اچھی روایت قائم کیجئے،

روزنامہ جنگ جمعۃ المبارک21 مارچ 1986ء

اخباری اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ اسمبلی کا موسم بہار کا آئندہ اجلاس کافی ہنگامہ خیز ثابت ہوگا۔ اگر صوبائی اسمبلی کے اسپیکر نے مسلم لیگ میں شامل ہونے سے انکار کردیا تو امکان ہے کہ انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی۔ مسلم لیگ کے اراکین کا مؤقف یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اسمبلی کی کاروائی سرکاری پارٹی کی منشاء کے مطابق چلانے کے لئے ضروری ہے کہ اسپیکر اکثریتی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو بالفاظ دیگر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسپیکرکو غیر جانبدار نہیں بلکہ جانبدارہونا چاہئے۔ حالانکہ اسپیکر کے منصب کی بنیادی شرط ہی غیر جانبداری ہے۔ اسپیکر کو ایوان میں "بابا" کی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس طرح بابا کے لئے ضروری ہے کہ وہ سب کے ساتھہ یکساں سلوک روا رکھے اراکین اسمبلی کا بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ جماعتی وفاداریوں سے مبرا ہوکر بابا کا پورا پورا احترام کریں اور اس پر اعتماد رکھیں۔

نوسال کے بعد وجود میں آنے والی اسمبلیوں کے اراکین سے بجا طور پر یہ توقع ہے کہ ماضی کی شرمناک روایات کے برخلاف وہ ٹھوس جمہوری روایات قائم کر کے آئندہ کیلئے روشن مثال قائم کریں گے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اب تک ایسی کوئی علامت نظر نہیں آئی اور ہم اپنی پچھلی ڈگر ہی پر آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں جو کوئی نیک فال نہیں ہے۔

اسپیکر کے سلسلہ میں برطانیہ کی روایت تو یہ رہی ہے کہ وہاں اسپیکر منتخب ہونے کے بعد وہ اپنی مدت ہر حال میں پوری کرتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔ اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی مثال شاذ ہی برطانوی تاریخ میں ملے گی۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کی طرف سے اسپیکر کا احترام ہر لحاظ سے ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ دوسری طرف جو رکن بھی اسپیکر منتخب ہوجاتا ہے وہ بھی ہر قسم کے جماعتی تعلق سے بالاتر ہوکر انتہائی غیر جانبداری اور پروقار طریقہ پر اپنے فرائض انجام دیتا ہے وہ سیاسی گروہ بندیوں سے الگ تھلگ ہوجاتا ہے۔ بلکہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں کسی مسئلہ پر مساوی دونوں کی صورت میں اسپیکر روایت کے مطابق ہمیشہ حزب اقتدار ہی کے حق میں اپنے اختیاری ووٹ کو استعمال کرتا ہے اور اسپیکر کے اس اقدام پر نہ اس کی پارٹی اس پر دباؤ ڈالتی ہے اور نہ ہی اس کے اس اقدام پر کبھی تقلید کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ایک ہم ہیں کہ یہاں کوئی بھی فرد یا ادارہ خود کو ہر پابندی سے آزاد اور مبرا رکھہ کر صرف دوسروں کو ہی پابند بنانے کی ترکیبیں سوچتا ہے اور اس سوچ کو عملی شکل دینے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ شور تو ہم مچاتے ہیں مکمل پارلیمانی جمہوریت کے لئے لیکن عمل ہوتا ہے اس کے برخلاف۔ اسپیکر کا احترام اور اس کی غیر جانبداری کو برقرار رکھنے اور اس پر اعتماد دراصل خود متعلقہ ایوان کی غیر جانبداری اور اس کے احترام کے مترادف ہے اور اس کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار خود ایوان کے فیصلوں کی توہین ہے ہماری بدقسمتی سے ہمیں ایسے پروقار اور غیر جانبدار اسپیکر مولوی تمیز الدین خان مرحوم اور عبدالوہاب خان مرحوم کے بعد نصیب نہیں ہوئے اور نہ ہی ایسے معزز ایوان بعد میں کبھی دیکھنے کو ملے۔

غیر جانبداری سے اگر حالات و واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کی صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کے بیانات سے بھی جماعتی گروہ بندی کے ثبوت ملتے ہیں۔ ان کی رہائش گاہ پر بلدیہ کے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین کے اجلاس ہوتے ہیں اور اسپیکر کے رویہ سے بلاواسطہ یا بالواسطہ یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ جماعتی وفاداریوں سے آزاد نہیں ہیں۔ اسی طرح وزیر اعلٰی اور اسپیکر کے مابین اختلافات کا منظر عام پر آنا بھی کوئی مستحسن بات نہیں ہے۔ کسی شخص کی ذاتی سوچ اور انداز فکر پر پابندی تو نہیں لگائی جاسکتی لیکن اچھی مثالیں قائم کرنے کے لئے ہر شخص کو ذاتی پسند یا نا پسند سے بالاتر ہوکر خود پر کچھہ پابندیاں لگانی پڑتی ہیں۔ اور سلسلہ میں نہ تو اراکین اسمبلی ہی کو مستشنٰی قرار دیا جاسکتا ہے نہ ہی اسپیکر کو۔ اگر کسی اسپیکر کو حزب اختلاف یا حزب اقتدار کا بھرپور کردار ادا کرنے کا شوق ہی پورا کرنا ہو تو پھر ایسے شخص کے لئے باعزت طریقہ یہ ہے کہ ازخود ایسے منصب سے مستعفیٰ ہوجائے اس لئے کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا موقع دینے کا مطلب خود اسپیکر کے منصب کی توہین اور اس طرح ایوان کی توہین کے مترادف ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کی ایک روایت یہ بھی رہی ہے کہ وہاں عام طور پر کسی معمر یا سینئر رکن کو اسپیکر کے منصب کے لئے منتخب کیا جاتا ہے اس کے برعکس ہمارے یہاں ایسے افراد کو منتخب کیا گیا ہے جنہیں اس سے قبل ایوان میں ایک دن بیٹھنے کا اعزاز بھی حاصل نہیں رہا لیکن اب جبکہ یہ چناؤ ہوچکے اور ایک سال سے ایوان کا کام چلایا جارہا ہے تو اب اراکین اسمبلی اور خود اسپیکر کو اپنے اپنے رویہ پر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھہ غور کرکے مناسب تبدیلی لاکر اچھی روایات قائم کرنے اور انہیں فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ تاریخ اچھے الفاظ میں ان افراد کا ذکر کرے۔

No comments:

Post a Comment