میں کوئی ناگزیر نہیں

روزنامہ جسارت منگل ۱۲ صفر المظفر۱۴۰۸ھ 6 اکتوبر 1987 ء

پاکستان کی یہ بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں ہر دور میں کسی نہ کسی برسراقتدار ہستی کو ملک اور قوم کے لئے ناگزیر اور لازم و ملزوم قرار دیا جاتا رہا ہے۔ کبھی اپاہج اور بیمار گورنر جنرل غلام محمد کے لئے کہا گیا کہ وہ پاکستان کے لئے ناگزیر ہیں یہ وہی غلام محمد تھے جنہوں نے خواجہ ناظم الدین کی وزارت کی اس وقت ختم کردیا جب خواجہ صاحب کو اسمبلی میں بھاری اکثریت کی حمایت حاصل تھی پھر یار لوگوں نے اسکندر مرزا کو بھی پاکستان کے لئے ناگزیر قرار دے دیا جب اسکندر مرزا کی بساط الٹ گئی اور ایوب خان مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے تو انہیں بھی پاکستان کیلئے لازم و ملزوم قرار دیا گیا جب ذوالفقار علی بھٹو کو جمہوری قبا میں تاج شاہی پہنایا گیا تو انہیں تو خوشامدیوں نے پاکستان کا دوسرا نام تک قرار دے دیا۔ صدر ضیاء الحق خوش قسمت معلوم ہوتے ہیں کہ انہیں پاکستان کے ناگزیر قرار نہیں دیا گیا۔ خوش قسمت ان معنوں میں کہ ماضی میں جن ہستیوں کو بھی پاکستان کے لئے " ناگزیر" یا " لازم و ملزوم" قرار دیا گیا۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی انجام اچھا نہیں ہوا بلکہ ان میں سے تقریباً تمام ہی کو قوم کی طرف سے بڑے عتاب کا سامنا کرنا پڑا اور غلام محمد کے سوا تمام ہی کو یہ کہتے بن پڑی کہ " بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے"

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو حضرات " باگزیر" اور " لازم و ملزوم" قرار دینے کا کھیل کھیلتے ہیں وہ متعلقہ شخص سے ہمدردی اور دوستی کے جذبہ کے تحت ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی مقصد برآری کے ساتھہ ساتھہ ممدوح کو "انجام بد" تک پہنچانا بھی چاہتے ہییں۔ اس لئے کہ ایسے حضرات بار بار کسی شخص کو ملک و ملت کے لئے "ناگزیر" " ناگزیر" کے نعرے لگا کر اسے حقیقت میں خود کو " ناگزیر" سمجھنے پر مجبور کردیتے ہیں اور جس لمحہ کوئی شخص خود کو ناگزیر سمجھنے لگا۔ پس وہی اس کے زوال کا نقطہ آغاز بھی ثابت ہوتا ہے اس لئے کہ یہ سوچ انسان کو بزعم خود "عظیم" سمجھنے پر مجبور کردیتی ہے لیکن اس کا سفر معکوس شروع ہوجاتا ہے پھر کسی کو گورا قبرستان ملتا ہے کوئی اپنے دیار میں قبر کے لئے دو گز زمین سے بھی محروم رہتا ہے۔ کسی کی شان میں ملک کے ہرگوشہ کی دردودیوار پر نازیبا نعرے لکھے جاتے ہیں اور کسی کے خلاف پوری قوم اٹھہ کھڑی ہوتی ہے یہ تاریخ کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ ان تمام " ناگزیر" ہستیوں کی موت پر پوری قوم میں آنسوبہانے والا نہیں ملا۔ اس لئے ہماری دعا ہے کہ آج اور آنے والے کل کے کسی بھی قومی لیڈر کو "ناگزیر" اور لازم و ملزوم" قرار دیئے جانے سے اللہ محفوظ رکھے۔ آمین

قومی اسمبلی کے رکن مولانا وصی مظہر ندوی نے 29 دسمبر1987ء کو اپنی پریس کانفرنس میں سیّد غوث علی شاہ کو سندھ کی وزارت اعلٰی کے لئے "ناگزیر" قرار دے کر بڑا زور دار سیاسی دھماکہ کردیا۔ ابھی کل تک موصوف سندھ کی تمام برائیوں اور خرابیوں کا واحد ذمہ دار شاہ صاحب ہی کو قرار دیتے رہے ہیں اور آج اپنے موقف میں اچانک اور یکسر تبدیلی کا اعلان بہتوں کی سمجھہ میں نہیں آئے گا۔ بہرحال ہمیں اس سے کوئی بحث نہیں کہ مولانا ندوی نے کس مصلحت یا کن حالات کی بنا پر اپنے موقف میں تبدیلی قبول کی ہے ہمیں تو صرف تشویش اس امر پر ہے کہ سیّد غوث علی شاہ کو "ناگزیر" قرار دے کر کہیں ماضی کا کھیل کھیلنا مقصود نہ ہو ویسے اس ضمن میں جو قابل اطمینان بات ہے وہ یہ ہے کہ شاہ صاحب بہرحال اتنے بھولے نہیں کہ وہ کسی از قسم ماضی سازش کا شکار ہوجائیں۔

ہمارا موضوع مولانا ندوی کے موقف میں تبدیلی یا سیّد غوث علی شاہ کی ذات یا ان کا وزیر اعلٰی کے منصب پر فائز رہنا یا نہ رہنا نہیں ہے بلکہ مقصود و صر اس اصول پر بات کرنا ہے کہ کیاکسی بھی جمہوری ملک اور اسلامی معاشرے میں کوئی بھی شخص آج تک ناگزیر یا لازم و ملزوم قرار دیئے جانے کا مستحق رہا ہے۔ تاریخی لحاظ سے یہ بات ناقابل تصور ہے ہاں جن ممالک میں مطلق العنان حکمراں یا شخص آمریت قائم ہو وہاں اس قسم کے تصورات کی گنجائش مصلحتاً نکالی جاسکتی ہے اور وہ بھی محض ایک خاص نظریہ پر عملدرآمد کی حد تک جیسے " غازی ازم" کے لئے ہٹلر اور بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے لئے ایوب خان لازم و ملزوم ثابت ہوئے لیکن وسیع معنوں میں تو وہاں بھی یہ تصور حقیقی بنیاد نہیں رکھتا چہ جائیکہ ایک جمہوری اور اسلامی معاشرہ میں اس قسم کے خیالات کا پر چار ہو۔ بہرحال یہ باتیں کسی اچھے مستقبل کی نشاندہی نہیں کرتی۔ اگر اس قسم کے کسی بھی تصور کی کوئی حقیقت ہوتی تو آئے دن ہمیں قوموں اور ملکوں کے نیست و نابود ہونے کا تماشا دیکھنا پڑتا کہ ہر ناگزیر شخص بہرحال ایک فانی حیثیت کا مالک ہے لیکن آج تک ایسا ہوا نہیں۔ بابائے قوم حضرت قائد اعظم قیام پاکستان کے بعد صرف 13 ماہ حیات رہے لیکن کیا پاکستان خاکم بدہن ختم ہوگیا۔ اگر پاکستان کے لئے کوئی شخص ناگزیر قرار دیا جاسکتا تھا وہ قائد اعظم کی ہستی تھی لیکن ایسا ہوا نہیں پاکستان الحمدللہ ان کے بعد بھی قائم ہے اور انشاءاللہ تا قیامت قائم رہے گا اگر قائداعظم کے بغیر پاکستان آگ و خون کے طوفانوں اور دشمنوں کی گھاتوں کے باوجود ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن رہ سکتا ہے تو پھر اور کون شخص اس ملک میں ایسا ہوگا۔ جو خود کو پاکستان یا سندھ کے ناگزیر سمجھنے کی غلطی کرے گا۔

جہاں تک سیّد غوث علی شاہ کا تعلق ہے وہ تو خود کئی مرتبہ کھلے الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اسمبلی ارکان کی اکثریت نے اگر انہیں ہٹانے کا فیصلہ کرلیا تو وہ ایک لمحہ کے لئے بھی وزیر اعلٰی رہنا پسند نہیں کریں گے اور یہی جمہوریت کا تقاضا ہے لیکن اس مرض کا کیا کیا جائے کہ ہمارے سیاسی رہنما ایک طرف جمہوریت جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہیں اور دوسرے ہی سانس میں وہ ' فلاں ناگزیر ہے' اور ' فلاں ہی تما برائیوں کی جڑ ہے' کے فتوے صادر کردیتے ہیں۔ اس قسم کا انداز جمہوری اصولوں کے منافی اور جمہوریت کی گاڑی کو آمریت کے راستے پر ڈالنے کو کوشش ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔

جمہوریت کا یہ بنیادی اصول ہے کہ آج کے مقابلہ میں 51 اور ایک لاکھہ کے مقابلہ میں ایک لاکھہ ایک افراد جس شخص پر بھی اعتماد کا اظہار کردیں نمائندگی اور قیادت کا حق اسی کو حاصل ہوتا ہے پھر جمہوریت شورائی نظام کے بہت قریب ہے بلکہ تقریباً اسی کی ایک صورت ہے جس میں حکومت کا عام کاروبار باہمی مشورہ کے ساتھہ چلایا جاتا ہے۔ آج سیّد غوث علی شاہ کے ساتھہ اکثریت ہے کہ وہ وزیر اعلٰی ہیں کل یہی اکثریت ان کے خلاف ہوجائے تو وہ ایک عام رکن کی حیثیت سے اسمبلی میں بیٹھیں گے ۔ یہی صورت وزیر اعظم کے مسئلہ میں ہے۔ پھر سندھ صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں اسپیکروں کے ساتھہ یہ ہو بھی چکا ہے کہ اکثریت نے انہیں منتخب کیا اور اکثریت نے انہیں اسپیکر کے منصب سے ہٹا کر دوسرے حضرات کو چن لیا اور اب وہ حضرات جن کے ایک اشارے پر ایوان کا ہر رکن چپ ہوجاتا تھا اب انہی حضرات کو بات کرنے کے لئے موجودہ اسپیکر کے کھیل کا ایک حصہ ہیں یہ کسی کی توہین نہیں اس لئے کہ جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے لوگوں کو قربانی دینی پڑتی ہے۔ مثالیں قائم کرنی پڑتی ہیں۔

ہمارے پڑوس بھارت میں جو بڑا وسیع و عریض اور ستر اسی کروڑ کی آبادی کا ملک ہے ہے ۔ سیاست میں ایک نووارد جوان راجیو گاندھی کو وزیر اعظم مقرر کردیا گیا۔ وہ بہرحال اپنے ملک کا نظام و نسق چلارہے ہیں۔ سربراہ حکومت کے لئے رکنیت اور اکثریت کی حمایت صرف یہی دو اہلیتیں درکار ہوتی ہیں۔ تجربہ نہیں اور جمہوریت کے جہاں کئی اور بہت سے فائدے ہیں وہاں یہ بھی ایک اہم فائدہ ہے کہ اکثریت جس پر بھی ذمہ داری ڈال دے وہ اکثر و بیشتر کا میابی کے ساتھہ کاروبار حکومت چلاتا ہے۔ اور اس کی وجہ محض یہ نہیں ہوتی کہ جس شخص کو چنا گیا ہے وہ ہر حال میں صلاحیتیوں کا مالک ہی ہوتا ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص مشیروں سےمشورہ کے ساتھہ حکومت چلاتا ہے وہ کابینہ سے مشورہ کرتا ہے۔ اپنی پارٹی سے مشورہ کرتا ہے پھر پورے ایوانوں کےمشوروں سے مستفید ہوتا ہے ان حالات میں شاذ ہی کوئی شخص ناکام رہتا ہے لیکن اگر کوئی شخص آمرانہ طرز عمل اختیارکرنے لگے تو مشیروں اور پارٹی لیڈروں اور اسمبلی کے ارکان کا یہ فرض اسے من مانی کرنے سے روک دیں اس لئے کہ ایسا کرنے میں ہی کا فائدہ ہے بلکہ خود اس شخص کے ساتھہ بھی یہ بڑی حیرت کی بات ہوتی ہے جب کوئی لیڈر چاہے وہ صوبہ کا وزیر اعلٰی ہو یا ملک کا وزیر اعظم خود سر ہوجائے تو اس کا جمہوری علاج اکثریت کے فیصلہ سے اسے ہٹادیا جاتا ہے اور اس کے لئے جرأت اور حوصلہ کے ساتھہ بے لوثی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر لوگ محدود یا ذاتی مفادات ہی کو مطمع حیات سمجھنے لگیں تو پھر جمہوریت کی گاڑی مارشل لاء کی پٹری پر چلی جاتی ہے اور معاشرہ انتشار کا اور ملک عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔

ان حالات کی روشنی میں ان حضرات پر جو صاحب الرائے بھی ہیں اور جو لوگوں پر اثر بھی رکھتے ہیں یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پہلے اپنی بات کا وزن کرلیا کریں اور سوچ سمجھہ کر کوئی بات کہیں تاکہ اس کے منفی اثرات مرتب نہ ہوں پھر لوگوں کو انتہا پسندی کے بجائے اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ دوستی اور دشمنی کسی کے ساتھہ ناانصافی اور زیادتی کا سبب نہیں بننا چاہئے۔ تنقید اور تعریف میں بھی اعتدال ضروری ہے پھر اختلاف رائے کو دشمنی کی حد تک آگے نہیں بڑھانا چاہئے اور دوستی کو نا انصافیوں کی راہ میں رکاوٹ بننے سے باز نہیں آنا چاہئے۔ لیکن افسوس ہمارے معاشرہ میں اختلاف کا مقصد دشمنی اور دوستی کا مقصد ہر اچھے برے عمل میں تعاون کا نام ہے لیکن سوچنے سمجھنے والے حضرات کو بہرحال نہ صرف یہ کہ خود اس ڈگر پر آگے بڑھنے سے رک جانا چاہئے بلکہ قوم کو بھی وہ سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کریں اور ذاتی یا محدود مفادات کی خاطر قوم کے کردار کو تباہ نہ کریں۔ اسی میں ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی بھلائی ہے۔

No comments:

Post a Comment