طریقہ انتخاب ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ یا متناسب

روزنامہ جنگ جمعرات 25 فروری 1993ء

1947ء میں ہماری قوم عزم و اتحاد ' بے لوثی' معاملہ فہمی اور جاں نثاری کا پیکر تھی اور آزادی کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی' خوشحالی اور سالمیت اس کے ہدف تھے لیکن چند سال کے اندر ہی معلوم نہیں ہمیں کیا ہوگیا کہ راستے سے بھٹک گئے اور ہر شعبۂ زندگی میں نفاق' مفاد پرستی' اقرباء پروری' بدعنوانی' بددیانتی' لسانی و علاقی عصبیت اور سہل انگاری جیسی لعنتوں کو ہم نے اپنا شعار بنالیا۔ ہم ملک کی بروقت آئین دے سکے نہ آئین کی حفاظت ہی کرسکے حتٰی کہ خود ملک کی یکجہتی تک کو ہم قائم نہ رکھہ سکے نظام حکومت اور طریقۂ انتخاب پر اتفاق رائے تو دور کی بات ہے ہمارے انتشار فکری کی اس سے بری اور کیا مثال ہوگی کی قومی شناختی کارڈ کے خانوں ہی پر قوم یک رائے نہیں ہوسکی ہے۔ صدر مملکت کی طرف سے اظہار خیال کے بعد پھر اس ضرورت کا احساس ہوا ہے کہ نمائندگی کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جو ہماری ضروریات اور روایت کے مطابق بھی ہو اور اس میں نقائص بھی کم سے کم ہوں۔

طریقۂ انتخاب کے ضمن میں دنیا کے جمہوری ملکوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھہ ردو بدل کے ساتھہ نمائندگی کے دو طریقے رائج ہیں ایک تو وہ جو ہم نے اختیار کیا ہوا ہے اور دوسرا جو یورپ کے اکثر ملکوں نے اپنایا ہوا ہے ہمارا موجودہ طریقہ ہمیں برطانیہ سے ورثہ میں ملا ہے اور یہ دولت مشترکہ کے بیشتر ملکوں میں رائج ہے۔ کثرت رائے کا اصول تو دونوں طریقوں میں مشترک ہے لیکن ہمارے یہاں اضافی اکثریت کی بنیاد پر امیدوار کامیاب قرار پاتا ہے جبکہ دوسرے طریقہ میں کامیابی کا انحصار متناسب اکثریت پر ہوتا ہے ہمارے یہاں ایک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حلقۂ انتخاب سے فرد امیدوار ہوتا ہے اور متناسب میں جماعت امیدوار ہوتی ہے اور اس میں حلقۂ انتخاب کثیر رکنیت کے اصول پر مقرر ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں مروجہ طریقۂ انتخاب کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں اکثریت کے بجائے اقلیت کے ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار بالعموم کا میاب قرار پاتا ہے یعنی متعلقہ حلقہ میں ناکام امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی مجموعی تعداد کامیاب امیدوار کے ووٹوں سے زیادہ ہوتی ہے اور اس طرح حلقہ کی اکثریت نمائندگی کے حق سے عملاً محروم رہ جاتی ہے یہ اس طریقہ کی کرشمہ سازی ہے کہ 1990ء کے عام انتخابات میں آئی جے آئی اور پی ڈی اے کے درمیان ووٹوں کا فرق تو صرف تین لاکھہ کے قریب تھا لیکن آئی جے آئی کے ایک سو سے زائد اور پی ڈی اے کے صرف 45 امیدوار ہی کامیاب ہوئے۔ اگر ہمارے یہاں مروجہ طریقۂ انتخاب کو خامیوں اور نقائص سے پاک کرنے میں مخلص ہیں تو یہ کام بہت آسان ہے لیکن اس کیلئے پہلی شرط تو یہ ہے کہ امیدوار کی اہلیت کا جو معیار آئین میں مقرر ہے اس پر سختی کے ساتھہ عمل کیا جائے تاکہ بلا روک ٹوک ہر شخص انتخابی دوڑ میں شریک نہ ہوسکے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ امیدوار کے کم سے کم ووٹ حاصل کرنے کی حد تقریباً 20 فیصد مقرر کی جائے اور جو امیدوار ووٹوں کی مطلوبہ تعداد حاصل نہ کرسکے اس کی صرف ضمانت ہی ضبط نہ کی جائے بلکہ اس پر یہ پابندی بھی عائد کی جائے کہ وہ آئندہ کم از کم چھہ سال تک کسی بھی انتخاب میں حصہ نہ لے سکے اگر کسی حلقۂ انتخاب میں کوئی امیدوار قطعی اکثریت یعنی ڈالے گئے ووٹوں میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کر پائے تو اس حلقہ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان پھر انتخاب کروایا جائے اور جو بھی زیادہ ووٹ حاصل کرے اسے کامیاب قرار دیا جائے۔

یک رکنی حلقہ ہائے انتخاب کا طریقہ ان ملکوں میں زیادہ کامیاب رہتا ہے جہاں دو جماعتی نظام مروج ہو ہمارے یہاں تو جماعتوں کی بھرمار ہے اس لئے اگر ہم کثیر رکنی حلقہ ہائے انتخاب کو اختیار کر لیتے ہیں تو اس کے اور بھی فائدے ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا لیکن یہ طریقہ بالعموم متناسب طریقۂ انتخاب کا حصہ ہے جہاں تک جماعتی وفاداریاں بدلنے کا تعلق ہے تو اس کا تدارک بھی صرف قواعد و ضوابط پر سختی کیساتھہ عمل کرنے ہی سے ممکن ہے البتہ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ عام انتخابات میں بھاری اخراجات سے کس طرح بچا جائے تاکہ غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والا اہل امیدوار بھی ان میں حصہ لے سکے۔

متناسب نمائندگی کے طریقۂ انتخاب کو اگر ہم اختیار کرتے ہیں تو اس کا فوری فائدہ یہ ہوگا کہ جماعتی وفاداریاں کی خرید و فروخت کی لعنت سے ہمیں چھٹکارا مل جائے گا۔ علاوہ ازیں اس طریقۂ انتخاب میں انتخابی حلقے یک رکنی یعنی محدود نہیں بلکہ کثیر رکنی یعنی بہت وسیع ہوتے ہیں اس لئے ہر قسم کی عصبیتوں سے ہمیں نجات مل سکتی ہے اس لئے کہ ایسی صورت میں جماعت یا امیدوار کو مختلف طبقوں اور علاقوں کی ترقی اور خدمت کی بات کرنی ہوگی اسے اپنی سوچ کو وسعت دیکر ہر شخص تک محبت اور الفت کا پیغام پہنچانا ہوگا کسی علاقائی یا لسانی طبقہ یا کسی برادری کے خلاف بات کرنے سے اجتناب برتا جائیگا مختلف علاقوں کا دورہ کرنا پڑے گا یہی باتیں عصبیت کے دیواتاؤں کی موت ثابت ہوں گی جس کی آج بالخصوص سندھ کو شدید اور فوری ضرورت بھی ہے کثیر رکنی حلقے ہونے کی بناء پر دھونس اور دھاندلی کے امکانات بھی بڑی حد تک کم ہوجائیں گے اور آہستہ آہستہ ہمارا انتخابی نظام ہر قسم کی بدعنوانیوں سے پاک ہوجائے گا البتہ اس نظام کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ صوبوں کی تشکیل نو اس طرح کی جائے کہ یہ تعداد تقریباً 20 ہوجائے۔

متناسب طریقۂ انتخاب کے سلسلہ میں خرابیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ان میں (1) پارٹی لیڈر کا مختار کل بن جانا۔ (2) چھوٹی بڑی عصبیتوں کا فروغ اور (3) غیر مستحکم اور مخلوط حکومتوں کا قیام، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

پارٹی لیڈر کے اختیارات

کہا جاتا ہے کہ متناسب نمائندگی کے طریقہ میں پارٹی لیڈر کو بے پناہ اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں اور وہ کسی بھی شخص کو نمائندہ مقرر کرسکتا ہے اس بناء پر نشستوں کا نیلام عام بھی کیا جاسکتا ہے وغیر ہم۔ لیکن ہمارے لئے یہ تو ضروری نہیں کہ کسی نظام کو اسکی خامیوں اور خرابیوں کے ساتھہ جوں کا توں اختیار کریں ہم یہ پابندی بھی لگا سکتے ہیں کہ انتخاب میں حصہ لینے والی جو جماعت انتخاب سے پہلے اپنے امیدواروں کی ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن کو پیش کرے تاکہ آئین کے تقاضوں کے مطابق ہر امیدوار کے بارے میں چھان بین بھی کی جاسکے اس شرط کا یہ فائدہ ہوگا کہ رائے دہندگان کے سامنے جماعت کے ساتھہ اس کے امیدوار بھی ہونگے تاکہ امیدوار کی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھہ کر وہ کسی پارٹی کو ووٹ دے سکیں۔ انتخاب کے بعد کسی جماعت کی کوئی نشست خالی ہوتو اسی فہرست سے نمائندہ لے لیا جائے گا اس طرح نہ تو نشستوں کی تجارت ممکن ہوگی نہ غیر مستحق افراد ایوان میں پہنچ پائیں گے۔

عصبیتوں کا فروغ

اس خدشہ کا اظہار بھی کیا جاتا ہے کہ حلقہ انتخاب وسیع اور کثیر رکنی ہوگا اس لئے چھوٹی چھوٹی برادریاں اور چھوٹے چھوٹے طبقے بھی ایک دو اراکین کو ایوان میں بھیجنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ قوم مزید انتشار کا شکار ہوجائے گی اور اس طرح مختلف قسم کی عصبیتں فروغ پا کر قومی اتحاد اور سوچ کو پارہ پارہ کردیں گی لیکن اس کا توڑ یہ ہے کہ کم از کم چھہ سال تک کسی بھی انتخاب میں حصہ نہ لینے کی پابندی عائد کردی جائے اس طرح آہستہ آہستہ ملک سے علاقائی اور چھوٹی پارٹیوں سے بھی نجات مل جائے گی۔

غیر مستحکم حکومتیں

قطعی اکثریت رکھنے والی جماعت کی حکومت قابل ترجیح ضرور ہے لیکن ضروری نہیں کہ ایسی حکومت مستحکم بھی ہو اور اس کا مظاہرہ سندھ اور پھر مشرقی پاکستان اسمبلی میں بار بار ہوتا رہا تھا جنرل ڈیگال سے پہلے فرانس بھی غیر مستحکم حکومتوں کیلئے مشہور تھا مخلوط حکومتیں بھی مستحکم حکومتیں ثابت ہوتی ہیں۔ آج بھارت میں اقلیتی حکومت قائم ہے غیر مستحکم حکومتیں وہاں ہوتی ہیں جہاں رائے عامہ غیر منظم ہو اور عوامی نمائندے نظم و ضبط اور جماعتی وفاداریاں کے بجائے مفاد کے بندے بن جاتے ہوں یا جہاں تحریص و تخویف کو بھی حکمرانی کے اصولوں کی حیثیت حاصل ہو جن ملکوں میں اصول اور اخلاق کو مقدم سمجھا جاتا ہے وہاں تو صرف ایک رکن کی اکثریت کے ساتھہ برسوں حکومت چلائی جاسکتی ہے لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں مخلوط حکومتوں کا غیر مستحکم ہونا یقینی امر ہے اور اس کا تدارک چند قانونی پابندیوں کے ذریعہ ہی ممکن ہے پہلی تو یہ کہ انتخاب میں حصہ لینے والی ہر جماعت کیلئے لازمی ہو کہ وہ اپنا منشور جاری اور اسکی نقل الیکشن کمیشن کو فراہم کرے دوسری یہ کہ حکومت سازی کی دعوت ایوان میں اکثریت رکھنے والی جماعت ہی کو دی جائے۔ اگر وہ جماعت حکومت کی تشکیل میں ناکام رہے تو دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت سے اس سلسلہ میں رجوع کیا جائے اگر کسی وقت کوئی بھی جماعت حکومت بنانے میں ناکام رہے تو ایسی صورت می انتخابی عمل کو دہرایا جائے لیکن اس مرتبہ صرف پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی تین جماعتوں ہی کو اس میں حصہ لینے کا حق حاصل ہو مخلوط حکومت میں شامل ہونے والی جماعتوں کیلئے یہ بھی ضروری ہو کہ وہ ایک مشروط منشور پر متفق ہوں اور اس سلسلہ میں باقاعدہ معاہدہ کیا جائے جسے الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کروایا جائے معاہدہ کی خلاف ورزی یا حکومت کے کام میں رکاوٹ ڈالنے والی جماعت کے خلاف کاروائی میں ایسی جماعت کو چھہ سال کیلئے کسی انتخاب میں حصہ لینے سے روکنے کی گنجائش بھی رکھی جانی چاہئے انتخابات کے بعد ایوان کے اکثریتی اراکین کی حمایت یافتہ حکومت جب قائم ہوجائے تو یہ پابندی بھی ہو کہ کم از کم ایک سال تک اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کی جاسکے پہلی بار پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کے بعد یہ پابندی دو سال کیلئے ہو۔

آئین میں ایک فرد' ایک ووٹ کی ضمانت ضرور دے گئی ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہے اس لئے کہ ملک بلکہ ایک صوبہ کے اندر بھی کچھہ حلقہ ہائے انتخاب تو ایسے ہیں جن میں رائے دہندگان کی تعداد بمشکل ایک لاکھہ ہے لیکن چند حلقے ایسے بھی ہیں جو کئی لاکھہ رانئے دہندگان پر مشتمل ہیں اور اس طرح انصاف، مساوات اور آئین کے تقاضوں کی نفی ہوتی ہے۔ متناسب طریق انتخاب کے ذریعہ بڑی حد تک اس کا تدارک ممکن ہے۔

آزاد، خودمختار اور مہذب معاشرہ میں فرد یا جماعت پر قانونی پابندیوں کو پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا لیکن سطور بالا میں چند پابندیوں کی جو تجاویز پیش کی گئی ہیں ان کے پیچھے یہ اصول کار فرما ہے کہ صحت یابی کیلئے مریض کو کڑوی گولیاں بھی پابندی کے ساتھہ کھانا پڑتی ہیں اسی طرح زوال پذیر معاشرہ کو سہارا دینے اور جسد سیاست کو لاحق خطرناک امراض سے نجات دلا کر اسے صحت مند اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم خود پر چند برسوں کیلئے پابندیاں عائد کرلیں ہماری ترقی ، خوشحالی اور عظمت کا راز اور ہماری نسلوں کے شاندار مستقبل کی ضمانت اس میں مضمر ہے۔ بہرحال قوم کے دانشور حضرات پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کیلئے جامع، قابل عمل اور ہر قسم کی خامیوں سے پاک نظام حکومت اور طریقۂ انتخاب وضع کریں۔

No comments:

Post a Comment