اخلاقی بگاڑ کا ذریعہ
روزنامہ جسارت جمعۃ المبارک 22 دسمبر 1989 ء
ناچ اور گانے کی تقریبات کا انعقاد ویسے تو بنیادی طور پر ہی پاکستان جیسی اسلامی مملکت کے تشخص اور مسلمانوں کی دینی حمیت اور قومی روایت اور غیر کے خلاف تو ہے ہی، لیکن چند باتیں بھی ہیں جن کی وجہ سے ایسے کسی شو کا اہتمام شدید قابل اعتراض بن جاتا ہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حیدرآباد کی گلیاں بے گناہوں کے خون سے لت پت ہورہی ہیں اور لاکھوں افراد کربناک دور سے گزر رہے ہیں ۔ خود کراچی بھی معصوم افراد کی جان و مال اور عزت و آبرہ کے تحفظ میں پوری طرح کامیاب نہیں ہے۔ ادھر بھارت کے کئی شہروں خاص طور پر بھاگلپور میں سینکڑوں مسلمانوں کا گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھہ دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے برصغیر کے تمام مسلمان خون کے آنسو رورہے ہیں۔ بابری مسجد کو مندر میں بدلنے کی گھناؤنی کوشش سے تو پورے عالم اسلام کا دل دکھی ہے کشمیر کے حریت پسندوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ پھر 25 دسمبر کو بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ مناتی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود بھارت کے ساتھہ تعلقات کو بہتر بنانے اور ملک میں فلاحی کاموں کے لئے رقم جمع کرنے کے نام پر بھارت کے فلمی اداکاروں، گلوکاروں اور موسیقاروں کا شو منعقد کرنے پر اصرار منتظمین کی ڈھٹائی ، بے غیرتی اوت سفاکی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ خیال کہ ثقافتی طائفوں کی آمدورفت اور ان کے شو دو ملکوں کے عوام کے مابین قریبی تعلقات قائم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں یا ثقافتی معاہدے دو ملکوں کی دوستی کو فروغ دینے میں کوئی مدد کرسکتے ہیں۔ سطحی سوچ کی علامت ہے۔
موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی ملک میں وسیع پیمانے پر فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دینے کے سلسلہ میں بڑی مستعدی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اخلاقی بگاڑ کے ذریعے کے طور پر مسلمانوں کے محاصل سے چلنے والے ٹیلی ویژن کو پہلے دن سے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ہماری روایت اور ثقافت کا مذاق اڑانے والے گھٹیا فقرہ بازی اور قابل اعتراض لباس میں خواتین اور پھر مجروں کے پروگراموں کی بھرمار اس کے نمایاں کرتوت ہیں۔ وہ غالباً یہ جانتی ہے کہ اس طرح نوجوانوں کو دین سے دور کرکے ہوا و ہوس کا گرویدہ بنادیا جائے۔
لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 1977ء میں موجودہ اقتدار جماعت کی بانی قیادت نے جس طرح قوم کو سمجھنے میں غلطی کی تھی موجودہ قیادت بھی اسی فاش غلطی کا اعادہ کررہی ہے ، پاکستانی قوم نہ تو بے غیرت ہے اور نہ لہو و لعب کی ایسی رسیا کہ وہ فحاشی اور بے حیائی کی اس رو میں بہہ جائے۔ وہ مہلت تو ضرور دیتی ہے لیکن اسلام مخالفین کو زیادہ عرصہ تک برداشت نہیں کرتی۔ قوم آج بھی بیدار اور چوکس ہے اور اس کا ثبوت ٹیلی ویژن کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر دیا جاچکا ہے کہ کہ حاضرین نے جسم کی نمائش کرنے والی کسی مغنیہ یا " فن کارہ" کے مقابلے میں گذشتہ سال تک ٹی وی پر خبریں پڑھنے والے اظہر لودھی کا اسٹیج پر آنے پر زبردست استقبال کیا۔ بظاہر یہ بات کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو لیکن اس بات سے حکومت کی آنکھیں کھل جاتی چاہئیں کہ قوم کے نوجوان بھی طاؤس و رباب کے بجائے نظریات اور روایت ہی کو عزیز رکھتے ہیں۔
جہاں تک بھارت کے ساتھہ دوستی اور اچھے تعلقات کا سوال ہے تو پاکستانی قوم شروع دن سے ہی اپنے پڑوسی ملک کے ساتھہ اچھے اور پرامن ہمسایوں کی طرح رہے کی خواہشمند رہی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے اس نے کئی باتوں کو فراموش کرنے تک کی کوشش کی ہے۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ 1977ء میں قائم ہونے والی شری مرارجی ڈیسائی سربراہی میں قائم پہلی غیر کانگریسی حکومت کے دو سالہ دور اقتدار کے سوا کبھی دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر نہیں رہے اور اس کا بنیادی سبب بھارت کی توسیع پسندی ہٹ دھرمی اور علاقہ کا چوہدری بننے کی خواہش ہے۔ جب تک یہ اسباب ختم نہیں ہوتے اس وقت تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے چاہے اس مقصد کے لئے کسی کی بھی قیادت میں کتنے ہی ثقافتی طائفوں کے تبادلے اور کتنے ہی شو کر لئے جائیں۔ اس لئے یہ بات خود پی پی کے مفاد میں بھی ہے کہ وہ عوام کے احساسات اور جذبات کے خلاف ٹھوس کاموں کی طرف توجہ دے۔ اس لئے کہ ثقافتی طائفے کسی حکومت کی کمزوریوں اور خامیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتے اور عوام کو ناچ اور گانے نہیں جان و مال، عزت و آبرو اور روزگار کی ضمانت چاہئے اور آج تمام ہی پاکستانی ان بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
No comments:
Post a Comment