تاریخی اور نفسیاتی تجزیہ، مس بے نظیر بھٹو کا اگلا قدم

روزنامہ جنگ 01 جولائی 1986

منظم اور صحیح معنوں میں جمہوری سیاسی جماعتوں کی قیادت پارٹی کے پرانے، تجربہ کار اور محنتی افراد کے حوالہ کی جاتی ہے ایسی جماعتوں میں خاندانی یا قیادت میں وراثت کا کوئی تصور نہیں ہوتا آمرانہ نظام میں البتہ پارٹی کی قیادت ایک ہی خاندان یا چند افراد کے گرد گھومتی رہتی ہے چند برسوں سے تیسری دنیا میں جماعتوں کی قیادت میں خاندانی وراثت کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور یہ بات نئی قسم کی آمریت کا پیش خیمہ ہے ۔ سری لنکا، بھارت ، بنگلہ دیش، فلپائن اور پاکستان میں کئی برسراقتدار یا قابل ذکر سیاسی پارٹیوں کی قیادت عام ترکہ کی طرح خاندانی وارثوں کو منتقل ہونے لگی ہے اور اس طرح ناتجربہ کار اور غیر سیاسی ذہن رکھنے والی بیواؤں، بیٹیوں، یا بیٹوں کو بھی اب قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالنی پڑ رہی ہیں۔ ہمارے یہاں پیپلز پارٹی کے ساتھہ بھی یہی ہوا ہے یہ ملک میں جمہوریت اور عوامی فلاح و بہبود کی سب سے بڑی دعویدار ہے لیکن عملاً اسے ایک پرائیویٹ لمیٹڈ پارٹی بنا کر رکھہ دیا گیا ہے۔ بیس سال ہونے کو آئے اس جماعت کے قیام سے اب تک کبھی بھی پارٹی انتخابات کا تکلف نہیں کیا گیا بلکہ نامزدگی کے ذریعہ ہی تمام کاروبار چلایا جارہا ہے اور کسی کی مجال نہیں کی کوئی پارٹی کی قیادت کو چیلنج کرسکے اگر کسی نے بھول میں بھی ایسا کردیا تو اسے اس گستاخی کی ایسی سزا دی گئی کہ کئی حضرات تو خود سیاست ہی سے تائب ہوگئے ماضی کی طرح آج بھی یہی ہورہا ہے سیاسی جماعت چھوٹی ہو یا بڑی ملک کے مستقبل کا تعلق کسی نہ کسی صورت میں اس سے ضرور ہوتا ہے اس لئے کوئی جماعت یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ انتخابات کروانا یا نہ کروانا اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ بہرحال صورتحال جو بھی ہو مس بینظیر بھٹو آج کی پیپلز پارٹی کی قائد ہیں جنہیں اپنے والد مرحوم کی طرح پارٹی میں عملاً تمام اختیارات حاصل ہیں بالفاظ دیگر مس بھٹو ہی پیپلز پارٹی کا دوسرا نام ہیں اور اسی نسبت سے اس پارٹی کے مستقبل کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔

پچھلے دنوں مس بینظیر بھٹو کے ملک گیر دورے کا پہلا راؤنڈ اختتام کو پہنچا جو بڑا ہی پر امن رہا۔ حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو اس کا سہرا پیپلز پارٹی کے سر نہیں بلکہ حکومت اور ان لوگوں کے سر ہے جنہوں نے مخصوص نعرے لگانے اور فحش گالیاں سننے پر مجبور کئے جانے کے باوجود بھی صبر و تحمل کا دامن ہاتھہ سے نہیں چھوڑا اور نہ پارٹی کی قائد نے تو لاہور آمد کے دوسرے ہی دن اعلان کردیا تھا کہ وہ چاہتیں تو گورنر ہاؤس اور اسمبلی ہاؤس پر قبضہ کرلیتیں اور وزیروں کے گھروں کو آگ لگوا دیتیں یہ اعلان دراصل موصوفہ کے آئندہ پروگراموں کا ایک حصہ ہے جس کا اظہار جوش خطابت کی بناء پر قبل از وقت ہوگیا صورتحال جو کچھہ بھی ہو مس بھٹو اپنے دورہ کے آغاز ہی سے واضح الفاظ میں یہ اعلان کررہی ہیں کہ ان کی تحریک پرُ امن رہے گی فی الحقیقت ایسا ہونا ہے تو یہ ہماری بڑی خوش قسمتی ہوگی اسلئے کہ ملک اب مزید کسی اندرونی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کا جب تاریخی اور نفسیاتی تجزیہ کیا جاتا ہے تو پرُ امن تحریک کے سلسلہ میں بینظیر کے بیانوں اور وعدوں پر خواہش کے باوجود یقین نہیں آتا اس لئے کہ پی پی کا قیام ہی انتقامی جذبہ اور ردعمل کا نتیجہ ہے ۔ پارلیمانی جمہوریت کی بحالی کے سلسلہ میں ایوب خان کی بنائی گئی گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے پیپلز پارٹی نے ملک میں ہڑتالوں، مظاہروں، لوٹ مار اور آتش بازی کا بازار گرم کیا جس کے نتیجہ میں قوم کو پارلیمانی جمہوریت تو نہیں ملی البتہ مارشل لا کا طوق ضرور اس کے گلے میں ڈال دیا گیا۔ یحیٰی خان کا یہی مارشل لا سقوط ڈھاکا پر منتج ہوا۔ 70ء کے انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے نہ صرف انکار کیا گیا بلکہ دوسری جماعتوں کے اراکین کو بھی دھمکی دی گئی کہ اگر کسی نے اجلاس میں شرکت کی تو ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگا کر عملاً ملک کو توڑنے کا اعلان کردیا گیا برسراقتدار آکر بھٹو مرحوم تاریخ میں پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ملک پر حکمرانی فرمانے لگے اس کے بعد ملک میں صحافت کا گلا گھونٹا گیا ' مخالفین کیلئے دلائی کیمپ قائم کیا گیا ' شاہی قلعہ کے عقوبت خانہ کو آباد کیا گیا اپنی ہی پارٹی کے بانی ارکان تک کو ان کی معمولی گستاخی پر بھی شرمناک طریقہ پر اذیت دی گئی انہیں زدکوب کیا گیا انہیں جیل کی زینت بنادیا گیا کسی پر بھینسوں کی چوری کا الزام لگایا گیا جن لوگوں پر قیادت کی طرف سے یہ عتاب نازل ہوا ان میں وفاقی وزراء اور بھٹو صاحب کے جانشین تک شامل تھے بات یہیں تک نہیں ہوئی بلکہ خود پارٹی کے کسی رکن کی بیٹی کو اغواء کیا گیا ، کسی کو گالیوں سے نوازا گیا، کسی صحافی کو تہہ خانہ میں بند کردیا گیا ' طلبہ اور مزدوروں کو لاٹھی اور گولی کا نشانہ بنایا گیا خواتین کے جلوسوں پر گھڑ سوار پولیس سے حملے کروائے گئے مخالف سیاست دانوں کی فصلوں اور باغات کو آگ لگوائی گئی ان کے کارخانوں کو تباہ کیا گیا حج پر جاتے ہوئے معززین کو ہوائی جہاز سے اتار لیا گیا علماء کی داڑھیاں نوچی گئیں اور ان کے ساتھہ جیل میں شرمناک برتاؤ کیا گیا مخالفین کے جلوسوں پر پی پی کے مسلح کارکنوں کے ذریعہ حملے کروائے گئے اگر کسی اخبار نے آزادیٔ صحافت کا لفظ بھی استعمال کیا تو اس کے اشتہارات بند کر دیئے گئے یا اخبار ہی کو بند کردیا گیا۔ بلوچستان پر فوج کشی کرکے موجودہ پاکستان کے مزید ٹکڑے کرنے کا اہتمام کیا گیا اور اس بہانہ صوبہ میں دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا بلوچستان کو یہ سزا محض اس لئے دی گئی کہ وہاں سے پی پی کا ایک بھی امیدوار انتخابات میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔

77ء میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر تحریک کے نتیجہ میں جب ملک میں مارشل لا نافذ ہوگیا اور بھٹو صاحب کو قتل کے جرم میں عدالت سے دی گئی سزا پر عمل درآمد کےبعد لندن میں آنسہ بینظیر بھٹو کے بھائیوں نے انتقام لینے کا عہد کیا اور اپنے مشن کو آگے بڑھانے کی غرض سے ایک بہت بڑی یہودی کمپنی کو پبلسٹی کا ٹھیکہ دیا گیا اور اس کے فوراً بعد الذوالفقار کے نام سے ایک دہشت گرد تنظیم قائم کی گئی جس نے پی آئی اے کے طیارے کو اغواء کرکے بے گناہ مسافروں کو ایک ہفتہ تک اذیت ناک حالات میں رہنے میں مجبور کیا اس کے ساتھہ ہی ملک میں دہشت گردی ' تخریب کاری اور قتل کے کئی واقعات کی ذمہ داری اس تنظیم نے خود قبول کی۔

اپریل میں وطن لوٹنے سے پہلے مس بینظیر بھٹو کے امریکہ اور روس کے اعلانیہ اور شام اور لیبیا کے خفیہ دورے بھی دعوت فکر دیتے ہیں شام کے دورہ میں تو مبینہ طور پر انکے اپنے بھائی سے جو الذوالفقار کے سرغنہ ہیں آئندہ کی حکمت عملی طے کرنا شامل تھا حال ہی میں یہ خبر بھی آچکی ہے کہ اپنی سرگرمیوں کی تشہیر اور منصوبہ بندی کیلئے ایک غیر ملکی پبلسٹی کمپنی کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں ملک کی ذمہ دار ترین شخصیت نے یہ بیان دیا ہے کہ پی پی کو غیر ممالک نے فنڈز مل رہے ہیں ' بھارت کی حکومت تو کھلم کھلا بھٹو کی حمایت کررہی ہے اور اس حمایت کے ڈانڈے ماضی میں دیئے گئے اس بیان سے ملتے ہیں کہ جس میں دھمکی دی گئی تھی کہ اندرا کے ٹینکوں پر چڑھ کر پاکستان میں بھٹو خاندان کی حکومت قائم کی جائے گی۔

ان تمام تکلیف دہ حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے تحریک کو ہر حال میں پرُ امن رکھنے کیلئے مس بھٹو کے خوش آئند اعلانات کا جائزہ لیا جائے تو کسی خوش فہمی کی گنجائش باقی نہیں رہتی اس لئے کہ آج بھی وہ اپنی طلبہ تنظیم کو ہر لحاظ سے منظم کرنے اور کارکنوں کے جتھے بنانے میں مصروف نظر آتی ہیں دوسری طرف الذوالفقار سے مس بینظیر کے گہرے تعلقات کے ثبوت بھی مل رہے ہیں اس تنظیم سے تعلق کا سب سے بڑا ثبوت تو یہ ہے کہ مس بھٹو کے بھائی اس کے سربراہ ہیں دوسرا ثبوت یہ ہے کہ آج تک مس بینظیر بھٹو نے اس تنظیم کی سرگرمیوں کی نہ صرف یہ کہ مذمت ہی نہیں کی بلکہ لاتعلقی کا اظہار تک نہیں کیا اس کے برعکس اس سے تعلق کا ثبوت اکثر بیشتر مہیا کیا جاتا رہا ہے اور اس طرح کہ دہشت گردی کا ارتکاب کرنیوالوں کی ہلاکت کو شہادت کا درجہ دیکر ان کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے اور ملک میں بحالیٔ جمہوریت کے سلسلہ میں ان کی خدمات کو سراہا جارہا ہے لیکن اس دہشت گردی کا شکار ہونے والے چودھری ظہور الٰہی اور ظہور الحسن بھوپالی جیسے پرُامن اور محب وطن شہریوں کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا جاتا مرنے والوں کے اہل خاندان سے اظہار تعزیت الگ بات ہے اور اس کو ہیرو قرار دینا الگ بات۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعلان کردہ پرُ امن تحریک کو پرُ تشدد تحریک کی شکل کس طرح دی جاسکتی ہے اس تمام تر انحصار حکمت عملی پر منحصر ہے لیکن ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ اس سلسلہ مٰں اگر منصوبہ بندی کی گئی تو وہ اس طرح ہوگی کہ تشدد کی ذمہ داری حکومت یا مخالفین کے سرمنڈھ دی جائے اور یہ کام غیر ملکی ماہرین اور ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بھی بڑی آسانی سے کیا جاسکتا ہے ممکنہ طور پر جو طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں ان میں ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے ہی کارکنوں کے ہاتھوں میں مسلم لیگ یا جماعت اسلامی کے جھنڈے دیکر اپنے جلسوں اور جلوسوں پر حملے کروائے تاکہ ان کو اپنی کاروائی کا جواز بنا کر اپنا کھیل شروع کردیا جائے اور اعلان کردیا جائے کہ اب کارکنوں کو قابو میں رکھنا مشکل ہوگیا ہے اور اس طرح ملک میں توڑ پھوڑ اور تخریب کاری کا آغاز کردیا جائے دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ جلسوں اور جلوسوں میں فحش گالیوں اور زبردستی مخصوص نعرے لگوانے کے سلسلہ کو مزید آگے بڑھایا جائے اور مزاحمت کرنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے تاکہ دوسری طرف سے ردعمل کا اظہار ہو اور پھر اپنی پرُ امن تحریک کو پرُ تشدد تحریک میں تبدیل کر دیا جائے ان ہر دو طریقوں کو اختیار کرنے سے بات آہستہ آہستہ آگے بڑھے گی اور ایسی صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت ان کو دبالے اس لئے غالب امکان یہ ہے کہ ایسی صورت پیدا کی جائے گی کہ ملک گیر پیمانے پر ہنگامے شروع کئے جائیں تاکہ مخالفین اور انتظامیہ کو اچانک نشانہ بنایا جاسکے اور حکومت کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے اور یہ مقصد ملک میں سب سے بڑا ڈرامہ رچاکر کیا جاسکتا ہے اور وہ اس طرح کہ پیپلز پارٹی کا خاص ایجنٹ کسی جلسہ یا جلوس کے دوران مس بینظیر پر حملہ کردے لیکن اس کا نشانہ پارٹی کے ایک یا دو لیڈروں کو بنادیا جائے ایسی صورت میں بھرپور پرُتشدد کاروائی کا بہانہ پی پی کے ہاتھہ آجائے گا اس قسم کے ڈرامہ سے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے ساتھہ بھارت جیسے ملکوں کو بھی بات کو آگے بڑھانے کا موقع ملے گا اور خود ملک کے اندر بھی عوام کی حمایت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس طرح ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا آسان ہو جائے گا جس کے نتیجہ میں چند معصوم اور بے گناہ افراد کا خون بہے گا لوگوں کے کاروبار متاثر ہوں گے اور سرکاری اور نجی جائیدادوں کو نقصان پہنچے گا یہ سب کچھہ حصول اقتدار کیلئے کیا جائے گا لیکن ایک بات سو فیصد یقینی ہے کہ اس طرح اقتدار پیپلز پارٹی کو نہیں ملے گا ہاں ملک پر ایک مرتبہ پھر مارشل لا مسلط ہوجائے گا جس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ ملک میں جمہوریت کا سورج کب طلوع ہوگا اور یہ کہ خدانخواستہ ایسی صورت پیدا ہوئی تو خود پاکستان کی شکل اختیار کرے گا اس بارے میں کوئی پیش گوئی ممکن نہیں۔

ان حالات میں پیپلز پارٹی سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں اور کارکنوں کو چاہئے کہ نوسال بعد ملک میں جنم لینے والی جمہوریت کو تقویت پہنچانے کی کوشش کریں اگر وہ اس جمہوریت کو لولی لنگڑی سمجھتے ہیں تب بھی اس کا علاج کرنے کے بارے میں تدابیر سوچنی چاہیے یہ نہیں کہ اس نوازائیدہ جمہوریت کا گلا ہی گھونٹ دیا جائے ملک کے داخلی اور خارجی حالات افراتفری اورہنگامہ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے قائدین کرام کو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان میں جمہوریت کے قیام یا اس کی بحالی کیلئے جب بھی کسی تحریک نے شدت اختیار کی ہمیشہ مارشل لا ہی قوم کو ملا اور مارشل لا کسی بھی۔ ۔ ۔ ۔ جسد سیاسی کیلئے سرطان کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے جو بھی قدم اٹھایا جائے وہ خوب سوچ سمجھہ کر اٹھایا جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیر ملکی طاقتوں کے وعدوں پر بھروسہ کرکے یا ان کا آلۂ کار بن کر نہ تو حقیقی جمہوریت حاصل کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اپنے عوام کیلئے خوش حالی اور ترقی کی ضمانت دی جاسکتی ہے اس سلسلہ میں بنگہ دیش اور افغانستان کی مثالیں ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔

No comments:

Post a Comment