"تاریخ کا قرض" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔چند وضاحتیں
روزنامہ جنگ پیر 9 جولائی 2001ء
محترم نذیر ناجی صاحب کے قلم سے "جنگ" کراچی میں "تاریخ کا قرض" کے زیر عنوان جو کچھہ لکھا گیا ہے اسے پڑھ کر ایک عام اور سچے پاکستانی کے ذہن کا مکدر ہونا بھی لازمی ہے۔ اہل قلم کی یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ذاتی جذبات و خواہشات اور اپنی پسند ناپسند سے مغلوب ہوکر بلا تحقیق ایسی باتیں لکھنے سے باز رہیں جس سے قوم کے اپنے اسلاف سے متنفر یا اپنے ماضی اور حال پر شرمسار اور اپنے مستقبل سے مایوسی کا شکار ہو جانے کا امکان ہے ۔ اسی طرح قلم کاروں اور دانشوروں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ تاریخ کے قرض یاد دلانے یا انہیں اتارنے کے لئے قوم کو تیار کرنے کے شوق میں محض سنی سنائی اور غیر ثقہ باتوں کو تاریخ کا حصہ بنا کر پیش کرنے کے الزام سے خود کو بچائیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ جس طرح ہمارا معاہدہ مکھی کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے بالکل اسی طرح تاریخ بھی مکمل جھوٹ کو قبول نہیں کرتی۔ آج کی نسل سے تعلق رکھنے والا جو بھی فرد مذکورہ بالا کالم پڑھے گا اس کے ذہن میں ضرور یہ خیال پیدا ہوگا کہ اس کے اسلاف سازشی، ناشکرے اور نااہل ہی نہیں بلکہ اپنے بابا کے قتل جیسے گھناؤنے جرم میں بھی برابر کے شریک تھے ، اس لئے انہوں نے اس سانحہ پر صدائے احتجاج تک بلند نہیں کی۔ کالم نگار کا یہ مقصد نہیں ہوگا لیکن اس باوصف قوم کی اس محبت اور خلوص کی توہین ہے جو وہ قائد اعظم کے لئے رکھتی ہے۔ بابائے قوم کو ماردیا جائے اور عوام خاموش رہیں، احتجاج نہ کریں، سڑکوں پر نہ آئیں یہ تو بڑی بے حسی کی بات ہے لیکن ثقاہت کے معیار سے کم تر باتیں پھیلا کر کےقوم میں بے چینی پھیلانے کے بارے میں بھی چھان بین ہونی چاہئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بابائے قوم کی موت ہر لحاظ سے فطری تھی، وہ ناگہانی ہر گز نہیں تھی۔ یہ بات کل بھی کوئی راز نہیں تھی اور آج بھی سب جانتے ہیں کہ کوئٹہ میں قائد اعظم کو اگر کوئی ذہنی صدمات تھے تو ان میں کشمیر سرفہرست تھا۔ بڑی تعداد میں تباہ حال مہاجرین کی آمد اور بھارت میں مسلم کش فسادات بھی بابائے قوم کے لئے مسلسل اذیت کا بڑا سبب تھے۔ یکم جولائی 1948ء کو اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے بعد قائد اعظم نے کسی سرکاری تقریب میں شرکت نہیں کی، اس لئے کہ ان کی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس سے پہلے بعض دانشور قائد اعظم کی موت کو قائد ملت لیاقت علی خان کے سرتھوپنے جیسی بددیانتی کا ارتکاب کرچکے ہیں اور اس جھوٹ کو پھیلانے کی کوشش کی جاچکی ہے کہ بابائے قوم کو زہر دیا گیا تھا۔ قائد اعظم اور قائد ملت کے درمیان اختلافات کی اختراع بابائے قوم کے آخری معالجین میں سے کسی کا کارنامہ ہوسکتا ہے۔
بابائے قوم کی "ناگہانی موت" کی کہانی کا پس منظر کچھہ بھی کیوں نہ ہو اسے بلاتحقیق آگے بڑھانا قرآنی تعلیمات کے خلاف تو ہے ہی اس وقت کے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان کے ساتھہ ساتھہ پوتی قوم کو الزام دینے کے مترادف ہے، اگر لیاقت علی خان کو براہ راست ملوث نہ بھی کیا جائے تو تب بھی بحیثیت وزیر اعظم ان کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اس موت کی تحقیق کرواکر مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچاتے۔ چوہدری محمد علی کا شمار ملک کے دیانتدار افراد میں ہوتا ہے ، خود قائد اعظم کی ہدایت پر انہیں ملک کا سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا تھا اور بحیثیت گورنر جنرل قائد اعظم کی تقریری کا سرکاری اعلامیہ بھی انہی کے دستخطوں سے جاری ہوا تھا۔ مولانا ابولکلام آزاد نے لکھا ہے کہ چوہدری محمد علی نے پاکستان کے قیام کو یقینی بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ بہرحال یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ راقم الحروف کو چوہدری صاحب سے نیاز مندی حاصل رہی ہے۔ بارہا ان سے ملاقات اور مختلف معاملات پر گفتگو کا بھی موقع ملا۔ ایک نشست میں مرحوم سے قائد اعظم اور قائد ملت کے مابین مبینہ اختلافات اور نقص ایمبولینس کی فراہمی جیسے معاملات پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ قائد اعظم بڑے فرد شناس تھے۔ لیاقت علی خان 1937ء سے قائد اعظم کے ساتھی تھے اور خود بابائے قوم نے انہیں اپنا دست راست اور بااعتماد ساتھہ قرار دیا تھا۔ قائد اعظم عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتے تھے کہ اگر انہیں معمولی سا شبہ بھی ہوجاتا کہ قائد اعظم کے ساتھہ کسی نےکوئی گستاخی کی ہے تو وہ اس کا کچومر نکال دیتے ، چاہے وہ کوئی بھی ہوتا۔ ایمبولینس کے سلسلے میں چوہدری صاحب کا کہنا تھا کہ قائد اعظم وضع داری میں یکتا تھے، وہ یہ برداشت کرنے کے لئے ہر گز تیار نہ تھے کہ سرکاری یا غیر سرکاری کوئی بھی شخص انہیں اسٹریچر پر بے بس دیکھے ، اس لئے انہی کی ہدایت پر کوئٹہ سے ان کی کراچی آمد کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ ان کے ذاتی عملے نے کراچی فون کرکے اپنے طور پر ایمبولینس کا انتظام کیا اور وہ بھی ایک عام مریض کے لئے اگر قائد اعظم سرکاری طور پر کوئٹہ سے سفر کرتے تو مجال نہیں تھی کہ قائد ملت اور ان کی کابینہ کے اراکین ان کے استقبال کے لئے نہیں پہنچتے اور بہترین ایمبولینس کاروں کے قافلے میں لانے کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ دریں حالات جو ایمبولینس بھیجی گئی وہ راستے میں ایک مہاجر بستی کے قریب خراب ہوگئی جو اتفاقیہ واقعہ تھا اور وہاں موجود لوگ بھی یہی سمجھہ رہے تھے کہ ایمبولینس میں کوئی عام مریض ہے اگر لوگوں کے کان میں یہ بھنک بھی پڑ جاتی کہ وہ مریض بابائے قوم ہے تو لاگ یقیناً اس ایمبولینس کو اپنے سروں پر اٹھا کر گورنر جنرل ہاؤس پہنچادیتے۔ چوہدری محمد علی نے یہ بھی بتایا کہ قائد اعظم کے معالج یا سیکریٹری نے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے بھی کسی ڈاکٹر یا سرکاری اہلکار کو پہلے سے اعتماد میں نہیں لیا۔ ہمارے معزز کالم نگار اور دوسرے حضرات یہ کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ قائد اعظم آزادی سے پہلے ہی ٹی بی کے موذی مرض میں مبتلا تھے لیکن ان کے غیر مسلم معالج نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا پورا پورا پاس رکھتے ہوئے اس بیماری کو راز ہی رکھا یہاں تک کہ محترمہ فاطمہ جناح تک کو اس کی خبر نہیں تھی اور اس کا ثبوت ماؤنٹ بیٹن کا (خباثت سے بھرپور) یہ بیان ہے کہ اگر مجھے محمد علی جناح کی بیماری کے بارے میں علم ہوجاتا تو آزادی کو موخر کردیتا تاکہ بھارت تقسیم ہونے سے بچالیا جاتا۔ بہرحال قائد ملت اور بابائے قوم کے اختلافات کے اس افسانے کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنے عظیم بھائی کی رحلت کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، لیاقت علی خان وغیرہ سے زیادہ خوش نہیں تھیں۔ چوہدری محمد علی نے اس کا سبب یہ بتایا کہ قائد اعظم کی حیات میں محترمہ فاطمہ جناح کو سرکاری سطح پر جو اہمیت حاصل تھی وہ ان کی رحلت کے بعد کم ہوگئی اور بیگم لیاقت علی خان کو خاتون اوّل کا درجہ حاصل ہوگا۔ گو حکومت نے محترمہ فاطمہ جناح کے مقام اور وقار کو ملحوظ رکھنے کی پوری کوشش کی اور وزیر اعظم تک ان ان سے مشورہ کی غرض سے ملا کرتے تھے اس کے باوجود وہ بدلے ہوئے حالات سے جلد سمجھوتہ نہیں کر پائیں اور ان کا یہ ردعمل فطری تھا۔
جہاں تک قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کا تعلق ہے تو ہم جانتے ہیں کہ اس سانحہ کی تحقیقات کے لئے ایک سے زیادہ کمیشن مقرر کئے گئے بلکہ کئی کی تحقیقاتی رپورٹیں بھی آئیں لیکن قوم اور حکومت اس سے مطمئن نہیں تھی کیونکہ اس میں ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جاسکا تھا پھر ایک تحقیقاتی رپورٹ تیار کرنے والے ذمہ دار افراد رپورٹ کے ساتھہ ہی ایک ہوائی حادثہ کا شکار ہوگئے۔ اس سلسلے میں چوہدری محمد علی سے میں نے دریافت کیا تھا کہ آپ ان کے بہت قریب تھے ان کی اس طرح شہادت سے قوم میں بڑی مایوسی ہے کہ اس کے محرکات کا پتہ نہیں لگایا گیا تو انہوں نے بتایا کہ 1955ء میں وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد میں نے پہلا حکم قائد ملت کی شہادت کی از سر نو تحقیقات ہر کا دیا تھا لیکن وہ بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی اور اس سلسلے میں میرے دل میں ایک خلش رہی لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ اگر امریکہ کے صدر کینیڈی کی موت کے اصل محرکات اور اس قتل کے پیچھے افراد کے بارے میں کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچا جاسکا ہے تو ہم پاکستان میں بھی اگر قائد ملت کی شہادت کا کھوج لگانے میں ناکام ہیں تو شاید یہ ارادتاً نہیں ہوا۔
بیروت کے ایک ہوٹل میں حسین شہید سہروردی کے " پراسرار انداز میں قتل" کی حقیقت یہ ہے کہ ان پر دل کا جان لیوا دورہ پڑا تھا اور بستر مرض سے انہوں نے اپنے کسی دوست کو فون کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن دورہ اتنا شدید تھا کہ انہیں اس کا موقع نہیں ملا۔ پھر اگر یہ قتل ہی تھا تو لبنان کی حکومت کے ذریعہ تحقیقات کروائی جانی چاہئے تھی لیکن ان کے اہل خانہ سمیت کسی کو بھی اس کا شبہ نہیں ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ حکومت یا ان کی صاحبزادی یا ان کے مداحوں میں سے کوئی اس کا مطالبہ کرتا اور وہ پورا نہیں ہوتا۔ لبنان کی حکومت سے بھی اس کا مطالبہ کیاجاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ محترم کالم نگار نے لکھا ہے کہ حسین شہید سہروردی کے انتقال کے بعد " پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصوں کو مربوط رکھنے والی کوئی سیاسی کڑی باقی نہی رہی نتیجہ یہ ہوا کہ 1970ء میں پاکستان دولخت ہوگیا۔" اس کا مطلب یہ ہوا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کا ایک ساتھہ رہنا کسی فرد واحد کی ذات سے مشروط تھا۔ اگر ایسا ہی تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سہروردی کو "قتل" نہ کیا جاتا اور جب وہ طبعی موت سے ہمکنار ہوتے تو تب بھی تو ملک کو دولخت ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا تھا۔ بہرحال ایسی سوچ تحریک پاکستان کی تاریخ سے بے خبری کا نتیجہ ہے اگر ملک کے دونوں بازوؤں کا اتحاد سہروردی ہی سے مشروط تھا تو پھر پاکستان کا قیام تو منطقی طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت سے مشروط نہ ہونا چاہئے تھا اور ان کی "ناگہانی موت" کے بعد پاکستان کے وجود کا جواز بھی ختم ہوجاتا آج تو کسی کو ان لوگوں میں شامل نہیں کیا جاسکتا جن سے قائد اعظم نے قوم کو ہوشیار رہنے کی تلقین کی تھی (یعنی غیر ملکی ایجنٹوں) جو قوم میں انتشار، بے چینی اور مایوسی پھیلاتے ہیں لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ان میں سے کسی سے کسی کا جذباتی لگاؤ ہے اس لئے ذمہ داروں کے نام لینے سے احتراز کیا جارہا ہے ورنہ پوری قوم کو معلوم ہے کہ اس میں کس کس کا کتنا حصہ ہے۔
جہاں تک بھٹو صاحب کا معاملے کا تعلق ہے تو پاکستان کی عدالت میں ان کا طویل مقدمہ چلا۔ استغاثہ اور مستغیث کی طرف سے وکیل دفاع کے لئے موجود تھے دونوں طرف سے بیانات ہوئے اور گواہیاں پیش کی گئیں۔ عدالت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا اس سلسلے میں راقم الحروف کی چند معروف ماہرین قانون سے گفتگو کے دوراں بھی معلوم ہوا کہ عدالتی بنچ کا اکثریتی فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہوتا ہے یہاں تک کہ اس فیصلہ سے اختلاف کرنے والے جج صاحبان کی طرف سے بھی اس کی مخالفت توہین عدلات کے زمرہ میں آتی ہے۔ پھر جو فیصلہ سامنے آیا اور اس پر نظرثانی کی درخواست دی گئی جو مسترد کردی گئی اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھٹو محروم کو پھانسی قانون پر تحت دی گئی تھی اس لئے اسے "بے رحمانہ قتل" قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ہاں اگر جیل میں بے تشدد ہوا ہے تو اس کے ذمہ داروں کی باز پرس ضرور ہونی چاہئے اور ایسے لوگوں کو سخت سزا بھی ملنی چاہئے تھی لیکن اس کا بھی بہترین وقت ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی کے پہلے اور دوسرے دور اقتدار میں تھا اب نہیں اور اگر خود بھٹو مرحوم کی صاحبزادی نے اس معاملہ کی ازسرنو تحقیقات کی ضرورت نہیں سمجھی تو اس کے آگے کچھہ کہنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment